پاکستان کی فوج میں اختلاف رائے کا تاثر ’ذہن سازی‘ اور پالیسی کی ’تبدیلی‘ میں ٹکراؤ
’میں وہ لمحہ کبھی نہیں بھول سکتی جب وردی پہنے نوجوان میرے بےگناہ شوہر پر بندوق تانے کھڑے تھے۔ کوئی غیر ظلم کرے تو دکھ نہیں ہوتا۔ یہ تو اپنے تھے، اس لیے افسوس بھی زیادہ ہے۔‘
یہ دعویٰ ایک سابق فوجی افسر کی اہلیہ کا ہے جو اُس رات کے بارے میں بتا رہی تھیں جب ان کے گھر چھاپہ مارا گیا۔
سابق فوجی افسران اور ان کے اہلخانہ میں گذشتہ دو برسوں کے دوران خوف و ہراس اتنا بڑھ چکا ہے کہ وہ اب میڈیا سے بات کرنے سے کتراتے ہیں۔
یہ خاتون بھی نہیں چاہتیں کہ ان کے شوہر کا نام لکھا جائے۔ ان کا دعوی ہے کہ ان کے شوہر ایسے سابق افسران میں سے ہیں جنھیں مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر ’سابق اور موجودہ آرمی چیفس، فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت اور حالیہ سیاسی جوڑ توڑ میں فوج کے کردار، پی ڈی ایم جماعتوں کے خلاف اور عمران خان یا پی ٹی آئی کی حمایت میں بات نہ کرنے کی تنبیہ کی گئی۔‘
ان کے شوہر نے بتایا کہ ’مجھے کہا گیا کہ میں عمران خان کے حق میں بیان یا تجزیہ نہ دیا کروں۔ ایک سرکاری ادارے کے افسر نے کہا کہ آپ ہمارے سینیئر ہیں، ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ آپ کو روز نوٹس بھیج کے بلائیں اور یہاں بٹھائے رکھیں مگر ہم مجبور ہیں۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ اس کو صبح سے شام تک بٹھائے رکھو۔‘
یہ سابق فوجی افسر اپنی مدت ملازمت کے دوران فوج میں اہم عہدوں پر تعینات رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد کئی برسوں تک فوجی قیادت کے قریب سمجھے جاتے تھے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں ایک سول سرکاری ادارے کے افسر نے یہ ’پیغام‘ بھی دیا کہ وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید ختم کریں اور ان کی پالیسیوں کا ’دفاع‘ کریں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ’اُس نے کہا کہ آپ عمران خان کے لیے بات کرنا چھوڑ دیں۔۔۔ میں انھیں کہتا کہ میں عمران خان کے حق میں نہیں بول رہا، نہ ہی میں فوج کے خلاف بات کر رہا ہوں۔ میں تو صرف چند افراد کی ان پالیسیوں اور مداخلت کے خلاف ہوں جو اس ملک کو تباہ کر رہی ہیں۔‘
اُن کے مطابق انھیں ایف بی آر، ایف آئی اے اور نیب (یعنی قومی احتساب بیورو) جیسے ادارے آئے روز نوٹس بھیج کر طلب کرتے ہیں۔
ان سابق فوجی افسر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایک ایسی ہی طلبی کے موقع پر اِنھی میں سے ایک سرکاری ادارے کے سینیئر افسر نے ان کو دھمکی آمیز ’الٹی میٹم‘ دیتے ہوئے کہا کہ ’پھر اِس کے بعد اگلا قدم تو آپ کی گرفتاری ہی ہے۔ یہ میں آپ کو ابھی بتا دیتا ہوں۔‘
وہ واحد سابق آرمی افسر نہیں جنھیں مختلف ریاستی اداروں کی جانب سے مسلسل ہراساں کیا جاتا رہا اور اب وہ خاموش رہنے پر مجبور ہیں۔
اس حوالے سے صورتحال کو مزید جاننے کے لیے بی بی سی نے متعدد ریٹائرڈ سینیئر فوجی افسران سے بات کی ہے۔۔۔۔
’مجھے جی ایچ کیو طلب کیا گیا اور کہا گیا کہ لوگ آپ کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔ آپ آرمی چیف (جنرل عاصم منیر) کی حمایت کریں۔ میں نے کہا میں کہیں بات نہیں کروں گا۔ ہماری فیملیز کو دھمکایا جاتا ہے۔ فون ٹیپ ہوتے ہیں، نظر رکھی جاتی ہے۔ حالات خراب ہو گئے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں سوچا تھا۔‘
یہ دعویٰ ایک سابق لیفٹیننٹ جنرل کا ہے جنھوں نے بی بی سی سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔
چند برس قبل ریٹائر ہونے والے ایک اور سیینئر سابق فوجی افسر سے، جو اپنے سخت موقف کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، رابطہ کرنے پر ان کے الفاظ کچھ یوں تھے: ’آپ سے بات کر لی تو کچھ دن بعد آپ کو مجھے ملنے اڈیالہ جیل آنا پڑے گا۔‘
ریٹائرڈ فوجی افسران کی رائے اہم کب اور کیوں ہوئی؟
پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ مضبوط ترین ریاستی ستون سمجھی جاتی ہے اور ان پر الزام ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں نہ صرف مداخلت کرتی ہے بلکہ سیاسی جوڑ توڑ ان کے اشاروں پر ہی ہوتا ہے۔
خود فوجی افسران عوامی سطح پر عوامی یا سیاسی معاملات پر رائے دینے کے مجاز نہیں ہیں اور ملک کا آئین انھیں ایسے کسی بھی اقدام سے روکتا ہے جس سے ان پر کسی سیاسی جماعت کی جانبداری کا تاثر ملے۔ اپنی پالیسیوں کا دفاع کرنا اور عوام سے رابطہ قائم رکھنا، یہ امور عام طور پر وہ فوجی افسران سرانجام دیتے رہے ہیں جو حاضر سروس نہ ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ ریٹائر ہونے والی فوجی افسران اکثر اخبارات اور ٹی وی سکرینز پر عسکری پالیسیوں، اقدامات اور فیصلوں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ قانون کے تحت کوئی بھی فوجی افسر اپنے عہدے سے سبکدوشی کے تین سال ختم ہونے کے بعد نہ صرف سیاسی معاملات پر اپنی رائے دے سکتا ہے بلکہ سیاست میں کسی بھی عام شہری کی طرح حصہ بھی لے سکتا ہے۔
دوسری جانب دنیا کی دیگر افواج کی طرح پاکستانی فوج میں بھی سینیئر اور سبکدوش ہونے والے افسران کو فوج کے اندر عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ریٹائر افسران کی بڑی تعداد آرمی چیف کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرتی ہے اور فوجی سربراہ وقتاً فوقتاً ان سینیئر ریٹائر فوجی افسران سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رکھتے ہیں۔
ان سابق افسران کی تنظیمیں بھی موجود ہیں جو ریٹائر افسروں اور جوانوں کے مسائل کے حل کے لیے حاضر سروس افسران سے رابطہ قائم رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ فوج کا کیا بیانیہ ہے اور کسی بھی فوجی سربراہ کی کیا پالیسیاں ہیں، ان کا دفاع کرتے بھی یہی سابق افسران نظر آتے ہیں۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کی اور کہا کہ ماضی میں سابق فوجی افسران کی اتنی بڑی تعداد تبصرے کرتی نظر نہیں آتی تھی۔
ان کے مطابق ’ماضی میں ریٹائرمنٹ کا مطلب مکمل ریٹائرمنٹ تھا۔ ان میں سے کچھ ریٹائر ہونے کے بعد کتابیں لکھتے تھے۔۔۔ اپنے فوجی دَور کی، کاکول اکیڈمی کی اور عام طور پر جنگوں سے متعلق یا پھر افسانہ لکھتے تھے۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ اتنی بڑی تعداد میں ایکس سروس مین اخباروں اور ٹی وی چینلز پر رائے دیتے رہیں۔ یہ سلسلہ تو 2008، 2009 کے بعد شروع ہوا۔‘
یہ سلسلہ اتنا پھیلا کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے 2019 میں صحافیوں اور نیوز چینلز کو ایک فہرست جاری کی گئی جن میں 20 سے زائد تجزیہ کاروں اور ریٹائرڈ افسران کے نام تھے جن سے مختلف امور خاص طور پر سیاسی امور کے لیے رائے لینے کا کہا گیا۔
یہ فہرست جاری ہونے سے چند روز پہلے میڈیا کے نگران ادارے پیمرا نے بھی ٹی وی چینلز کے لیے ایک ہدایت نامہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ کسی بھی سابق فوجی افسر کو تجزیے کے لیے دعوت سے پہلے آئی ایس پی آر سے اجازت لینا ہو گی۔ اس ہدایت نامے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ سکیورٹی معاملات پر بات چیت کے لیے مہمان کو دفاعی تجزیہ کار جبکہ کسی بھی اور معاملے پر بحث کے لیے انھیں صرف ایک ’تجزیہ کار‘ کے طور پر متعارف کرایا جائے۔
پیمرا نے اس کی وجہ اکثر بحث کا رُخ سیاسی معاملات کی جانب مڑنا اور ان افسران کا طویل مدت سے ریٹائرمنٹ کے باعث تازہ ترین سکیورٹی پالیسیوں پر مکمل عبور نہ ہونا بتائی تھی مگر گذشتہ دو سال میں صورتحال تیزی سے بدلی ہے۔
اسی فہرست میں شامل متعدد سابق افسران کو مبینہ پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا اور جیل بھی جانا پڑا۔
فوجی قیادت اور ریٹائرڈ افسران میں اختلاف کب آیا؟
ایک دہائی پیچھے جائیں تو پاکستان میں پہلے ٹی وی چینلز اور پھر سوشل میڈیا پر سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے حق میں ایک بھرپور مہم نظر آتی ہے۔
سنہ 2011 میں بھی ان کے حق میں سوشل میڈیا پر مہم چلتی رہی تھی۔ مثال کے طور پر اگر اس وقت کا ٹویٹر (ایکس) ڈیٹا دیکھیں تو ’ایک سونامی، ایک طوفان، عمران خان، عمران خان‘ جیسے ٹرینڈز عام تھے مگر 2013 کے انتخابات کے بعد اس بیانیے میں شدت آئی۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے علاوہ عمران خان کی پروجیکشن کے بیانیے کی حمایت کرتے اسی فہرست میں شامل بیشتر ریٹائرڈ افسران بھی نظر آتے تھے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید سمجھتے ہیں کہ سابق فوجی افسران جو تجزیہ کار کے طور پر ہمیں گذشتہ ایک دہائی میں نظر آئے، ان کی باقاعدہ ذہن سازی کی گئی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں بہت سال سے ادارے کی طرف سے ان کو پروگرام کیا گیا تھا کہ انھیں سبھی سیاستدان کرپٹ لگتے تھے۔ ان کے کنٹونمنٹ میں مخصوص نیوز چینلز، اخبارات اور اینکرز پر پابندی تھی۔ اسی کو ’کنڈیشنگ‘ (یعنی ذہن سازی) کہا جاتا ہے۔ کم از کم دس سال کی مسلسل ذہن سازی کی گئی کہ تمام سیاستدان کرپٹ ہیں اور باری باری حکومت کرتے ہیں۔‘
نصرت جاوید کے مطابق ’اس دوران عمران خان جو کہ (پاکستانی سیاست میں) ایک آؤٹ سائیڈر تھے، ان کی پروجیکشن ایسے کی گئی کہ جیسے وہی ہمارے تمام مسائل کا حل اور ہمارے تمام سوالوں کا جواب ہیں۔‘
’مگر (2018 کے بعد) وہ بھی ڈیلیور کرنے میں ناکام ہو گئے۔ تو فوج کی قیادت نے اپنا فیصلہ کر لیا کہ عمران خان بھی نہیں مگر وہ لوگ جن کی انھوں نے کم از کم ایک دہائی لگا کر ذہن سازی کی تھی ، وہ اب اس نظریے سے پیچھے نہیں ہٹ سکے۔‘
یہ سب اس وقت ہوا جب عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ آمنے سامنے آئے۔
’نواز شریف کرپٹ نہیں کے بیانیے کو کیسے مان لیا جائے‘
اکتوبر 2021 میں خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی پر عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان اختلاف نے وزیر اعظم ہاؤس اور جی ایچ کیو کی سرد جنگ عوام کے سامنے رکھ دی۔
پھر اپریل 2022 میں جب تحریک عدم اعتماد پیش ہو رہی تھی، عمران خان نے کھل کر ’امریکہ‘ اور پھر فوجی قیادت کو اس ’سازش‘ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ان کے اس بیانیے کو عوام کی ایک بڑی تعداد سمیت آئی ایس پی آر کی فہرست میں شامل (اور جو شامل نہیں ہیں) بیشتر سابق فوجی افسران نے بھی قبول کیا۔
ان سابق فوجی افسران نے مبینہ فوجی مداخلت کی کُھل کر مخالفت کی جس کے بعد ان کے خلاف کارروائیوں کا آغاز ہوا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا کم ہی ہوا ہے جب سابق فوجی افسران خود فوج کی پالیسیوں یا اقدامات کے خلاف آواز بلند کریں۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ فوجی قیادت کی بدلتی پالیسی نے ان سابق افسران کو مشکل میں ڈال دیا۔
’فوج نے یہ فیصلہ کیا کہ اب ان ریٹائر افسران کو اپنا موقف اور بیانیہ عوام تک پہنچانے کے لیے استعمال کیا جائے، تو انھیں استعمال کیا گیا مگر اب جب انھیں لوگوں کو کہا گیا کہ پچھلے بیانیے سے مختلف بیانیہ بیچیں تو یہ ان کے لیے مشکل ہو گیا کہ کل تو میں کچھ اور کہہ رہا تھا، آج میں اس شخص کا دفاع کرنا کیسے شروع کر دوں جس کو میں کل تک ایک کرپٹ اور نا اہل و نالائق سیاستدان کہتا تھا۔‘
فوجی پالیسیوں کی حمایت میں مختلف پروگرامز اور تجزیوں کا حصہ رہنے والے سابق لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کو گرفتار کیا گیا۔ ان کی گرفتاری اور سابق فوجی افسران کی جانب سے دباؤ ڈالے جانے کی شکایات سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے کہا تھا کہ ریٹائرڈ فوجی افسران ’فوج کا اثاثہ ہیں لیکن قانون سے بالا تر نہیں‘ تاہم ریٹائرڈ فوجی افسران کی تنظیموں کو ’سیاست کا لبادہ نہیں اوڑھنا چاہیے۔‘
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ فوجی قیادت اور عمران خان کا ایک صفحے پر ہونے اور اپوزیشن میں پی ڈی ایم جماعتوں کے قائدین کی مبینہ کرپشن کا بیانیہ اس قدر مضبوط تھا کہ جب اس میں ’تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی تو سب سے بڑا دھچکا شاید انھی سابق فوجی افسران کے لیے تھا۔‘
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سابق فوجی افسر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نوے کی دہائی سے ہی فوج میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو سخت ناپسند کیا جاتا تھا اور یہ تاثر اب تک قائم ہے۔
’اب جب اچانک فوجی قیادت (اس وقت کے آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ) کی جانب سے یہ پیغام ملنا شروع ہو گئے کہ ’نواز شریف کرپٹ نہیں‘ تو یہ کیسے مان لیا جائے؟‘
سابق فوجی افسران کے خلاف کارروائیاں
سابق وزیر اعظم عمران خان کے حکومت سے جانے کے بعد فوج کے ان سابق افسران کے خلاف مختلف کارروائیوں کا آغاز ہو گیا تھا جو پی ڈی ایم کی حکومت اور اس سے قبل عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی مخالفت کر رہے تھے۔
متعدد ریٹائرڈ فوجی افسران کی پنشن بند ہوئی اور ان سے سرکاری مراعات واپس لے لی گئیں۔ بعض کو پیغامات بھجوائے گئے کہ ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق کم از کم پانچ افسران سے فوج مخالف مہم چلانے کے اِلزام کے تحت پنشن اور مراعات واپس لے لی گئیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق حال ہی میں پاکستانی فوج نے بغاوت پر اکسانے کے اِلزام میں بیرون ملک مقیم دو ریٹائرڈ فوجی افسران، میجر (ر) عادل فاروق راجا اور کیپٹن (ر) حیدر رضا مہدی کو بالترتیب 14 اور 12 سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق اس وقت ایک ریٹائرڈ فور سٹار جنرل کی نواسی، ریٹائرڈ فور سٹار جنرل کا داماد، ریٹائرڈ تھری سٹار جنرل کی اہلیہ اور ایک سابق ٹو سٹار جنرل کی اہلیہ اور داماد بھی ’احتسابی عمل‘ سے گزر رہے ہیں۔
اب مبینہ فوجی مداخلت کی پالیسیوں کے ناقد ان ریٹائرڈ افسران کی جانب سے خاموشی نظر آتی ہے۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ایسے سابق افسران کی تعداد کم ہے جو اب بھی اپنی رائے پر قائم ہیں۔
’میرے خیال میں زیادہ تر خاموش ہو گئے ہیں کیونکہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد حاصل فوجی مراعات کو کھونا نہیں چاہتے۔ اس لیے وہ محتاط ہیں۔ انھیں خود اپنی حدود کا بھی اندازہ ہے۔‘
فوج، عمران خان اور دو رائے: ’نو مئی کا فوج کو فائدہ، عمران خان کو نقصان‘
نو مئی 2023 کی شام پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتاری کے بعد ملک بھر میں مختلف فوجی چھاؤنیوں کے باہر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعداد جمع ہو چکی تھی اور جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ جاری تھا۔
انھی چھاؤنیوں میں سے ایک میں شائستہ جبین (فرضی نام) اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ یہ سوچ رہی تھیں کہ اگر ’حملہ آور‘ ان کے گھر تک آ گئے تو کیا ہو گا۔ ’ڈر؟ یہ تو چھوٹا لفظ ہے۔ میں سوچ رہی تھی کہ اپنی بچیوں کی جان کیسے بچاؤں گی۔‘
پاکستان کے سرحدی علاقے میں تعینات ایک حاصر سروس فوجی افسر کی اہلیہ، شائستہ سے بی بی سی نے نو مئی کے واقعات کے کچھ دن بعد بات کی تھی۔
شائستہ کہتی ہیں کہ انھوں نے کبھی خود کو اتنا ’غیر محفوظ‘ نہیں سمجھا جتنا اس دن محسوس ہوا۔
’اگر وہ اتنی آسانی سے ایک جنرل کے گھر حملہ کر سکتے ہیں تو ہم تو بہت آسان ٹارگٹ ہیں۔ میں بس یہی سوچ رہی تھی۔‘
یہ وہ دن تھا جب لاہور کے کور کمانڈر کی رہائش گاہ کو آگ لگائی گئی، راولپنڈی میں فوج کے جنرل ہیڈکوارٹر کے باہر نہ صرف شدید ہنگامہ آرائی ہوئی بلکہ مظاہرین کو جی ایچ کیو کا گیٹ پھلانگتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔
ان افراد میں مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے کارکن بھی شامل تھے۔
شائستہ کے بقول وہ خود بھی ’ووٹ کی حد تک‘ عمران خان کی سیاست کی حمایت کرتی رہی ہیں، لیکن نو مئی کے بعد انھیں ’سخت مایوسی‘ ہوئی۔ ’مجھے تو افسوس ہے کہ میں نے کبھی ان (عمران خان) کے بیانیے کو سپورٹ کیا۔‘
یہ سوچ صرف شائستہ تک ہی محدود نہیں ایک فوجی ہسپتال میں تعینات ڈاکٹر گُل (فرضی نام) بھی ان فیمیلیز کا حصہ ہیں جنھوں نے نو مئی کے واقعات کے بعد عمران خان کی حمایت تَرک کر دی ہے۔
بی بی سی نے ڈاکٹر گل سے بھی گذشتہ برس نو مئی کے واقعات کے کچھ دن بعد بات کی تھی۔
’میں ایک سنگل ماں ہوں اور میرے تین بچے راولپنڈی میں میرے والدین کے پاس ہیں۔ جب مجھے کینٹ کے باہر ہنگاموں کا پتا چلا تو میں پریشان ہو گئی۔ باہر سے گولیاں چلنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں یہی سوچ رہی تھی کہ یہ لڑائی زیادہ ہو گئی تو کیا ہوگا۔ میں مسلسل فون پر تھی۔ میں نے راولپنڈی میں اپنے کچھ کولیگز کو بھی فون کیے کہ میری فیملی کا خیال رکھیں۔ میں پوری رات سو نہیں سکی تھی۔‘
فوجی قیادت اور عمران خان کے تعلقات خراب ہوئے تو فوج اور پی ڈی ایم کا نیا بیانیہ خود ڈاکٹر گل اور ان جیسے فوجی اہلکاروں کے لیے بھی ناقابلِ یقین تھا۔
یہی وجہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے دوران اور عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد فوج میں بھی مبینہ فوجی مداخلت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور عمران خان کے لیے ایک واضح حمایت موجود تھی۔
’اگر آج بھی مجھے کوئی کہے کہ کس کو ووٹ دو گے، تو مجھے کم از کم موجودہ سیاستدانوں میں عمران خان ہی بہتر لگتا ہے۔ وہ پرفیکٹ نہیں، مگر جو ہمارے پاس آپشنز ہیں ان میں وہی بہتر ہیں۔‘
ایک فوجی افسر نے یہ جملہ اس وقت کہا تھا جب عمران خان تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت سے باہر نکل چکے تھے تاہم اس حمایت میں نو مئی کے بعد واضح کمی آئی ہے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر کے خیال میں نو مئی کا فوجی قیادت کو ’فائدہ‘ ہوا اور فوج میں عمران خان کی حمایت ختم ہوئی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’نو مئی سے پہلے فوج میں تقسیم نظر آتی ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ عمران خان کی فوج میں خاصی حمایت ہے۔ نو مئی کے بعد ایسا لگتا ہے کہ فوج سمجھتی ہے کہ ان کے شہدا کی توہین ہوئی اور وہ پی ٹی آئی کو سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ نو مئی کا فوج کو فائدہ اور عمران خان کو نقصان ہوا۔‘
تاہم وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عوامی رائے کا اثر فوج کے اندر رائے پر ہونا ناممکن نہیں۔ حامد میر کہتے ہیں کہ ’فوج اِسی ملک کے لوگوں پر مشتمل ہے، افسران اور جوانوں کے خاندان اسی ملک میں ہیں۔ اگر ہمارے معاشرے میں ہی تقسیم ہے تو اس کا اثر فوجیوں پر بھی پڑتا ہے۔ نو مئی سے پہلے افسران خوش نہیں تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے مگر نو مئی کے بعد وہ آنکھیں بند کر کے وہی کر رہے ہیں جو ان سے کہا جاتا ہے۔ تو فوج متحد ہے۔‘
بی بی سی سے ایک سابق فوجی افسر نے بھی بات کی اور کہا کہ ’فوج ایک ادارے کے طور پر منقسم نہیں ہو سکتی اور فوج کے نظام میں ایسی کسی تقسیم کی کوئی گنجائش نہیں۔ فوجی جوان اور افسران سیاسی رائے رکھتے ہیں نہ ہی اس کا اظہار کرنے کی اجازت ہے جبکہ آپریشنل امور میں فوج کا سخت نظام ہے جس کی پابندی کی جاتی ہے اور ماتحت عملہ احکامات پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ اس لیے ملک کی سیاست میں کیا ہو رہا ہے، اس کا فوج کے اندر کوئی اثر نہیں ہوتا۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک اور سابق لیفٹیننٹ جنرل کہتے ہیں کہ ملک کی ’مسلح افواج کے اہلکاروں کے ذہن میں یہ سوال تو ضرور اٹھتا ہے کہ ملک میں آخر کیا ہو رہا ہے؟‘
وہ کہتے ہیں کہ ’عوام کے دِلوں میں فوج کے لیے شکوے شکایتیں ہونا الارمنگ ہے اور اس کا اثر دُور تک جائے گا۔ تو دوسری طرف مسلح افواج کے اہلکار بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ وہ بھی سنتے ہیں کہ کیا بات کی جا رہی ہے۔ اور اگر وہ نہیں سنتے کہ باہر کیا بات ہو رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سسٹم میں کہیں کچھ بڑی خرابی ہے۔ کیونکہ عوام اور فوج کا ایک صفحے پر ہونا لازم ہے۔‘
تو کیا فوج میں کسی جماعت کی حکومت کے خاتمے پر اختلاف رائے پہلی بار سامنے آیا؟
نصرت جاوید کے خیال میں ایسا نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں بھی فوجی مداخلت کے بارے میں فوج کے اندر افسران مختلف رائے رکھتے رہے ہیں۔
’ہمیں یہ سوچ کر بہت اچھا لگتا ہے کہ یہ پاکستان میں پہلی بار ہو رہا ہے مگر ایسا نہیں۔ یہ تو 1950 سے ہو رہا ہے کہ ہماری عوام کی اکثریت یہ سمجھتی اور جانتی ہے کہ اس ملک میں طاقتور ترین ادارہ کون سا ہے۔ جب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگی تو اس وقت مجھے کئی مرتبہ جو ہمارے ہم عمر فوجی تھے، وہ کہتے تھے کہ ضیا الحق نے بڑا ظُلم کیا۔‘
نو مئی کے بعد فوج میں بغاوت اور ردعمل کی افواہیں اس قدر پھیل گئی تھیں کہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کو ایک ٹی وی پروگرام میں یہ کہنا پڑا کہ فوج اپنے سربراہ کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کی قیادت میں متحد ہے اور رہے گی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے اس بیان کی توثیق کرتے ہوئے ایک سینیئر آرمی آفیسر کہتے ہیں کہ ’نو مئی کے بعد عمران خان کی سیاست کی حمایت کرنے والے پیچھے ہٹے ہیں۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ’کوئی بھی فوجی یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کے شہید ہونے والے فوجی بھائی کی یادگار کو تباہ کیا جائے، اس کے ساتھیوں اور اہلخانہ پر حملے ہوں یا ان کے سینیئر افسران کو گالی دی جائے۔
’عمران خان کی سیاست کا یہ رنگ نو مئی کو سامنے آیا تو وہ لوگ جو فوج میں رہتے ہوئے ان کی حمایت میں بول رہے تھے وہ خود ہی سمجھ گئے کہ یہ وہ شخصیت نہیں ہیں جنھیں وہ فالو کرنا چاہتے تھے۔‘
’صرف ایک آدمی۔۔۔‘ عوام میں فوج مخالف بیانیہ
نو مئی کے واقعات کے بعد جہاں مبینہ طور پر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے عمران خان کے ان کارکنوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز ہوا جنھوں نے مبینہ طور پر فوجی تنصیبات پر حملے کیے، وہیں فوج کے اندر بھی فوجی افسران کے خلاف ’احتسابی عمل‘ شروع ہوا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق مختلف گیریژنز میں پر تشدد واقعات پر دو تحقیقات کی گئیں اور فوجی تنصیبات کی سکیورٹی میں ناکامی پر ذمہ داران کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق فوج نوکری سے برخاست ہونے والوں میں ایک لیفٹننٹ جنرل سمیت تین اعلیٰ فوجی افسران شامل تھے۔ تین میجر جنرلز اور سات بریگیڈیئر جنرلز سمیت 17 اعلیٰ افسران کے خلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی گئی۔
ان اقدامات سے فوج میں تو بظاہر اندرونی خلیج کم ہوتی دکھائی دیتی ہے لیکن دوسری طرف عام شہری اب کُھل کر فوج کی سیاست میں مداخلت پر بات کرتے نظر آتے ہیں۔
وہ رائے جس کا اظہار پہلے دبے لفظوں کیا جاتا تھا، اب کھلے عام ہو رہا ہے اور یہ تنقید بعض اوقات اس قدر سخت ہوتی ہے کہ اس سے قبل عوامی سطح پر اس کا تصور بھی مشکل تھا۔
سینیئر صحافی حامد میر کے مطابق فوج کی سیاست میں مداخلت کے خلاف پہلے تنقید وہاں ہوتی تھی جہاں لوگوں کو زیادہ تکلیف پہنچتی تھی، مگر اب یہ معاملہ بڑھ گیا ہے۔
’سب سے پہلے بلوچستان میں یہ (فوج مخالف جذبات) سلسلہ شروع ہوا۔ پھر خیبرپختنوخوا، سندھ اور پھر نو مئی 2023 کے بعد سے اب یہ پنجاب میں بھی واضح ہے۔ لوگ بہت کُھل کر فوج پر تنقید کر رہے ہیں۔ میں ماضی میں جب سیاست میں فوج کے کردار پر تنقید کرتا تو پنجاب سے لوگ کہتے کہ ’ تم غدار ہو۔‘ اب لاہور کے بازاروں اور سڑکوں پر رَوک رَوک کر پنجابی میں کہتے ہیں ’تُسی صیحح کیندے سی (آپ ٹھیک کہتے تھے)۔‘
یہاں ایک سابق فوجی افسر بھی حامد سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عوام اب سیاست میں فوجی مداخلت کی بات کرتی ہے۔
’آپ باہر جائیں، یونیورسٹیز میں طلبہ، سڑکوں پر مزدوروں، بسوں اور ٹیکسیوں میں ڈرائیورز کی باتیں سنیں، اب لوگ فوج کے سیاسی جوڑ توڑ کی بات کرتے ہیں۔ یہ پہلے نہیں ہوتا تھا۔‘
عوامی رائے اپنی جگہ لیکن نو مئی کے بعد عمران خان نے خود اپنے ساتھ روا سلوک کا ذمہ دار اب فوج کو بطور ادارہ نہیں بلکہ فوج کے سربراہ کو قرار دیا۔
13 مئی کو احتساب عدالت کے کمرے میں اس سوال کے جواب میں کہ ’کیا یہ تاثر درست ہے کہ اب یہ عمران خان اور سکیورٹی ایجنسیز کے درمیان جنگ ہے؟‘ انھوں نے کہا کہ ’نہیں، سکیورٹی ایجنسیز نہیں، یہ صرف ایک آدمی ہے۔ آرمی چیف۔ صرف ایک آدمی۔‘
عمران خان کا اشارہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی طرف تھا۔ وہ ابھی بات کر ہی رہے تھے کہ ان کے ایک ساتھی نے اٹھ کر کیمرہ بند کروانے کی کوشش کی۔
عمران خان کا فوج کے سربراہ کو اقتدار سے علیحدگی کا ذمہ دار ٹھہرانے کا بیانیہ جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے سے کہیں پہلے نہ صرف آ چکا تھا بلکہ ان کے کارکنوں میں سرایت بھی کر چکا تھا جو نو مئی کو پاکستان کی سڑکوں پر بھی دیکھا گیا۔
کیا واقعی عام عوام اب قائل ہو گئی ہے کہ فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت ایک حقیقت ہے؟ یہ جانچنے کے لیے ہم نے سوشل میڈیا کا رُخ کیا اور ان اکاونٹس کو ڈھونڈنا شروع کیا جن کا تعلق بظاہر کسی سیاسی جماعت یا ان کے ٹرولنگ اکاؤنٹس سے نہیں۔
فون کی سکرینز پر سماجی رابطوں کی اس دنیا میں یہ ایک الگ تھلگ سی خانہ جنگی ہے۔ مغرب میں اس کے لیے ’سوشل خانہ جنگی‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
پاکستان میں دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل خانہ جنگی کا جائزہ لینے کے لیے جب ان ایپس کا رخ کریں جہاں بظاہر عام عوام زیادہ تعداد میں موجود ہیں، یا دیہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، وہ پاکستانی عسکری اسٹیبلشمنٹ کی ٹرولنگ میں زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں۔
تو کیا یہ ایک خطرناک رجحان ہے؟ پہلے کچھ پوسٹس دیکھتے ہیں: ’ایک باریش شخص ٹک ٹاک پر ویڈیو میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے کہہ رہے ہیں کہ اے خدا میرے ملک کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی ذمہ داریوں میں کمی فرما۔ ان کے کندھوں پر بہت ذمہ داریاں ہیں۔۔۔۔انھیں وہی ذمہ داری پوری کرنے کی توفیق عطا فرما جس کی وہ تنخواہ لیتے ہیں۔ 75 سال سے ہماری یہ دعا قبول نہیں ہو رہی۔‘
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک اور ٹک ٹاکر آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے سوال کرتے رہتے ہیں کہ وہ ملک کی سیاست میں مداخلت کیوں کرتے ہیں؟ وہ اپنی متعدد ویڈیوز میں مشورہ دیتے نظر آتے ہیں کہ ملک میں ’فوجی جرنیلوں کا احتساب ہونا چاہیے۔‘
’آپ کس کو ووٹ دیں گے؟ عاصم منیر صاحب کو، کیونکہ چَلنی تو اُنہی کی ہے!۔ ‘ یہ ویڈیو بھی یوٹیوب پر موجود ہے جہاں ایک وی لاگر ایک راہگیر سے سوال کر رہے ہیں۔
پنجاب کے ایک گاؤں میں اینٹوں کے بَھٹے پر بیٹھے ایک بزرگ مزدور پنجابی میں کہہ رہے ہیں، ’جب فوج آئی تو نیوٹرل ہونے کی بجائے وہ بھی پیسہ کھانے والوں کے ساتھ مل گئی۔‘
واضح رہے کہ فی الحال ایسا کوئی باقاعدہ ڈیٹا موجود نہیں جو یہ ثابت کر سکے کہ فوج یا فوجی قیادت پر تنقید کرنے والا تمام مواد ہی آرگینک ہے یا پھر کسی بھی پارٹی کی میڈیا ٹیم کی جانب سے بنایا اور پھیلایا گیا۔
کیا فوجی قیادت کے لیے صورتحال پریشان کُن ہے؟
فوجی حلقوں میں اب بھی یہ رائے پائی جاتی ہے کہ سوشل میڈیا یہ جانچنے کے لیے درست پیمانہ نہیں کہ ان کی مقبولیت میں کوئی فرق آیا لیکن کیا یہ ایک محتاط اندازہ ہے؟ کیا سوشل میڈیا ایپس جیسا کہ ٹک ٹاک یا کوئی بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ واقعی محض باٹس اور ایلگوردم کا کھیل ہے؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک سابق لیفٹیننٹ جنرل کہتے ہیں کہ ’فوجی قیادت اس گمان میں جی رہی ہے کہ سب اُن کے کنٹرول میں ہے مگر ایسا نہیں۔ انھیں اس جھوٹ پر یقین ہے کہ وہ چھوٹے موٹے اقدامات کر کے عوام کی حمایت حاصل کر لیں گے کہ دیکھیں سیاستدانوں نے ملک تباہ کر دیا اور ہم نے اس کو سنبھال لیا۔ میرے خیال میں یہ بڑی بیوقوفی ہے کہ وہ صورتحال کو سمجھ نہیں رہے۔‘
دوسری جانب حامد میر سمجھتے ہیں کہ ’فوجی قیادت کو اس بحث پر تشویش تو ہونی چاہیے، ان کی عقل و فہم اتنی کم نہیں کہ انھیں عوام کے جذبات کا پتا نہ ہو۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک سابق فوجی افسر نے کہا کہ ایسے کسی بھی اختلاف رائے کا نقصان ملک کو ہو گا۔
’یہ جو بیانیہ اب بنا ہے، اور جو نفرت اور شکوے اب عوام کے دل میں فوجی قیادت کے خلاف پیدا ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں یہ سب ختم ہونے میں کچھ دہائیاں لگ جائیں گی۔ ہمارے لیے اس قدر ناپسندیدگی تو 1971 کی جنگ کے بعد بھی نہیں تھی۔‘
حامد میر کہتے ہیں کہ ’ملٹری لیڈرشپ کا خیال ہے کہ انھوں نے نو مئی کے بعد بڑا کریک ڈاؤن کر کے لوگوں کو سبق سکھا دیا لیکن پہلی دفعہ پنجاب اُسی طرح سوچ رہا ہے جیسے باقی تین صوبوں میں عوام سوچتے تھے۔ میرے خیال میں اس کا نقصان کسی ایک ادارہ کو نہیں بلکہ ہم بحیثیت ایک قوم ناکام ہیں۔ ہم آمنے سامنے ہیں اور ہمارے دِلوں میں نفرت ہے۔ میں نے اِداروں کے خلاف اتنی نفرت کبھی نہیں دیکھی۔‘
لیکن نصرت جاوید کے خیال میں یہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لیے پریشانی کی بات ہرگز نہیں۔
’میرا یہ خیال نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اس تاثر سے پریشان ہے۔ یہ سچ ہے کہ وہ بہت مداخلت کرتے ہیں مگر ایک عام آدمی یہ سوچتا ہے کہ اس کے پاس نعم البدل کیا ہے؟ ابھی آپ لوگوں میں جائیں تو اکثریت جمہوریت کو ہی لعن طعن کرے گی۔ وہ یہ نہیں کہیں گے اس ملک میں جمہوریت کو چلنے نہیں دیا جاتا۔ وہ یہی کہیں گے کہ بس یہ سیاستدان ہی کرپٹ ہیں۔‘