خشک سالی اور نہر پانامہ میں پھنسے تجارتی جہاز پانامہ کی متبادل نکاراگوا نہر تعمیر کیوں نہ ہو پائی؟
نہر پانامہ عالمی تجارت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن حالیہ خشک سالی کے باعث اس نہر میں پانی کم ہونے کے باعث بڑی تعداد میں تجارتی بحری جہاز اس سے گزرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس صورتحال کے باعث یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آیا بحر اوقیانوس اور بحرالکاہل کے سمندروں کے درمیان متبادل تجارتی راستے کی ضرورت ہے۔
پانامہ نہر میں اِس وقت بڑے پیمانے پر ٹریفک جام کی سی صورتحال ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق 200 سے زیادہ بڑے تجارتی جہاز وہاں سے گزرنے کے لیے گرین سگنل کے منتظر ہیں۔ ان جہازوں پر لدے کنٹینروں میں فرنیچر، اشیائے خوردونوش، تعمیراتی سامان اور دیگر اشیا موجود ہیں۔ کچھ کنٹینروں میں تیل اور گیس موجود ہیں جبکہ دیگر میں اناج اور اجناس۔
یہ تمام بحری جہاز تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے معروف سمندری راستے میں حائل دنیا کی سب سے مشہور رکاوٹ عبور کرنے کے منتظر ہیں، یعنی عالمی جہاز رانی کا ایک اہم گیٹ وے، پانامہ کینال (نہر پانامہ)۔
پانامہ میں عمومی طور پر اگست کا مہینہ بارشوں کا سیزن ہوتا ہے مگر اس کے برعکس آج کل غیرمتوقع خشک سالی ہے جس کے باعث اس مصنوعی نہر کو پانی سپلائی کرنے والے دو بڑے آبی ذخائر میں پانی کی سطح کم ہو گئی ہے۔ نتیجتاً اس تجارتی راستے کا انتظام سنبھالنے والے آپریٹرز کو یہاں سے گزرنے والے بحری جہازوں کے سائز اور تعداد کو محدود کرنا پڑا۔
یہاں پھنسے جہازوں پر لدے سامان کو دنیا بھر کی مختلف مارکیٹوں تک پہنچنا ہے اور یہ مارکیٹیں زیادہ دیر تک انتظار نہیں کر سکتیں۔ ایک اندازے کے مطابق پانامہ نہر سے سالانہ 270 ارب ڈالر مالیت کا سامان تجارت 170 سے زیادہ ممالک گزرتا ہے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اور تاخیر سے بچنے کے لیے کچھ بحری جہازوں نے پہلے ہی دوسرے اور طویل راستوں سے گزرنے کا انتخاب کیا ہے۔
عالمی سمندری تجارت کی کمپنی ’لائیڈز لسٹ انٹیلیجنس‘ کی سینیئر تجزیہ کار مشیل ویز بوکمین کہتی ہیں کہ یہ صورتحال ’غیرمعمولی اور تشویش کا باعث ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال مال تجارت پر اٹھنے والے اخراجات کو بہت حد تک بڑھا سکتی ہے جس کے باعث ممکنہ طور پر ’اینڈ یوزر‘ یعنی صارفین متاثر ہو سکتے ہیں۔
یہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پرانے خیالات دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں یعنی اگر بحرالکاہل سے بحر اوقیانوس کے درمیان ایک اور تجارتی راستہ ہوتا تو کیا ہوتا؟
1900 کی دہائی کے اوائل میں اس ضمن میں امریکہ کے پاس دو راستے تھے یعنی ایک پانامہ نہر کی تعمیر کا اور دوسرا نکاراگوا میں نہر کی تعمیر کا۔ مگر امریکہ کی سینیٹ نے پانامہ نہر کی تعمیر کا آسان انتخاب کیا کیونکہ ایک تو یہ راستہ چھوٹا تھا اور دوسرا نکاراگوا کے برعکس یہاں فعال آتش فشاؤں کا کوئی سلسلہ نہیں تھا۔
مگر اس کے باوجود ابھی تک نکاراگون کینال کا خیال ذہنوں میں گونجتا رہتا ہے۔ صرف ایک دہائی قبل، ایک چینی تاجر نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایک بہت بڑا پراجیکٹ شروع کریں گے جس کا مقصد ایسی ہی ایک نہر بنانا تھا۔ بہت دھوم دھام سے ہونے والے اس اعلان کے باوجود یہ منصوبہ کبھی عملی شکل اختیار نہیں کر سکا۔
لیکن اب نہر پانامہ کو بُری طرح متاثر کرنے والی خشک سالی نے چند لوگوں کو یہ سوال دوبارہ کرنے پر مجبور کیا ہے کہ آیا نکاراگوا میں ایک دوسری نہر یا دوسرے قریبی وسطی امریکی ممالک سے گزرنے والے دیگر متبادل راستے کچھ اتنا بھی بُرا خیال نہیں ہیں۔
ہوفسٹرا یونیورسٹی سے منسلک جین پال روڈریگ کہتے ہیں کہ ’یہ تکنیکی طور پر ممکن ہے۔‘ جین پال نے نہر نکاراگون کی تعمیر سے متعلق ہونے والے ماضی کے بحث مباحثوں کی طویل تاریخ کا مطالعہ کر رکھا ہے۔ لیکن اُن میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس منصوبے میں درج فاصلے بہت طویل ہیں، (پانامہ نہر کے مقابلے میں) بہت زیادہ طویل۔‘
ایسے کسی بھی متبادل راستے کے لیے ممکنہ طور پر دو نہروں کی تعمیر کی ضرورت ہو گی جو جھیل نکاراگوا کو مغرب میں بحرالکاہل سے اور مشرق میں بحر اوقیانوس سے جوڑ پائے۔ ان میں سے ایک نہر کی لمبائی تقریباً 25 کلومیٹر ہو گی اور دوسری، جو بحر اوقیانوس سے منسلک ہو گی، اس کی لمبائی تقریباً 100 کلومیٹر ہو گی۔ دوسری جانب موجودہ پانامہ کینال کی کل لمبائی 80 کلومیٹر ہے۔
نکاراگون کینال کی تعمیر پر کتنی لاگت آئے گی اس کے تخمینے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن روڈریگ کے مطابق کسی بھی ملک یا فرد کے لیے ایسا کرنے کے لیے بینک اکاؤنٹ میں کم از کم 40 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم ہونی چاہیے۔ یہ لندن کی نئی کراس ریلوے کی لاگت سے تقریباً دوگنا ہے جو ہر سال تقریباً 20 کروڑ مسافروں کو ان کی منزل مقصود تک پہنچاتی ہے۔
روڈریگ نے مزید کہنا ہے کہ نکاراگوا کینال کے منصوبے میں دلچسپی رکھنے والے سرمایہ کاروں کو ناصرف بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہو گی بلکہ انھیں یہ بھی یقینی بنانا ہو گا کہ بڑی تعداد میں بحری جہاز اس راستے کو استعمال بھی کریں کیونکہ یہ جہازوں کی ٹرانزٹ فیس ہی ہو گی جو نئے نہری منصوبے کے مالکان کے لیے آمدن کا ذریعہ ہو گی۔
اگر ان تمام چیزوں کی ضمانت مل بھی جاتی ہے پھر بھی اس طرح کے ایک بڑے پراجیکٹ سے منسلک ماحولیاتی نتائج بھی ہوتے ہیں۔ ماضی میں اس منصوبے کے مخالفین نے بارانی جنگلات اور ویٹ لینڈز کی تباہی، جھیل نکاراگوا کے میٹھے پانی کی آلودگی جیسے معاملات پر آواز اٹھائی تھی۔۔
ان رکاوٹوں کے باوجود بعض افراد نے اس منصوبے کو کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ سنہ 2013 میں ’ایچ کے این ڈی‘ نامی ایک چینی فرم نے نکاراگوان حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس نے کمپنی کو نہر کی تعمیر کے 50 سال کے جملہ حقوق، جو مزید 50 سال کے لیے قابل تجدید تھے، دیے تھے۔ تاہم بوجوہ یہ بات آگے نہ بڑھ سکی۔
’ایچ کے این ڈی‘ نے بلآخر سنہ 2018 میں ہانگ کانگ میں اپنا دفتر بند کر دیا ۔ BBC کی طرف سے فرم سے رابطہ کرنے کی کوششیں بھی ناکام ہو گئیں جبکہ اس کمپنی کی ویٹ سائیٹ اب فعال نہیں ہے۔
سارہ میک کال ہیرس جب ڈینور یونیورسٹی سے منسلک تھیں تو انھوں نے اپنے تحقیقی مقالے میں نکاراگوا کی مقامی کمیونٹیز کی جانب سے اس منصوبے کے خلاف مزاحمت کے بارے میں تفصیل سے لکھا تھا۔ وہ کہتی ہیں اس منصوبے کے مخالفین کی قیادت مقامی خواتین کرتی تھیں۔
انھوں نے لکھا کہ کچھ رہائشیوں کو خدشہ تھا کہ اس پورے منصوبے میں شفافیت اور ماحولیات کی حفاظت کا فقدان ہے۔ ان خدشات کو ’ایچ کے این ڈی‘ نے اس وقت مسترد کر دیا تھا۔
میک کال ہیریس اب سینٹینری کالج آف لوزیانا کے لیے کام کرتی ہیں۔ آج وہ یہ سوال بھی کرتی ہیں کہ آیا نیکاراگوا کا خطہ حقیقی طور پر اس منصوبے کے لیے پرعزم بھی تھا؟ وہ کہتی ہیں کہ اس منصوبے میں ایک چینی کمپنی کی شمولیت کے ذریعے شاید نکاراگوا کی اس وقت کی حکومت امریکہ کو یہ دکھانا چاہ رہی تھی کہ وہ دوسرے شراکت دار بنا سکتی ہے (یعنی یہ ایک سیاسی کھیل زیادہ تھا)۔
اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ اب اس منصوبے پر کام بالکل ٹھپ ہو چکا ہے مگر نکاراگوا کے حکام اصرار کرتے ہیں کہ یہ منصوبہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ رواں برس مئی میں بیلاروس کے دورے کے دوران نکاراگوا کے وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ منصوبہ ابھی بھی چل رہا ہے اور انہوں نے اشارہ دیا کہ بیلاروس کسی طرح اس میں شامل ہو سکتا ہے۔ بیلاروس نے اس آفر کے جواب میں پراجیکٹ کی تعمیر میں استعمال ہونے والی مشینری فراہم کرنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی مگر آج تک ایسا کوئی عملی اقدام ہوا نہیں۔
نکاراگون کینال کے بارے میں بوک مین کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ ’بالکل فضول‘ ہے کیونکہ گذشتہ کئی برسوں میں اس منصوبے پر پیش رفت نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ کیا پھر پانامہ نہر کے کچھ اور متبادل ہیں؟
یہ بات قابل غور ہے کہ موجودہ پانامہ کینال انجینیئرنگ کا ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔ برطانیہ کے امپیریل کالج لندن میں سول انجینیئرنگ کے پروفیسر جولین بومر کا کہنا ہے کہ یہ ناقابل یقین حد تک غیرمعمولی ہے کیونکہ جب بحری جہاز یہاں تنگ جگہوں سے گزرتے ہیں تو اُن کے دونوں طرف انچ انچ جگہ باقی رہ جاتی ہے۔
اور اس کا مظاہرہ یہاں سے ہر روز گزرنے والے درجنوں مال بردار جہاز کرتے ہیں۔ مگر موجود خشک سالی کے باعث نہر کے ہر سیٹ آف لاک سے گزرنے والے جہازوں کی تعداد 23 سے کم کر کے 16 کر دی گئی ہے۔
انجینیئرنگ کے اس شاہکار میں وہ بڑے آلات ہیں جو بحری جہازوں کو اوپر اور پھر نیچے کی جانب سفر کرنے کی اجازت دیتے ہیں جہاں بلندی پر جہاز سطح سمندر سے تقریباً 26 میٹر بلندی پر تیر رہے ہوتے ہیں۔
بوک مین کے مطابق پانامہ نہر سے گزرنے کے لیے جہازوں کا انتظار کرنا دراصل عام سی بات ہے۔ ’سی سرچر ڈاٹ کام‘کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال 22 اگست کو بھی 149 بحری جہاز یہاں کھڑے تھے اور گزرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ تاہم رواں برس اسی تاریخ کو روانگی کے منتظر جہازوں کی تعداد 201 تھی۔
پانامہ کینال کے آپریٹرز کا کہنا ہے کہ عام حالات میں ایک وقت میں 90 جہاز ٹرانزٹ کے لیے قطار میں کھڑے ہو سکتے ہیں ۔ موجودہ ٹریفک جام کے حوالے سے آپریٹرز کی اپنی گنتی اور بتائے گئے اعداد و شمار سے مختلف ہیں۔
اس نہر کے منتظمین نے پہلے ہی مشورہ دیا ہے کہ آنے والے برسوں میں نہر میں پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے انھیں تیسرے آبی ذخیرے کی کھدائی کے منصوبوں کو تیز کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔ یہ ایک حل ہو کر سکتا ہے اور بومر نوٹ کرتا ہے کہ، اپنے تمام بڑے منصوبے ہونے کے باوجود، ایک نئے ذخیرے کی تعمیر ایک مکمل نئی نہر کی تعمیر کے مقابلے میں پھیل جائے گی۔
پانامہ کینال کے لیے پانی کے وسائل کو برقرار رکھنا، عام طور پر، بہت اہم ہے کیونکہ اس علاقے میں پینے کے پانی کے لیے بھی ذخائر استعمال کیے جاتے ہیں۔ بومر کا کہنا ہے کہ مثال کے طور پر اگر گیٹون جھیل کی مکمل نکاسی کر لی جاتی ہے تو اسے دوبارہ بھرنے میں کئی سال لگیں گے۔
ماضی میں ذیلی نہریں تعمیر کرنے کی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر سکیمیں بھی ہیں جو آنے والے سالوں میں پانامہ کینال کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔ زمینی پل کے لیے میکسیکو کے منصوبے کو ہی لے لیں۔ یہ منصوبہ ریلوے، ہائی ویز اور پائپ لائنوں کا ایک بہت بڑا نظام ہے جو ملک کے مغربی ساحل کو مشرقی ساحل سے جوڑتا ہے۔ میکسیکو کی حکومت نے سب سے پہلے 1975 میں اس منصوبے کے لیے منصوبہ بندی کے آغاز کا اعلان کیا تھا ، مقامی افراد کی مخالفت کے باوجود حال ہی میں اس میں دوبارہ سرمایہ کاری کو ترجیح دی گئی ہے ۔
کولمبیا میں کنٹینرز کی منتقلی کے لیے زیر زمین میگلیو ریلوے بنانے کی تجویز بھی ہے۔
اس موسم گرما میں پانامہ کینال میں پیدا ہونے والی صورتحال نے سٹریٹیجک لحاظ سے اہم اس آبی گزرگاہ کے متبادل میں نئی دلچسپی پیدا کر دی ہے۔
تاہم روڈریگ کا کہنا ہے کہ ’ایک بار جب نہر پانامہ کو درپیش خشک سالی کی صورتحال ختم ہو جائے گی اور مزید بارشیں ہونے پر معمول کے حالات ہو جائیں گے تو شاید متبادل کے خیال کی بحث بھی دوبارہ کہیں کھو جائے گی۔‘