صدر عارف علوی کی ٹویٹ پریشر کُکر کی وہ سیٹی ہے

صدر عارف علوی کی ٹویٹ پریشر کُکر کی وہ سیٹی ہے

صدر عارف علوی کی ٹویٹ پریشر کُکر کی وہ سیٹی ہے جو موقع دیکھ کر کھولی گئی

مخالفین کی جانب سے مستعفی ہونے کے مطالبات کا سامنا کرنے والے صدرِ پاکستان عارف علوی نے آج اپنے سیکریٹری وقار احمد کو اس عہدے سے ہٹا کر ان کی خدمات واپس کر دی ہیں۔

اپنے عملے پر حکم عدولی کے الزام کے بعد صدر نے اپنے سیکریٹری کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کر دیں اور کہا کہ انھیں وقار احمد کی خدمات کی ’مزید ضرورت نہیں۔‘

آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 سے جڑے اس تنازع نے اس وقت شدت اختیار کی جب صدر ڈاکٹر عارف علوی نے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور شدہ ان بلز پر دستخط کرنے کی تردید کی۔

اگرچہ صدر ان بلز سے اتفاق نہیں کرتے مگر نگران حکومت کے مطابق ایوان صدر کی طرف سے کوئی راستہ اختیار نہ کیے جانے پر یہ قانون بن چکے ہیں۔

مبصرین کی رائے میں یہ تنازع ملک میں جاری سیاسی بحران کی ایک نئی کڑی ہے، خاص کر اس تناظر میں کہ آفیشل سیکرٹس سے متعلق قوانین کے تحت تحریک انصاف کے نائب سربراہ اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔

ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟

یہ تنازع ایک نہیں بلکہ دو بلز پر ہے: پاکستان آرمی ترمیمی بل اور آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل۔

پاکستان کے سینیٹ اور قومی اسمبلی نے اپنے علیحدہ اجلاسوں میں آرمی ایکٹ 1952 میں کی گئی ترامیم پر مبنی بِل کو متفقہ طور پر منظور کیا تھا جس میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ کوئی بھی شخص سرکاری حیثیت میں حاصل کی گئی ایسی معلومات، جو ملکی مفاد اور سلامتی کے لیے نقصان دہ بن سکتی ہوں، کو ظاہر کرتا ہے یا اسے ظاہر کرنے کا سبب بنتا ہے، اسے پانچ سال تک قید بامشقت کی سزا دی جا سکے گی۔

اس میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ جو فوجی افسر دوران سروس ایسے عہدے پر فائز رہا ہو جو آرمی ایکٹ کے تحت آتا ہو اور جسے ’حساس‘ قرار دیا گیا ہے وہ اپنی ریٹائرمنٹ، یا مستعفی ہونے، یا پھر برطرفی کے پانچ سال مکمل ہونے تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا۔

دوسری طرف آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل میں تجویز دی گئی تھی کہ امن و امان، تحفظ، مفاد اور دفاع کے خلاف انٹیلیجنس اداروں کے اہلکاروں، مخبروں یا ذرائع کی شناخت ظاہر کرنا جرم تصور ہو گا۔

یہ بلز منظوری کے بعد صدر کو بھجوائے گئے تھے۔ اُس وقت کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل میں انٹیلیجنس اداروں کی جانب سے شہریوں کو بغیر وارنٹ گرفتار کرنے کی شق حذف کر دی گئی ہے۔

تاہم اب اس نئے تنازع کے بعد پاکستان میں گذشتہ روز سے ہی سیاسی گرما گرمی بڑھ گئی ہے۔ ایک طرف صدر عارف علوی سے انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے ملوث افسران کو سزا دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف خود صدر عارف علوی کے اس معاملے میں کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔

ان کے اس بیان کے بعد متعدد سیاسی جماعتوں خاص طور پر پی ڈیم ایم اتحاد نے ان مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

سابق وزیر خزانہ اور مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار نے ٹوئٹر پر پیغام میں کہا کہ صدر عارف علوی کو ’اعتراضات کے ساتھ بل واپس بھیجنے کا تحریری یا ریکارڈڈ ثبوت دینا ہو گا۔ اخلاقی تقاضہ یہی ہے کہ عارف علوی مستعفی ہوں کیونکہ وہ اپنا دفتر چلانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے بیانات کا مقصد محض حمایت حاصل کرنا ہے۔ کچھ یہی رائے دیگر کئی سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کی بھی ہے۔

پارلیمنٹ، پاکستان

صدر نے ذاتی اکاؤنٹ سے ٹویٹ کر کے جرات دکھائی یا بدنیتی؟

صدر کے کنڈکٹ پر ملک میں دو مختلف آرا پائی جاتی ہیں، مگر ان کے مخالفین ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما سحر کامران نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے اعلیٰ ترین دفتر کے تقدس پر سوال اٹھ رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ایسا نہیں کہ صدر کو طریقہ کار پتہ نہیں تھا۔ پچھلے پانچ سال میں انہوں نے متعدد بلز پر دستخط کیے اور متعدد ایسے تھے جس پر اعتراضات لگا کر واپس بھیجے۔ وہ دیکھتے ہیں، آبزرویشن لگتی ہے، وہ ان کا جائزہ لیتے ہیں۔‘

ان کی رائے میں ’صدر کو علم تھا کہ کون سا بل آیا ہے اور انھوں نے واپس بھیجنا ہے، لیکن انھوں نے خاموشی اختیار کی۔ حالانکہ یہ خبر پاکستان کی میڈیا پر بھی آ گئی کہ بل قانون بن گیا ہے وہ اس کے بعد بھی خاموش رہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’چوبیس گھنٹے بعد اپنے عملے کے خلاف کسی کوتاہی پر کارروائی کی بجائے صدر نے سوشل میڈیا پر آ کر ایک بیان جاری کیا۔ ملک کی جگ ہنسائی ہوئی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ ایک غیر موثر صدر ہیں جو اپنا اختیار استعمال نہیں کر سکتے۔‘

سحر کامران کا خیال ہے کہ صدر عارف علوی کو اس معاملے پر مستعفی ہونا چاہیے کیونکہ ان کی جانب سے ’تاخیر کرنا اور کئی دن تک بل کی مخالفت میں اپنی رائے کو چھپانا بدنیتی کا ثبوت ہے۔‘

ان کے مطابق صدر عارف علوی اس تمام تنازع سے دراصل سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنا چاہتے تھے۔ ’میرے خیال میں ان پر سیاسی پارٹی کا دباو آیا ہے یا انہوں نے خود کو اپنی پارٹی کی سیاست میں ریلیونٹ رکھنے کے لیے یہ کام کیا ہے۔‘

اسی بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سابق سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے کہا کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی دور میں پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی دونوں ہی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان ایک ٹرانزیشن فیز میں ہے۔ عمران خان کی جماعت سمجھتی ہے کہ وہ آج بہت طاقتور ہیں۔ دوسری طرف پی ڈی ایم اتحاد سمجھتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں کوئی جماعت ایسی نہیں ہوگی جو اکثریت ووٹ لے کر حکومت بنا سکے، اسی لیے وہ اتنے مضبوط ہیں کہ کہ آئندہ اتحادی حکومت بنا لیں گے۔

عبدالقیوم کے مطابق ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب بل قانون بنا اسی دن صدر سوال کرتے کہ ’یہ کیسے ہو سکتا ہے جب میں نے دستخط ہی نہیں کیے۔ مگر تاخیر کے بعد شور شرابہ کرنا سمجھ سے باہر ہے۔ اب سیاسی جماعتیں اس صورتحال کو مزید ایکسپلائیٹ کریں گی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اب پارٹیاں کہہ رہی ہیں کہ وہ استعفی دیں کیونکہ یہ تمام معاملہ تو خود صدر کی ’اِن ایفیشنسی‘ کی وجہ سے ہوا ہے۔

’ایک ملک کا صدر، ریاست کا سربراہ، جس نے اپنی پارٹی سے رابطے منقطع نہیں کیے اور ملک میں انتشار پیدا کر رہے ہیں، اپنی غلطی کو قبول کر رہے ہیں کہ ان کے ماتحت عملے نے ان کی حکم عدولی کی ہے، اتنے بڑے عہدے پر بیٹھ کر یہ سب ہونے کے بعد انہیں مستعفی ہونا چاہیے اور میرے خیال میں صرف اسی صورت میں اس معاملے کا ایک امپیکٹ بھی ہوگا۔ دوسری صورت میں تو یہ محض شورشرابہ ہی ہے۔‘

لیکن پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ان سے متفق نہیں ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عمران خان کی جماعت کے ترجمان زلفی بخاری نے کہا کہ صدر کو عہدہ چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ’ہماری جماعت صدر علوی اور ان کے اس مؤقف کی مکمل حمایت کرتی ہے کہ وہ کسی بھی متنازع بل پر دستخط نہیں کریں گے۔ پی ڈی ایم کے عزائم اور ایجنڈے کو تو یہی بات سُوٹ کرتی ہے کہ صدر عارف علوی مستعفی ہو جائیں۔‘

اسی طرح پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن پاکستان کے طاقتور عسکری حلقوں اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس واقعے نے ثابت کیا ہے کہ ملک میں دراصل حکومت کون چلا رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اب کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ ریاست پر کنٹرول کس کا ہے۔ صدر کے دفتر میں ان کا سٹاف ان کی حکم عدولی کر رہا ہے۔ آج سیکریٹری ٹو پریذیڈنٹ کی خدمات واپس کرنے کے بعد ہمیں نہیں پتا کہ صدر مزید کیا اقدامات لیتے ہیں۔ مگر ہم، بطور پی ٹی آئی، یہ معاملہ سپریم کورٹ میں لے جا رہے ہیں۔ یہ کیا تماشہ ہو رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’آئین تو یہ کہتا ہے کہ جب صدر کے پاس پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں بحث کے بعد بل دوسری مرتبہ واپس آئے گا، تبھی دستخط کی عدم موجودگی میں یہ بل قانون بنے گا۔ یہاں تو ایسا کچھ نہیں ہوا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، کوئی استعفی نہیں ہوگا۔ صدر عارف علی پاکستان میں ایک آئینی اور جمہوری نظام میں داخل کرنے کی قیادت کریں گے۔‘

عارف علوی

’عملے کے خلاف انکوائری ہونی چاہیے‘

دوسری طرف سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی سمجھتی ہیں کہ صدر عارف علوی مستعفی نہیں ہوں گے اور ان کے خیال میں یہ اتنی بڑی وجہ نہیں کہ وہ استعفی دیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’سیاسی جماعتیں ایسے مطالبے کرتی رہتی ہیں۔ صدر کی صوابدید ہے کہ وہ استعفی دیں یا نہ دیں۔ لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہے، سیاسی جماعتوں کا یہ مطالبہ اپنی جگہ، لیکن میرا نہیں خیال کہ صدر پاکستان اس پر مستعفی ہوں گے یا اس معاملے پر ان کا استعفی دینا بنتا ہے۔‘

تاہم وہ صدر کی اس ٹویٹ اور ’متنازع اور غیر انسانی‘ بلز کے معاملے پر ان کے لائحہ عمل پر تنقید بھی کرتی ہیں۔ ان کے خیال میں پہلے سے بحران کا شکار ملک میں ایک غیر ضروری تنازع کھڑا کیا گیا ہے۔

ان کے مطابق ’پہلے تو یہی سوال آتا ہے کہ صدر نے اتنی دیر کیوں لگا دی، یہ ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ ایک مقررہ وقت کے بعد اس تنازع کو پیدا کرتے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کوئی چیز دم پر رکھ دیں اور وقت آنے پر اس کی سیٹی کھول دیں۔ یہ پریشر کُکر کی وہ سیٹی ہے جو وقت آنے پر کھولی گئی ہے۔‘

وہ ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے صدر عارف علوی کا کسی بھی بل کو منظور یا نامنظور کرنے کے عمومی طریقہ کار کو بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ وہ ماضی میں اعتراضات لکھتے تھے، اور اکثر سوشل میڈیا پر بیان بھی دیتے تھے۔ ’اس بار ایسا لگتا ہے کہ سیاسی مقاصد حاصل کیے گئے ہیں۔ یہ ایک اہم اور متنازع بل تھا، بل بھی ہو گیا، ان کا بعد ازاں نوٹ بھی آگیا اور وہ ہیرو بھی بن گئے۔‘

عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ صدر عارف علوی اگر صحیح معنوں میں اس بل کو روکنے کے حق میں ہوتے تو وہ کھل کر اس معاملے پر پوزیشن لے سکتے تھے، تاہم اب یہ ان کی پی ٹی آئی میں واپسی کی ایک کوشش ہے اور یوں لگتا ہے کہ وہ مستقبل میں جبکہ ان کی جماعت پر دباؤ ہے، وہ اپنے لیے ایک اہم مقام چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر وہ صحیح معنوں میں اسے روکنا چاہتے تو وہ اسی وقت اس کو موثر انداز میں روک لیتے جیسے کسی بھی غیرانسانی قانون کو روکا جاتا ہے۔ اور اس وقت وہ اس معاملے پر پوزیشن لیتے۔ یہ ایک آسان عمل ہوتا اور قومی اسمبلی تھی نہیں تو باآسانی یہ غیرموثر ہو سکتا تھا۔‘

دوسری جانب یہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ عملے کے ان ارکان کے خلاف کارروائی کی جائے جنھیں صدر مملکت کسی کوتاہی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ایوان صدر پہلے ہی صدر کے سیکریٹری کی خدمات واپس کر چکے ہیں جو اس وقت ایوان صدر میں سینیئر ترین بیورکریٹ عہدہ ہے۔

سابق سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم کہتے ہیں کہ اس معاملے میں ’اگر صدر پاکستان خود کسی کوتاہی اور بھول کے ذمہ دار ہیں تو وہ بھی جوابدہ ہیں۔ لیکن ان کے عملے میں سے کسی نے کوتاہی کی ہے، یا جانتے بوجھتے غلط اقدام کیا ہے تو ان کے خلاف نہ صرف انکوائری ہونی چاہیے۔ بلکہ یہ ایک سنگین جرم ہے اور اس پر عملے کے متعلقہ افراد کو سزا مل سکتی ہے۔‘

دوسری جانب ایوان صدر نے بی بی سی کے رابطہ کرنے پر اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ آیا باقاعدہ طور پر کسی انکوائری کا آغاز کیا گیا ہے یا نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *