بانیِ بنگلہ دیش جن کی میت کو غسل دینے کے لیے

بانیِ بنگلہ دیش جن کی میت کو غسل دینے کے لیے

بانیِ بنگلہ دیش جن کی میت کو غسل دینے کے لیے صابن تک دستیاب نہ ہوا

سات مارچ 1971 کو ڈھاکہ کا ریس کورس گراؤنڈ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ تقریباً 10 لاکھ افراد اپنے ہاتھوں میں بانس کی لاٹھیاں لیے ہوئے یہاں موجود تھے، لاٹھیاں لینے کا مقصد کسی ممکنہ حملے سے بچاؤ کی تیاری نہیں تھا بلکہ یہ مزاحمت کا استعارہ تھا۔

مجمے کی طرف سے ’آزادی کے حق‘ میں نعرے تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے جبکہ اس دوران ایک فوجی ہیلی کاپٹر جائزہ لینے کے لیے اُوپر فضا میں محوِ پرواز تھا۔

وفاق کی جانب سے جاری کردہ ایک حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریڈیو پاکستان کا ڈھاکہ سٹیشن مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کی تقریر کو براہ راست نشر کرنے کی حتمی تیاری کر رہا تھا۔

شیخ مجیب نے مجمے سے خطاب کرنا شروع کیا۔درحقیقت یہ محض ایک سیاسی تقریر نہیں تھی بلکہ پاکستان میں فوجی حکمرانی کے خلاف ایک کُھلا چیلنج تھا۔ بعد ازاں اس تقریر کو برصغیر میں سیاسی رہنماؤں کی جانب سے کی جانے والی تقریروں میں بڑا مقام حاصل ہوا۔

اس تقریر کے چند روز بعد پاکستان کے صدر یحییٰ خان اس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے ڈھاکہ پہنچ گئے۔ فوری طور پر ایسے اشارے مل رہے تھے کہ یحییٰ خان مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے عوام کے اقتدار کے حوالے کرنے کے مطالبے کو مسترد کرنے جا رہے ہیں۔

23 مارچ کو جب شیخ مجیب صدر یحییٰ سے بات کرنے صدر کی رہائش گاہ گئے تو اُن کی گاڑی پر بنگلہ دیشی جھنڈا تھا، وہ یہ ظاہر کرنا چاہ رہے تھے کہ وہ ایک آزاد بنگالی ریاست کے رہنما بن گئے ہیں۔

آپریشن سرچ لائٹ

شیخ مجیب

25 مارچ کی شام تک یہ خبریں پھیلنا شروع ہو گئیں کہ صدر یحییٰ خان اپنے وفد کے ہمراہ ڈھاکہ سے واپس پاکستان آ گئے ہیں۔جس کے بعد رات کے ساڑھے گیارہ بجے ’آپریشن سرچ لائٹ‘ شروع ہو چکا تھا۔’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

سید بدر الاحسن اپنی کتاب ’فرام ریبل ٹو فاؤنڈنگ فادر‘ میں لکھتے ہیں کہ شیخ مجیب کی بڑی بیٹی حسینہ واجد نے انھیں بتایا کہ فوج کی جانب سے گولی چلنے کی آواز سنتے ہی شیخ مجیب نے ایک وائرلیس پیغام بھیج کر بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا۔

شیخ مجیب نے کہا کہ ’میں بنگلہ دیش کے لوگوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں اور جو کچھ بھی ان کے ہاتھ میں ہے، اس کے ساتھ فوج کے خلاف مزاحمت کریں۔ آپ کی لڑائی اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک پاکستانی فوج کے ہر سپاہی کو بنگلہ دیش کی سرزمین سے بے دخل نہیں کر دیا جاتا۔‘

اُسی رات ایک بجے کے قریب پاکستانی فوج کے چند اہلکار شیخ مجیب کے گھر 32 دھان منڈی پہنچے جہاں شیخ مجیب ان کا پہلے سے انتظار کر رہے تھے۔ شیخ مجیب کے گھر کے گیٹ پر پہنچتے ہی فوجیوں نے گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ ایک مقامی سیکورٹی گارڈ، جو دروازے پر سیکورٹی کی دیکھ بھال کر رہا تھا، کو بھی گولی لگی اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔

ایک فوجی افسر نے لاؤڈ سپیکر پر اعلان کیا کہ شیخ مجیب ہتھیار ڈال دیں۔تھوڑی دیر بعد شیخ مجیب نیچے آ گئے جہاں سپاہیوں نے انھیں جیپ میں بٹھایا اور چلے گئے۔

شیخ مجیب کو گرفتار کرنے والی ٹیم کے انچارچ نے وائرلیس پر پیغام بھیجا کہ ’پنجرے میں بڑا پرندہ، چھوٹا پرندہ اڑ گیا۔‘

بدر الاحسن لکھتے ہیں شیخ مجیب کو تین دن تک چھاؤنی کے آدم جی کالج میں رکھا گیا اور پھر سخت سکیورٹی میں مغربی پاکستان لے جایا گیا۔

سزائے موت

مجیب

پاکستان میں انھیں میانوالی جیل میں قید رکھا گیا۔

شیخ مجیب تقریباً نو ماہ تک اسی جیل میں رہے۔ دسمبر 1971 میں ایک فوجی ٹربیونل نے انھیں موت کی سزا سنائی۔ اسی دوران پاکستان کا اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں آ گیا، جن کے احکامات پر مجیب کو میانوالی جیل سے نکال کر راولپنڈی کے قریب ایک گیسٹ ہاؤس میں لے جایا جائے۔

کلدیپ نیئر اپنی سوانح عمری ’بیونڈ دی لائنز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’مجیب نے مجھے بتایا کہ ایک دن اچانک بھٹو اُن سے گیسٹ ہاؤس میں ملنے آئے۔ مجیب نے ان سے پوچھا، آپ یہاں کیسے آئے؟ بھٹو نے جواب دیا، میں پاکستان کا صدر ہوں، لیکن مجیب نے اس پر کہا کہ اس عہدے پر میرا حق ہے۔ اس پر بھٹو سیدھے اپنے پوائنٹ پر آ گئے اور پیشکش کی کہ اگر شیخ مجیب راضی ہو جائیں تو خارجہ امور، دفاع اور مواصلات کے محکمے مل کر چلائے جا سکتے ہیں۔‘

کلدیپ نیئر نے بی بی سی کو یہ بھی بتایا کہ ’شیخ مجیب نے کہا کہ اس وقت میں آپ کی تحویل میں ہوں، میرے لیے اپنے لوگوں سے مشورہ کیے بغیر کوئی وعدہ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔‘

بنگلہ دیش کے سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر کمال حسین، جو اس وقت شیخ مجیب کے ساتھ پاکستانی جیل میں تھے، بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’بھٹو آخری دم تک شیخ مجیب پر پاکستان کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کے تعلقات قائم رکھنے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے۔ جس دن شیخ کو رہا کیا جانا تھا اور وہ لندن جانے والے تھے، بھٹو نے کہا کہ وہ ایک دن مزید قیام کریں کیونکہ اگلے دن شاہ ایران آ رہے تھے اور وہ ان سے ملنا چاہتے تھے۔ شیخ سمجھ گئے کہ وہ شاہ ایران سے ان پر دباؤ ڈلوانا چاہتے ہیں۔ اس پر شیخ مجیب نے کہا کہ انھیں بھٹو کی تجویز قبول نہیں اور یہ کہ انھیں گیسٹ ہاؤس سے دوبارہ جیل بھیجا جا سکتا ہے۔‘

بنگلہ دیش واپسی

مجیب

7 جنوری 1972 کی رات بھٹو خود مجیب اور کمال حسین کو چھوڑنے راولپنڈی کے چکلالہ ایئرپورٹ گئے۔ انھوں نے ایک لفظ کہے بغیر مجیب کو الوداع کیا اور مجیب بھی پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر تیزی سے جہاز کی سیڑھیاں چڑھ گیا۔

دو دن لندن میں رہنے کے بعد مجیب 9 جنوری کی شام ڈھاکہ روانہ ہو گئے۔ راستے میں وہ چند گھنٹوں کے لیے نئی دہلی میں رکے۔

ڈاکٹر کمال حسین یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس وقت کے انڈین صدر، وزیر اعظم اندرا گاندھی، اُن کی پوری کابینہ، تینوں افواج کے سربراہان اور مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ سدھارتھ شنکر رائے شیخ مجیب کے استقبال کے لیے دہلی کے ہوائی اڈے پر موجود تھے۔‘

فوجی چھاؤنی کے میدان میں ایک جلسہ عام میں مجیب نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جدوجہد میں مدد کرنے پر ہندوستانی عوام کا شکریہ ادا کیا۔ شیخ مجیب نے انگریزی میں تقریر شروع کی، لیکن اس وقت سٹیج پر موجود اندرا گاندھی نے ان سے بنگالی زبان میں تقریر کرنے کی درخواست کی۔

دہلی میں دو گھنٹے قیام کے بعد مجیب جب ڈھاکہ پہنچے تو ڈھاکہ کے ہوائی اڈے پر تقریباً دس لاکھ لوگ ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔

شیخ مجیب، جن کا پاکستانی جیل میں نو ماہ گزارنے کی وجہ سے وزن کافی کم ہو چکا تھا، اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے لمبے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے آگے بڑھے جہاں تاج الدین احمد نے اپنے قائد کو اپنی بانھوں میں لپیٹ لیا اور دونوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

انھوں نے ریس کورس گراؤنڈ میں لاکھوں کے ہجوم کے سامنے رابندر ناتھ ٹیگور کو یاد کیا۔ شیخ مجیب نے ٹیگور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ’ آپ نے ایک بار یہ شکایت کی تھی کہ بنگال کے لوگ صرف بنگالی ہی رہے، سچے انسان نہیں بنے۔‘

ڈرامائی انداز میں مجیب نے کہا ’اے عظیم شاعر، واپس آؤ، اور دیکھو کہ تمھارے بنگالی لوگ کیسے ان شاندار انسانوں میں بدل گئے ہیں جن کا تم نے کبھی تصور کیا تھا۔‘

مجیب کا اہلخانہ سمیت قتل

مجیب
شیخ مجیب اپنے اہلخانہ کے ہمراہ

شیخ مجیب نے اقتدار سنبھالا اور جنگ سے تباہ شدہ بنگلہ دیش کی تعمیر نو شروع کی۔ لیکن ان کی کہانی کا ایک افسوسناک انجام ہوا۔ 1975 تک معاملات ان کے ہاتھ سے نکلنے لگے۔

کرپشن بڑھنے لگی اور اقربا پروری کو ہوا ملنے لگی۔عوام میں بے اطمینانی کے ساتھ ساتھ بنگلہ فوج میں بھی بے اطمینانی بڑھنے لگی۔

15 اگست 1975 کی صبح بنگلہ دیشی فوج کے کچھ جونیئر افسروں نے شیخ مجیب کی رہائش گاہ پر حملہ کر دیا۔

اپنے گھر کے باہر گولی چلنے کی آواز سنتے ہی شیخ مجیب نے بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل شفیع اللہ کو فون ملایا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جنرل شفیع اللہ نے بتایا تھا کہ ’مجیب بہت غصے میں تھے۔‘ مجیب نے جنرل شفیع سے کہا کہ ’تمہارے سپاہیوں نے میرے گھر پر حملہ کیا ہے۔ ان کو واپس آنے کا حکم دیں۔ میں نے مجیب سے پوچھا کیا آپ اپنے گھر سے باہر آ سکتے ہیں؟‘

یہاں سید بدرالاحسن آرمی چیف کے رویے پر سوال اٹھاتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’آپ اپنے ملک کے صدر سے ایسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں، کیا آپ سوچ رہے تھے کہ وہ ایسی صورتحال میں گھر سے باہر آ جائیں جب چاروں طرف گولیاں چل رہی ہوں۔‘

گھر پر حملے کے بعد شیخ مجیب بالائی منزل سے نیچے آنے کے لیے سیڑھیاں اتر رہے تھے جب فوجی اہلکاروں نے ان پر فائرنگ کی۔ مجیب منہ کے بل گرے، اُن کا پسندیدہ پائپ ابھی تک اُن کے ہاتھ میں تھا۔ اور اس کے بعد اس گھر میں موت کا رقص شروع ہوا۔

سب سے پہلے بیگم مجیب کو گولی ماری گئی۔ پھر ان کے بیٹے شیخ جمال کی باری آئی۔ گھر میں موجود اُن کی دونوں بہوؤں کو بھی نہیں بخشا گیا اور یہاں تک کہ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے 10 سالہ رسل مجیب کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

اس پورے گھرانے کی صرف دو بیٹیاں ہی زندہ رہیں کیونکہ اس وقت وہ گھر میں نہیں بلکہ جرمنی میں تھیں۔

آنسو بہانے والا کوئی نہیں تھا

مجیب

سبھاش چکرورتی ماضی میں ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے دہلی میں بیورو چیف رہ چکے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ بنگلہ دیش میں ہندوستان کے اس وقت کے ہائی کمشنر ثمر سین اُن کے دوست تھے اور انھوں نے ہی انھیں بتایا تھا کہ اس دن اصل میں شیخ مجیب کے گھر میں کیا ہوا تھا۔

انھوں نے کہا کہ جب یہ لوگ (بنگلہ دیشی فوج کے اہلکار) مجیب کے گھر میں داخل ہوئے تو وہ کمرے سے باہر نکل آئے۔ انھیں لگا کہ وہ غلطی سے اُن کے گھر میں داخل ہو گئے ہیں۔ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ انہیں مارنے آئے ہیں۔ انھیں اور ان کے اہلخانہ کو بے رحمی سے مارا گیا اور بعدازاں ان کی لاشیں ایک فوجی ٹرک میں ڈال دی گئیں۔

16 اگست کی صبح فوجیوں نے تمام لاشیں اکٹھی کیں اور شیخ مجیب کے علاوہ باقی سب مقتول اہلخانہ کو کو بنانی قبرستان میں ایک بڑے گڑھے میں دفن کر دیا گیا۔ مجیب کی میت کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے ان کے آبائی گاؤں تنگی پارہ پہنچایا گیا۔

فوجیوں نے اس موقع پر ان کے گاؤں کو گھیرے میں لے لیا تاکہ لوگ اُن کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کر سکیں۔ فوجیوں کا اصرار تھا کہ مجیب کی میت کو جلد از جلد دفن کیا جائے لیکن گاؤں کے ایک مولانا اس بات پر بضد تھے کہ میت کو غسل دیے بغیر دفن نہیں کیا جا سکتا۔

بدر الاحسن لکھتے ہیں کہ نہلانے کے لیے صابن دستیاب نہیں تھا اور آخر میں ان کی میت کو کپڑے دھونے والے صابن سے نہلایا گیا اور انھیں مقامی قبرستان میں اپنے والد کے پہلو میں دفنا دیا گیا۔

’اُس شام جب بارش شروع ہوئی تو تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ گاؤں کے بزرگوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ شاید قدرت بھی اس بے دردی کو برداشت نہ کر سکی جس سے مجیب کو مارا گیا۔‘

لیکن اسے ستم ظریفی کہا جائے یا کچھ اور کیونکہ اُس شام بنگلہ دیش کے بابائے قوم کے لیے آنسو بہانے والے بہت کم تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *