گیان واپی مسجد کا سائنسی سروے دیگر مسلم تاریخی عمارتوں پر ہندوؤں کے دعوے کی راہ کھول دے گا؟
انڈیا کی الہ آباد ہائیکورٹ نے بنارس کی معروف اور تاریخی گیان واپی مسجد کے سائنسی سروے کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔
آرکیالوجیکل سروے کے ماہرین اس مسجد کے در و دیوار اور اس کی بنیادوں اور تعمیرات کا جائزہ لے کر یہ بتائیں گے کہ صدیوں پرانی یہ مسجد کیا کوئی ہندو مندر توڑ کر بنائی گئی تھی یا مندر کے کچھ حصے کی تعمیر نو کر کے اسے مسجد میں بدل دیا گیا تھا یا یہ ابتدا سے ہی ایک مسجد تھی۔
قانونی ماہرین کے مطابق ہائیکورٹ کے اِس فیصلے کے بعد متھرا کی عید گاہ، قطب مینار، تاج محل اور بہت سی دیگر مسلم عمارتوں، عبادت گاہوں اور مقبروں پر ہندوؤں کے دعوؤں کا قانونی راستہ ہموار ہو گیا ہے۔
گیان واپی مسجد کے سائنسی بنیادور پر سروے کا فیصلہ بنارس کی ضلعی عدالت نے سُنایا تھا۔ مسجد کی انتظامیہ نے اس فیصلے کو الہ آباد ہائیکورث میں چیلنج کیا تھا۔
جمعرات کے روز الہ آباد ہائی کورٹ نے بنارس کی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ انصاف کے تقاضوں کے مدِنظر مسجد کا سائنسی سروے ضروری ہے۔
گذشتہ دنوں انڈین ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ ’مسلمانوں کو ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس مسئلے کا حل پیش کرنا چاہیے۔‘ یعنی دوسرے لفظوں میں یہ مسجد ہندوؤں کے حوالے کر دینی چاہیے۔
گیان واپی مسجد پر ہندوؤں کا کیا دعویٰ ہے؟
گیان واپی مسجد کے بارے ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ اسے مغل بادشاہ اورنگزیب نے ہندوؤں کے ایک بڑے قدیمی مندر کو توڑ کر بنایا تھا۔ مسجد کی ایک دیوار مندر کے حصے کے طور پر اب بھی موجود ہے۔ ہندوؤں کا مزید کہنا ہے کہ مسجد میں جگہ جگہ دیواروں پر ترشول، اوم اور ہندو مذہب کے نشانات اور نقش و نگار موجود ہیں۔
ان کا یہ بھی دعوی ہے کہ مسجد کے وضو خانے میں جو فوارہ ہے وہ دراصل ’شیولِنگ‘ یعنی بھگوان شیو کی علامت ہے۔
دسمبر 1992 میں ایودھیا کی بابری مسجد کے انہدام سے قبل رام جنم بھومی تحریک کے دوران تحریک کی روح رواں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل اور بی جے پی کا کہنا تھا کہ ماضی کے مسلم حکمرانوں نے انڈیا کی تقربیاً 30 ہزار مساجد، مقبرے اور قلعے وغیرہ ہندو مندروں کو توڑ کر تعمیر کیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف تین اہم مساجد کی حوالگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر مسلمان ان عبادت گاہوں سے دستبردار ہو جائیں تو وہ باقی عمارتوں پر اپنا دعویٰ ترک کر دیں گے۔
ان تین عبادت گاہوں میں بابری مسجد کے علاوہ بنارس کی گیان واپی مسجد جو بگھوان شیو کے ایک بڑے مندر کاشی وشوناتھ سے متصل ہے، اور متھرا کی عیدگاہ مسجد شامل ہیں۔
یہ مسجد اور عیدگاہ دونوں ہی مغل بادشاہ اورنگزیب کی تعمیر کی ہوئی تھیں۔ متھرا کی عیدگاہ مسجد کی قبلے کی دیوار بگھوان کرشن جنم بھومی کے مندر سے ملی ہوئی ہیں۔ ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ عید گاہ مسجد کرشن جنم بھوی کی زمین پر بنائی گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ رام جنم بھوی کی ہی طرح کاشی وشواناتھ اور کرشن جنم بھومی ہندوؤں کے دوسرے دیوتاؤں کا مقام ہے اس لیے اس کے تقدس اور ہندو مذہب میں اس کی کلیدی اہمیت کے پیش نظر مسلمانوں کو بنارس اور متھرا کی ان دونوں عبادت گاہوں کی زمین سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔
ہندوؤں کے مسلمانوں کی تعمیر کردہ کن عمارتوں پر دعوے ہیں؟
ان کے بقول اس سے دونوں برادریوں میں خیر سگالی اور ہم آہنگی کا ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔
ہندو ہجوم کے ہاتھوں دسبمر 1992 میں بابری مسجد کے انہدام سے ایک برس قبل اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے مستقبل میں ایودھیا جیسے مذہبی تنازعات روکنے کے لیے پارلیمنٹ میں ’عبادت گاہ تحفظ‘ ایکٹ کی منظوری دی تھی۔
اس قانون کے تحت انڈیا میں 1991 میں جو عبادت گاہ جس شکل میں موجود تھی اسی شکل میں اسے حتمی طور پر تسلیم کر لیا گیا او اسے چیلنج نہيں کیا جا سکتا۔
اس قانون سے بابری مسجد کو مستثنیٰ رکھا گیا تھا کیونکہ اس کا مقدمہ کئی عشروں سے چل رہا تھا اور یہ طے پایا کہ اس کا فیصلہ عدالت پر چھوڑ دیا جائے۔
انڈیا کی سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ مندر کے حق میں دیا اور اس وقت ایک عالیشان رام مندر منہدم بابری مسجد کے مقام پر زیر تعمیر ہے۔
یہ توقع کی جا رہی تھی کہ 1991 کے عبادت گاہ تحفظ ایکٹ کے بعد بابری مسجد جیسا دوسرا تنازعہ پیدا نہیں ہو گا۔ لیکن گذشتہ برسوں میں مقامی عدالتوں نے بنارس اور متھرا کی مسجدوں کے بارے ہندو فریقوں کے دعوؤں کی درخواست قبول کرنی شروع کی۔
گیان واپی مسجد کا معاملہ تو اب آگے جا چکا ہے۔ اسی نوعیت کے مقدمے عیدگاہ مسجد کے سلسلے میں متھرا کی مقامی عدالت میں بھی زیر سماعت ہیں۔
قطب مینار کے بارے میں بھی ہندو فریقوں نے عدالت میں مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ وہ قطب مینار کو وہ ’وشنو دھوج‘ کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مینار کے اطراف میں وشنو اور جین مندروں کے ستون اور آثار واضح طور پر موجود ہیں، اس لیے یہ ان کے حوالے کیا جائے۔
اسی طرح کچھ درخواستیں تاج محل کے حوالے سے بھی جمع کروائی گئی تھیں۔ ہندو درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ تاج محل دراصل ’تاجو مہالے‘ مندر تھا جس کی مورتیاں وغیرہ توڑ کر ہٹا دی گئیں اور ان کی جگہ یہ عمارت تعمیر کی گئی۔
تاہم مقامی عدالت نے اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ لیکن اب گیان واپی کے فیصلے کے بعد ان دعوؤں کے لیے راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ مہاراشٹر، کرناٹک اور بعض دوسری ریاستوں میں بھی اس طرح کے تنازعات پنپ رہے ہیں۔
’مسلمانوں کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا‘
گیان واپی کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دائیں بازو کے سرکردہ دانشور اور حکومت سے قریب سمجھے جانے والے تجزیہ کار ڈاکٹر شبھرو کمل دتا کا کہنا ہے کہ غیر ملکی حملہ آوروں نے بر صفیر پر حملوں کے دوران 30 ہزار ہندو مندر منہدم کیے۔
’ان میں تین مقام ایودھیا، کاشی (بنارس) اور متھرا ہندو عقیدت کا مرکز ہیں۔ ایودھیا کا حل تو نکل چکا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ متھرا اور کاشی کا بھی حل فعال مذاکرات کے ذریعے نکل آنا چاہیے۔‘
ان کا خیال ہے کہ گیان واپی کا معاملہ طول نہیں پکڑے گا بلکہ یہ حل کی طرف لے جائے گا۔ تاریخی دستاویزات میں یہ موجود ہے کہ گیان واپی مسجد کاشی وشوناتھ مندر توڑ کر بنائی گئی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ مندر کا ہی حصہ ہے۔ مسجد کے تہہ خانے میں ترشول اور بھگوان گنیش کے نشانات، ٹوٹی ہوئی مورتیوں کے باقیات، اس کے در و دیوار پر ترشول، کمل اور ہندو علامتوں کے نشانات سے یہ ثابت ہے کہ یہ مند ر کا ہی حصہ ہے۔‘
مؤرخ سید عرفان حبیب کا کہنا ہے کہ ملک کا جو ماحول ہے اس میں کوئی گنجائش نہیں بچی ہے۔ یہ کوشش ہو رہی ہے کہ سارے فیصلے یکطرفہ طور پر کر لیے جائیں۔ صرف گیان واپی ہی نہیں آگے اور بھی بہت سے مسئلے اسی طرح حل کر لیے جائیں۔
’مسلمانوں کے سامنے کوئی آپشن نہیں ہے۔ ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ زندگی سکون سے گزرے۔‘
ڈاکٹر حبیب کہتے ہیں کہ ’جب عقیدے کو سامنے رکھا جائے گا تو پھر آگے کچھ نہیں ہے ۔ میں کئی ایسے مباحثوں میں بیٹھا ہوں جہاں شرکا نے کہا کہ تاج محل، لال قلعہ اور جامع مسجد ہندو سٹرکچر ہیں۔ کیا کیجیے کہ اگر یہ تاج محل اور لال قلعہ پر بھی اپلائی ہو سکتا ہے۔‘
آرکیالوجکل سروے آف انڈیا کی ٹیم جلد ہی گیان واپی مسجد کا سروے شروع کرنے والی ہے۔ اس سروے کے بعد اگر یہ پایا گیا کہ یہ مندر کا حصہ ہے تو تین سو برس سے زیادہ قدیم اس مسجد کا کیا ہو گا یہ ایک اہم سوال ہے۔
یہ پہلو بھی اہم ہے کہ متھرا کی عیدگاہ مسجد کے مقدمات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں۔ بعض مسلم رہنماؤں کی طرف سے جو بیان آئے ہیں ان میں 1991 کے عبادت گاہ تحفظ قانون کو پورے ملک میں نافذ کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔
ایک اہم پہلو یہ ہے کہ رام جنم بھوی اور بابری مسجد کے تنازعے کی طرح ملک کے اس بدلتے ہوئے پس منظر میں اس معاملے پر کوئی کشیدگی یا سخت گیر نوعیت کے بیانات نہیں دیے جا رہے ہیں۔