دیر بالا کے نوجوان سے منگنی کے لیے پاکستان پہنچنے والی انڈین خاتون: ’انجو پختونوں کی مہمان اور بہو ہے
’اگلے دو سے تین دن میں انجو اور میں باضابطہ طریقے سے منگنی کر لیں گے اور پھر دس بارہ دن بعد وہ واپس انڈیا چلی جائے گئی اور اس کے بعد دوبارہ شادی کے لیے آئے گئی۔ یہ میری اور انجو کی ذاتی زندگی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اس میں مداخلت کی جائے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ میڈیا سے بھی دور رہا جائے۔‘
یہ کہنا ہے کہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع دیر بالا کے رہائشی 29 سالہ نصر اللہ کا جن کا چند سال قبل انڈیا کی ریاست اتر پردیش کی ایک خاتون سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ ہوا جو وقت کے ساتھ محبت میں بدل گیا۔
یہ تعلق اتنا سنجیدہ رخ اختیار کر گیا کہ حال ہی میں انڈین شہری انجو، نصراللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو باضابطہ رشتے میں بدلنے کے لیے پاکستان پہنچ گئیں۔
اس وقت انجو دیر بالا میں نصراللہ کے گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ ڈی پی او دیر بالا محمد مشتاق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انڈین شہری کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔
یہ کہانی حال ہی میں پاکستان کی ایک خاتون سیما حیدر اور انڈیا کے شہری سچن سے ملتی جلتی ہے تاہم انجو ویزہ لے کر قانونی طریقے سے پاکستان آئی ہیں جس کے لیے ان دونوں کو دو سال کا عرصہ لگا۔
واضح رہے کہ پاکستانی شہری سیما حيدر گذشتہ ہفتے اپنے چار بچوں کے ساتھ غیر قانونی طور پر انڈیا میں داخل ہوئی تھیں۔ ان کی انڈین شہری سچن سے پب جی موبائل گیم کھیلنے کے دوران جان پہچان ہوئی تھی جو کچھ عرصے میں محبت میں تبدیل ہوئی۔ انھوں نے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا تھا کہ ‘اب میں ان سے محبت کرتی ہوں اور ان کے لیے اپنا وطن چھوڑ کر آئی ہیں۔‘
پاکستان اور انڈیا کے شہریوں میں ایسی محبت کی کہانیاں نئی نہیں ہیں تاہم دونوں ملکوں میں تعلقات کشیدہ ہونے کی وجہ سے اب دونوں ممالک ایک دوسرے کے شہریوں کو کم سے کم ویزے دیتے ہیں۔
انجو کے لیے بھی پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔ خصوصاً دیر بالا تک پہنچنے کے لیے جو ایک دور دراز ضلع ہے جس کی ایک سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔
عام طور پر دونوں ممالک ایک دوسرے کے شہریوں کو ویزہ دیتے ہوئے بہت کم شہروں تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔
تو آخر انجو اور نصر اللہ کی یہ کہانی کیسے شروع ہوئی اور انجو کو پاکستان کا ویزہ اور دیر بالا جانے کی اجازت کیسے ملی؟
’ویزہ حاصل کرنے میں دو سال لگے‘
نصر اللہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا انجو سے فیس بک کے ذریعے چند سال پہلے رابطہ ہوا تھا۔
لیکن اس پہلے رابطے کے بعد اگلے مراحل بہت جلدی طے ہوئے۔
انجو کا تعلق انڈیا کی ریاست اتر پردیش سے ہیں اور وہ ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتی ہیں۔ ان کی درخواست پر ان کی نجی تفصیلات کو مختصراً بیان کیا جا رہا ہے۔
جب بی بی سی نے انجو سے بات کرنے کی درخواست کی تو نصر اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ انجو اس وقت میڈیا سے بات نہیں کرنا چاہتیں۔
نصر اللہ کہتے ہیں کہ ’پہلے یہ رابطہ دوستی اور پھر محبت میں تبدیل ہو گیا جس کے بعد ہم دونوں نے ایک ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔‘
نصر اللہ کے مطابق ان کے گھر والے اس فیصلے میں ان کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’دونوں میں طے ہوا کہ انجو پاکستان کا دورہ کرے گی، میرے خاندان سے ملے گی اور ہم پاکستان میں منگنی کریں گے جس کے کچھ عرصے بعد ہم شادی کر لیں گے۔‘
تاہم اس دورے کو ممکن بنانا آسان نہیں تھا۔ سرحد کے علاوہ دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات بھی ایک رکاوٹ تھے۔
نصراللہ کا کہنا تھا کہ ’انجو کے لیے پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا بہت مشکل تھا مگر ہماری نیت تھی اور خلوص تھا جس کی وجہ سے ہم دونوں نے بالکل ہمت نہیں ہاری ہے۔‘
ایک جانب انجو دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کے چکر لگاتی رہیں جبکہ نصر اللہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزارت خارجہ اور دیگر دفاتر کے چکر کاٹتے رہے۔
نصر اللہ کا کہنا تھا کہ ’وہ وہاں پر حکام کو قائل کرتی رہی اور میں یہاں پر حکام کو قائل کرتا رہا کہ ویزہ انجو کا حق ہے اور ہم اگر ملنا چاہتے ہیں تو ہمیں ملنے دینا چاہیے۔‘
ان کی کوششیں بلاآخر رنگ لائیں۔ لیکن حکام کو قائل کرنے میں ان کو دو سال کا عرصہ لگا جس کے بعد انجو کو پاکستان کا ویزہ بھی مل گیا اور ان کو دیر بالا جانے کی اجازت بھی دے دی گئی۔
نصراللہ کا کہنا ہے کہ ’پاکستان اور پھر دیر بالا داخلے کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔‘
’انجو اور میں نے ویزہ حاصل کرنے کے لیے ہزاروں روپے خرچ کیے ہیں۔ اب ایک دفعہ ویزہ لگ گیا ہے تو امید ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔‘