کیا یوکرین کا جوابی حملہ روسی افواج کو پسپائی پر مجبور کر سکتا ہے؟
یوکرین کا ایک 19 سالہ دبلا پتلا فوجی ایمبولینس میں اسٹریچر پر لیٹا ہوا ہے اور جب اس پر انیستھیسیا (بے ہوشی کی دوا) اثر کم ہوتا ہے تو اس کے کراہنے کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔
ہوش آتے ہی اس نوجوان سپاہی کا ہاتھ سب سے پہلے اس کے منھ پر لگے آکسیجن ماسک پر جاتا ہے۔ وہ مٹی میں لتھڑا ہوا ہے۔ وہ ماسک ہٹانے کی کوشش کے ساتھ کراہتے ہوئے کہتا ہے کہ ‘مجھے میری رائفل دو۔’
ڈاکٹر اینا دیمترا نوجوان سپاہی کے زردی مائل گالوں کو تھپتھپاتے ہوئے کہتی ہیں: ’زیادہ تر معاملوں میں فوجیوں کی یہی حالت ہوتی ہے، یہاں بہت زیادہ ذہنی دباؤ ہوتا ہے۔‘
وہ 19 سالہ نوجوان سپاہی ایک بار پھر بیہوش ہو جاتا ہے اور انھیں لے جانے والی ایمبولینس فرنٹ لائن سے دور جنوب مشرقی زاپوریزیا کی جانب جاتے ہوئے ایک موڑ پر تیز رفتاری کے ساتھ مڑ جاتی ہے۔
اس نوجوان فوجی کا نام اولیہ ہے۔
جمعہ کی صبح ان کی خندق کے قریب ایک روسی مارٹر گولہ پھٹا تھا، اور اس سے نکلنے والے چھرّے اولیہ کی کمر کے نچلے حصے میں جا لگے تھے۔ ممکن ہے اس کی وجہ سے ان کی ریڑھ کی ہڈی کو بھی نقصان پہنچا ہو۔
ڈاکٹر اینا دیمترا ایم او اے ایس نامی تنظیم سے وابستہ ایک نجی ہسپتال میں کام کرتی ہیں۔ یہ تنظیم مغربی ممالک کی طرف سے فراہم کردہ فنڈز پر ہسپتال چلاتی ہے۔
وہ کہتی ہیں: ‘اولیہ بظاہر مستحکم ہیں لیکن ان کی حالت نازک ہے۔ ہمارے پاس اس طرح کے کئی کیسز آتے رہتے ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ماضی قریب میں تقریباً نصف درجن ایسے کیسز سامنے آئے ہیں۔
یوکرین کی جانب سے روس کے خلاف جوابی حملے میں اضافے کے دوران بی بی سی کی ایک ٹیم سخت حفاظت کے ساتھ جنوبی فرنٹ لائن کے قریب پہنچی ہے۔
فرنٹ لائن پر روس اور یوکرین کی صورتحال
جوابی کارروائی کے آغاز کے بعد سے یوکرین میں ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بہت سے فوجی اور تجزیہ کار اب یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا یوکرین کو اس سے کوئی فائدہ مل سکتا ہے۔
ان کی رائے ہے کہ روس نے موسم سرما کے دوران لاجسٹک اور ہتھیار بھیج کر اپنی دفاعی لائن کو مضبوط کیا ہے، کیا یوکرین کے لیے اس میں دراڑ ڈالنا آسان ہوگا۔
یوکرین کے فوجی کریلو پوتراس کہتے ہیں: ’اگر ہمیں [مغرب سے] مزید مدد نہ ملی تو ہم یہ بازی ہار سکتے ہیں۔‘
سنہ 2020 میں ایک روسی بارودی سرنگ پھٹنے کی وجہ سے ان کی بائیں ٹانگ کا نچلا حصہ کاٹنا پڑا تھا۔ لیکن وہ ایک بار پھر میدان جنگ میں ہیں۔ پوتراس کا کہنا ہے کہ یہاں روسی فوجیوں نے بڑے پیمانے پر بارودی سرنگیں بچھا رکھی ہیں جو ان کے لیے ایک چیلنج ثابت ہو رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’روسی فوجی تعداد میں بہت زیادہ ہیں۔ ان کے پاس ٹینک شکن بندوقیں بھی زیادہ تعداد میں ہیں اور ان کے پاس میزائل سسٹم بھی ہے۔‘
جوابی حملے کو ابھی ایک مہینہ ہوا ہے تاہم بہت سے ماہرین اور فوجی اس آپریشن کے مؤثر ہونے کے متعلق سوال اٹھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ابتدائی مرحلہ پلان کے مطابق نہیں رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ تقریباً ہزار کلومیٹر طویل فرنٹ لائن کو اس رفتار سے نہیں توڑا جا سکتا جس رفتار سے یوکرین کو گذشتہ سال کامیابیاں ملی تھیں۔
پچھلے چند ہفتوں کے دوران میں نے تین مختلف مقامات پر فرنٹ لائن کا دورہ کیا اور مختلف لوگوں سے ملاقات کی ہے۔
ان لوگوں کی رائے کو ہم تین بڑے حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں، پہلا گروپ وہ جو روس کی دفاعی لائن کو ٹن کی مانند سمجھتا ہے، دوسرا وہ جو یہ مانتا ہے کہ روس کی دفاعی لائن لکڑی کی مانند ہے اور تیسرا اسے کانچ کی طرح کہتا ہے۔
پہلی دلیل
تقریباً دو ہفتے قبل ڈونباس میں باخموت کے ایک فیلڈ ہسپتال میں کام کرنے والے ایک ڈاکٹر نے مجھ سے کہا تھا کہ روس کی دفاعی لائن ٹن کی طرح ہے۔
فائرنگ اور دھماکوں کی گونج کے درمیان انھوں نے بتایا کہ یوکرین میں ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں۔ انھوں نے خبردار کیا کہ روس کو اپنی دفاعی لائن مضبوط کرنے کے لیے کافی وقت مل گیا ہے، اس نے بڑی تعداد میں وہاں فوج بھیج دی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یوکرین روس کو تھوڑا سا، شاید دس کلومیٹر پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہو سکتا ہے، لیکن اسے یوکرین کے مشرقی اور جنوب مشرقی حصوں پر روس کی گرفت کو کمزور کرنے کے لیے سخت محنت کرنا پڑے گی۔
وہ مایوسی کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ معاملہ میدان جنگ میں حل نہیں ہو گا، اسے سیاسی سمجھوتے سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔‘
دوسری دلیل
روس کی دفاعی لائن کے بارے میں دوسری دلیل یہ تھی کہ یہ لکڑی کی طرح ہے، یعنی یہ ٹوٹ سکتی ہے، بکھر سکتی ہے لیکن مکمل طور پر تباہ نہیں ہو سکتی۔
باخموت کے جنوب مغرب میں تین گھنٹے کی مسافت پر موجود ویلیکا نوویسلکا میں ایک آدمی نے مجھے یہ بات بتائی۔
یوکرین کی فوجیں ملک کے جنوب میں بحیرہ اسود کی طرف موجود پہاڑی اور میدانی علاقوں میں آہستہ آہستہ پیش قدمی کر رہی ہیں۔ انھیں روسی بارودی سرنگوں سے بھرے میدانی علاقوں سے گزرتے ہوئے غیر متوقع حملوں کا سامنا ہے۔ اس لیے وہ آہستہ آہستہ پیش قدمی کر رہے ہیں۔ وہ چھوٹے چھوٹے شہروں اور دیہاتی قصبوں کو جیت رہے ہیں۔
یوکرین کے جیٹ طیاروں کی گڑگڑاہٹ کے درمیان 36 سالہ سپاہی آرٹیم کہتے ہیں کہ ’میں واقعی اس پر یقین رکھتا ہوں، لیکن کچھ لوگ مجھے ناامیدی کا شکار کہہ سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ روسی فوجیوں کے حوصلے پست تھے اور ممکن طور پر آنے والے مہینوں میں یوکرین کو کچھ برتری حاصل ہو سکتی ہے۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ نومبر میں جس طرح یوکرین کو جوابی حملے میں کامیابی ملی، اب ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر روس کی دفاعی لائن کو توڑنے کی کوشش کی گئی تو معلوم نہیں کہ یوکرین کو اس کی کیا قیمت چکانی پڑے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میڈیا اور معاشرہ جلدی میں ہے، لیکن برا بھی ہو سکتا ہے۔‘
یہ واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ فرنٹ لائن کے قریب رہنے والے اور یوکرین کے جوابی حملے میں زمینی آپریشن میں شامل فوجی جنگ کے حوالے سے مایوس ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ انھیں دوسروں سے زیادہ تجربہ ہے اور ان کی رائے زمینی حقائق پر مبنی ہے۔ لیکن یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ فرنٹ لائن پر ہونے کی وجہ سے یہ فوجی بڑی تصویر دیکھنے سے قاصر ہیں، بلکہ وہ بڑے فوجی آپریشن کے صرف ایک چھوٹے سے حصے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔
تیسری دلیل
مغربی عسکری تجزیہ کار مک ریان اور برطانوی مسلح افواج کے سربراہ سر ٹونی ریڈاکن جیسے معروف جرنیل روسی دفاعی لائن کو کانچ کی طرح بتاتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ جوابی کارروائی شروع ہو چکی ہے اور منصوبہ بندی کے مطابق چل رہی ہے۔ چند ہفتوں یا مہینوں میں روس کمزور ہو جائے گا اور یوکرین اپنی حکمت عملی سے بڑے حصوں کو اپنے دائرہ اختیار میں لانے کے قابل ہو جائے گا اور شاید وہ کریمیا کے قریب تک بھی پہنچ جائے۔
اس دلیل کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ انھیں تحمل برقرار رکھنے کی ضرورت ہے اور نا امیدی سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یوکرین کے فضائی حملے کم کر دیے گئے تو وہ ابتدائی مراحل میں روسی ’آپریشن سسٹم‘ کو منصوبے کے مطابق جلدی تباہ نہیں کر سکیں گے۔
یوکرین کی فوج زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کا استعمال کر رہی ہے اور ساتھ ہی وہ زیادہ سے زیادہ جگہوں پر روس کے فوجی ٹھکانوں پر بھی حملے کر رہی ہے۔
اس کی کوشش ہے کہ روسی فوج کو زیادہ سے زیادہ روکے، اس کی تعداد کم کرے اور اس کے ہتھیاروں کو تباہ کر دے۔
رواں ہفتے برطانیہ کی پارلیمنٹ میں سر ٹونی ریڈاکن نے جنگ میں یوکرین کی حکمت عملی کی وضاحت کی۔ انھوں نے کہا کہ یوکرین ’سٹارو، سٹریچ اینڈ سٹرائیک (دشمن کو بھوکا رہنے پر مجبور کرے اور جنگ کو طول دے اور پھر حملہ کرے) کی حکمت عملی کو اپنا رہا ہے اور روسی فوج اب تک اپنی نصف طاقت کھو چکی ہے۔
دوسری طرف فیلڈ ہسپتال میں جہاں ہماری ملاقات 19 سالہ اولیہ سے ہوئی تھی جب انھیں ایمبولینس کے ذریعے زاپوریزیا لے جایا جا رہا تھا، وہیں ہماری ملاقات یوکرین کے ایک ڈاکٹر سے بھی ہوئی۔ انھوں نے ہمیں صرف اپنا پہلا نام ‘ییوہین’ استعمال کرنے کے لیے کہا۔
پچھلے دنوں جن فوجیوں اور افسروں سے ہماری ملاقات ہوئی ان میں سے اکثر کی طرح وہ بھی اس جنگ میں یوکرین کے بارے میں پر امید ہیں۔
فیلڈ ہسپتال کے باہر بیٹھے ہوئے ییوہین نے دھماکوں کی آوازوں کے درمیان اپنے چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ‘ہر کوئی ایک بڑی فتح کا منتظر ہے۔ ہمیں اپنے آپ پر یقین ہے اور ہم انتظار کر رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہو گا۔ ہمیں صرف صبر کرنے کی ضرورت ہے۔’