ڈیٹا کے غلط استعمال پر فیس بک کی مالک کمپنی پر1.2 ارب یورو کا جرمانہ
یورپ اور امریکہ کے درمیان لوگوں کے ڈیٹا کی منتقلی کے دوران اس کے غلط استعمال پر فیس بک کی مالک کمپنی، میٹا پرایک عشاریہ دو ارب یورو کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔
آئرلینڈ کے ڈیٹا پروٹیکشن کمیشن کی جانب سے عائد کیے جانے والا یہ جرمانہ، جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن پرائیویسی قانون کے تحت ای یو کے باہرعائد کیا جانے والا سب سے بڑا جرمانہ ہے۔
یہ کمیشن ضابطے طے کرتا ہے اور کمپنیوں کو صارفین کا ڈیٹا یورپ سے باہر منتقل کرتے وقت ان کی پاسداری کرنا ہوتی ہے۔ میٹا کا کہنا ہے کہ وہ اس ’غیر منصفانہ اور غیر ضروری‘ فیصلے کے خلاف اپیل کرے گا۔
اس فیصلے کی بنیادی وجہ یورپی یونین کے ڈیٹا کو امریکہ منتقل کرنے کے لیے کمیشن کی معیاری معاہدے کی شقوں کا استعمال ہے۔
یورپی کمیشن کی جانب سے تیار کردہ یہ قانونی معاہدے حفاظتی اقدامات ہوتے ہیں کہ جب صارفین کا ڈیٹا یورپ سے باہر منتقل کیا جائے تو ذاتی ڈیٹا کا تحفظ کیا جائے۔ لیکن خدشات ہیں کہ یورپینز کا یہ ڈیٹا امریکہ کے کمزور پرائیویسی قوانین میں محفوظ نہیں ہے اور امریکی انٹیلی جنس ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔
اس فیصلے سے برطانیہ میں فیس بک پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انفارمیشن کمشنر کے دفتر نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ فیصلہ ’برطانیہ میں لاگو نہیں ہوتا‘ تاہم برطانیہ نے ’فیصلے کو نوٹ کیا ہے اور مناسب وقت پر تفصیلات کا جائزہ لیا جائے گا‘۔
’خطرناک نظیر‘
زیادہ تر بڑی کمپنیوں کے پاس ڈیٹا کی منتقلی کے پیچیدہ نیٹ ورک ہوتے ہیں – جس میں ای میل ایڈریس، فون نمبرز اور مالی معلومات شامل ہو سکتی ہیں۔ بیرون ملک وصول کنندگان کو، جن میں سے اکثر کا ایس سی سی ایس پر انحصار پر ہوتا ہے۔
فیس بک کے صدر نک کلیگ نے کہا: ’ہمیں مایوسی ہوئی ہے کہ اسی قانونی طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے جب ہزاروں دیگر کمپنیاں یورپ میں خدمات فراہم کرنا چاہتی ہیں تو صرف ہمیں نشانہ کیوں بنایا گیا۔
یہ فیصلہ ناقص، بلاجواز ہے اور یورپی یونین اور امریکہ کے درمیان ’ڈیٹا منتقل کرنے والی لاتعداد دیگر کمپنیوں کے لیے ایک خطرناک مثال قائم کرتا ہے‘۔
گھریلو متبادل
لیکن پرائیویسی گروپس نے اس نظیر کا خیر مقدم کیا ہے۔
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف پرائیویسی پروفیشنلز کی کیٹلن فینیسی نے کہا: ’اس ریکارڈ توڑ جرمانہ جو پیغام بھیج رہا ہے اس کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ’آج کا فیصلہ یہ اشارہ دیتا ہے کہ کمپنیوں کو ایسےکافی خطرات کا سامنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سے یورپی یونین کی کمپنیاں امریکی شراکت داروں سے یورپ میں ذخیرہ شدہ ڈیٹا کا مطالبہ کر سکتی ہیں یا گھریلو (اندرونی) متبادل کی طرف سوئچ کر سکتی ہیں۔
ایک دہائی پرانی جنگ
2013 میں، امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے سابق کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن نے انکشاف کیا کہ امریکی حکام نے فیس بک اور گوگل جیسی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ذریعے بار بار لوگوں کی معلومات تک رسائی حاصل کی تھی۔
اور آسٹریا کے پرائیویسی مہم چلانے والے میکس شریمز نے اپنے رازداری کے حقوق کے تحفظ میں ناکامی پر فیس بک کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا، جس نے یورپی یونین کے ڈیٹا کو امریکہ منتقل کرنے کی قانونی حیثیت پر ایک دہائی طویل جنگ شروع کی۔
یورپ کی اعلیٰ ترین عدالت، یورپین کورٹ آف جسٹس نے بارہا کہا ہے کہ واشنگٹن کے پاس یورپیوں کی معلومات کے تحفظ کے لیے انتظامات ناکافی ہیں اور 2020 میں کمیشن نے فیصلہ دیا تھا کہ یورپ سے امریکہ ڈیٹا ٹرانسفر کرنے کا معاہدہ غلط ہے۔
تاہم ای سی جی نے یہ کہتے ہوئے ایس سی سی ایس کے استعمال کی گنجائش چھوڑ دی کہ کسی تیسرے ملک کو ڈیٹا منتقل اسی وقت تک درست ہے جب تک کہ ڈیٹا کے تحفظ کی اعلی سطح کو برقرارا رکھا جائے۔
‘بنیادی طور پر تنظیم نو’
اس جرمانے کے بارے میں پوچھے جانے پر، شریمس نے کہا کہ وہ ’دس سال کی قانونی چارہ جوئی کے بعد یہ فیصلہ دیکھ کر خوش ہیں لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ ہو سکتا تھا‘۔
انہوں نے مزید کہا، ’جب تک امریکی نگرانی کے قوانین درست نہیں ہو جاتے، میٹا کو بنیادی طور پر اپنے نظام کی تشکیل نو کرنی پڑے گی۔ اتنے بڑے جرمانے کے باوجود، ماہرین نے کہا ہے کہ ان کے خیال میں میٹا کے رازداری کے طریقے تبدیل نہیں ہوں گے۔
آئرش کونسل فار سول لبرٹیز کے ایک سینئر فیلو جانی ریان نے کہا، ’ایک ارب یورو کا پارکنگ ٹکٹ ایک ایسی کمپنی کے لیے کوئی اثر نہیں رکھتا جو غیر قانونی طور پر پارکنگ کر کے مزید اربوں کماتی ہے‘۔
امریکہ نے حال ہی میں اپنے داخلی قانونی تحفظات کو اپ ڈیٹ کیا تاکہ یورپی یونین کو زیادہ سے زیادہ یقین دہانی کرائی جا سکے کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس طرح کے ڈیٹا تک رسائی کو کنٹرول کرنے والے نئے قوانین پر عمل کریں گی۔
2021 میں، ایمیزون پر اسی طرح یورپی یونین کے رازداری کے معیار کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ عائد کیا گیا تھا ۔آئرلینڈ کی ڈی پی سی نے ڈیٹا کی شفافیت کی خلاف ورڑی کرنے پر میٹا کے ذیلی ادارے واٹس ایپ پر بھی جرمانہ عائد کیا تھا۔