ورلڈ بینک ٹربیونل کی پاکستانی نژاد جج جنھیں بینظیر نے کہا تھا ’مہناز پاکستان کے لیے بہت کچھ کریں گی
’اپنے کیریئر کی پہلی ہی پیشی کے دوران ایک انتہائی اہم اور حساس کیس میں مجھے ٹریبونل کے ایک جج کی جانب سے نامناسب فقروں کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلی ہی پیشی پر نامناسب فقرے سُن کر چند لمحوں کے لیے میں گھبرائی کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔ پھر میں نے اپنے حواس کو قابو میں رکھتے ہوئے اُن کو مناسب جواب دیا اور وہ کیس بھی جیتا۔‘
ورلڈ بینک کے ٹریبیونل ’انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انووسمینٹ ڈسپیوٹ‘ (آئی سی ایس آئی ڈی) کی پاکستانی نژاد برطانوی خاتون جج مہناز ملک نے یہ بات بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتائی۔
مہناز ملک کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ عالمی تنازعات کے حل کے لیے ورلڈ بینک کے قائم کردہ ٹریبونل کی سب سے کم عمر جج نامزد ہوئی تھیں۔
پاکستان کے شہر لاہور میں پیدا ہونے والی مہناز نے ابتدائی تعلیم پاکستان میں ہی حاصل کی تھی جس کے بعد وہ سکالرشپ پر قانون کی تعلیم حاصل کرنے کیمبرج یونیورسٹی گئیں اور صرف 24 سال کی عمر میں برطانیہ میں ’لا سوسائٹی نیشنل ٹرینگ لائیرز آف دی ایئر‘ کا ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اپنے کریئر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ مہناز ملک یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی پہلی ایشیائی خاتون تھیں۔
کم عمری میں ہی انھوں نے ایک کتاب بھی تحریر کی جس پر انھیں ایوارڈ ملا اور اس کتاب میں لکھی ہوئی ان کی ایک تحریر سنہ 1999 میں بی بی سی ورلڈ پر نشر ہوئی جبکہ سارک ممالک کے لیے منعقدہ ایک مقابلے میں حصہ لیتے ہوئے ان کی لکھی ہوئی کہانی کو گولڈ میڈل دیا گیا۔
’یہ کیس تو آپ کی پیدائش سے بھی پہلے کا ہے‘
مہناز ملک کو آج بھی کمرہ عدالت میں ہونے والی وہ سماعت یاد ہے جب انھوں نے اپنے کریئر کا آغاز کیا تھا۔
وہ بتاتی ہیں کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایک بہت ہی سینیئر قانون دان کے ساتھ پریکٹس کا آغاز کیا تھا۔ ’ایک انتہائی اہم کیس سے پہلے وہ بیمار ہو گئے، جب کیس کی تاریخ پڑی تو وہ اس میں پیش ہونے کے قابل نہیں تھے۔ اب مجھے ہی اس میں پیش ہونا تھا۔ یہ انتہائی اہم لمحہ تھا۔ کیس اہم تو تھا ہی مگر یہ میری کریئر کی شروعات بھی تھیں۔‘
مہناز ملک بتاتی ہیں کہ ’بین الاقوامی قوانین کی پریکٹس انتہائی مشکل ہے۔ اس میں قانون دان کے کلائنٹس ریاستیں، حکومتیں، ملٹی نیشنل کمپنیاں ہوتی ہیں۔ یہ کیسز مختلف مالی تنازعات اور معاہدوں کے حوالے سے تو ہوتے ہی ہیں مگر ان میں ریاستوں اور حکومتوں کا عزت و وقار اور خودمختاری کا بھی سوال ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اب تو ڈیجیٹل دور ہے۔ مگر کچھ سال پہلے تک مجھے یاد ہے کہ عدالتوں میں پیش کرنے کے لیے بڑی بڑی کتابیں اور کاغذات اٹھا کر لے جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ میں نے پیرس میں ایک ٹن کاغذات ٹرانسپورٹ کروائے تھے۔‘
مہناز ملک نے بتایا کہ ’ہماری لا فرم جس کی قیادت بہت ہی سینیئر قانون دان کرتے تھے۔ ان کی عدم موجودگی میں مجھے نمائندگی کرنا تھی۔ کیریئر کا پہلا کیس ہو تو وہ بندہ ویسے ہی بہت محتاط ہو جاتا ہے۔ مگر اس کے لیے میں نے بھرپور تیاری اور محنت کی تھی۔‘
’مجھے یاد ہے کہ میں بہت بڑی تعداد میں کاغذات اور کتابیں لے کر پیش ہوئی تھی۔ میں پراعتماد تھی کہ ہمارا کیس بہت مضبوط ہے۔ مگر اس کیس کو میرے لیے یادگار بننا تھا۔ ٹریبونل میں موجود ایک بہت سینیئر جج نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ آپ اس کیس میں پیش ہوں گی۔ یہ تو تمھاری پیدائش سے بھی پہلے کا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ’اس طرح انھوں نے کچھ اور بھی کہا تھا۔ مجھے لگا کہ انھیں ایک جونیئر وکیل کا اس کیس میں اُن کے سامنے پیش ہونا اچھا نہیں لگا۔ ان کے جملوں کے بعد لمحوں میں خود پر قابو پایا اور شاید کچھ اس طرح کہا کہ شاید یہ کیس میری پیدائش کے وقت سے پہلے کا ہے، مگر میں آپ کو اس پر پوری طرح مطمئن کروں گی۔‘
’جب دلائل کا آغاز ہوا تو میں نے سب کچھ بھول کر اپنی پوری جان مار دی۔ اپنے دلائل اور حقائق کھول کھول کر سامنے رکھ دیے، ہمارا کیس بھی مضبوط تھا چنانچہ فیصلہ ہمارے حق میں آیا۔‘
’بچپن میں بے نظیر سے لیا گیا آٹو گراف‘
مہناز ملک کے مطابق اِس ابتدائی یادگار کیس کے بعد انھوں نے انڈونیشیا کے دو کیس بھی کامیابی سے جیتے اور اس کے بعد یہ سلسلہ چل پڑا یہاں تک کہ بین الاقوامی تنازعات کے مقدمات میں اُن کا ایک نام بن گیا۔
’بچپن ہی میں کچھ نہ کچھ کرنے کا شوق تھا، اور میرا خیال ہے کہ اس کا سہرا پاکستان کی سابق خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو جاتا ہے۔ میرے نانا خان بہادر حبیب اللہ پراچہ ایک جانے مانے سرمایہ کار تھے اور تھوڑی بہت سیاست بھی کرتے تھے جبکہ میرے والد ڈاکٹر محمد ارشد ملک وفاقی سیکریٹری ریٹائرڈ ہیں۔‘
’میں چھوٹی تھی تو اس وقت میرے نانا کے گھر میں بے نظیر بھٹو آئی تھیں۔ میرے نانا نے اس وقت کہا تھا کہ یہ مستقبل میں پاکستان کی وزیر اعظم ہوں گی۔ مجھے اس وقت سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ خاتون کیسے ملک کی وزیر اعظم ہوں گی؟‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے ایک ایسے خاندان میں آنکھ کھولی تھی جس میں خواتین کی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ ان کو زیادہ طاقتور نہیں دیکھا جاتا تھا، مگر بے نظیر بھٹو کے استقبال کی زور و شور سے تیاریاں ہو رہی تھے، جس سے میں پہلے ہی متاثر ہو چکی تھی۔‘
’وہ ہمارے گھر آئیں تو ان کی سب کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر میرے تمام مرد کزنز نے اُن سے آٹوگراف لیے تھے۔ جس پر انھوں نے ان سب کے لیے ایک جیسے ہی جملے میں نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔ مگر جب میری باری آئی تو انھوں نے آٹو گراف لکھا کہ مہناز پاکستان کے لیے بہت کچھ کریں گی۔ وہ الفاظ صرف میرے لیے تھے۔‘
’مجھے اس پر بہت خوشی ہوئی اور مجھے لگا کہ ایک لڑکی بھی دنیا میں بہت کچھ کر سکتی ہے اور یہ سوچ ہمیشہ میرے ساتھ رہی۔ اصل میں، میں کبھی بھی بے نظیر اور پیپلز پارٹی کی سیاست سے وابستہ نہیں تھی مگر مجھے کچھ کرنے والی طاقتور خواتین نے ہمیشہ متاثر کیا۔
’یہی وجہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کا یہ جملہ ہمیشہ میرے ساتھ رہا اور اسی کے باعث میرا بے نظیر سے ان سے کافی رابطہ بھی رہا۔‘
’مجھ پر تنقید مت کیا کرو‘
مہناز ملک بتاتی ہیں کہ جب وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن گئیں تو اُن کا بے نظیر بھٹو سے اکثر رابطہ ہوتا تھا۔ بے نظیر بھٹو بھی آئس کریم کی شوقین تھیں اور میں بھی۔ ہم دونوں اکثر شام کو مل کر لندن میں اچھی آئس کریم تلاش کیا کرتے تھے۔
’اصل میں جب میرا بچپن اور کم عمری کا دور تھا تو اس وقت خواتین رول ماڈل بہت کم تھیں۔ پاکستان میں لے دے کر فاطمہ جناح، بے نظیر بھٹو اور کچھ اور نام لیے جاتے تھے۔ اس لیے میں وقت کے ساتھ ساتھ ان کے قریب ہوتی چلی گئی تھی۔
’اُس وقت میری بے نظیر کے ساتھ لمبی بات چیت ہوتی تھی۔ اس میں ہم بات کرتے تھے کہ رول ماڈل کا ہونا کتنا اہم ہے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ میں نے بے نظیر کو سیاست کے بغیر دیکھا اور سمجھا تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’میں بے نظیر بھٹو کی شخصیت سے متاثر تو تھی ہی مگر اُن کی پارٹی سیاست سے متفق نہیں ہوتی تھی۔ میں اکثر جو غلط سمجھتی تھی اُن کو کہہ دیا کرتی تھی۔
’ایک مرتبہ تو وہ بہت تنگ ہوئیں اور مجھ سے کہا کہ مہناز تم بہت اچھی ہو، مجھ پر تنقید مت کیا کرو، میں پہلے ہی بہت تنقید سنتی ہوں اور تنقید سن سن کر تنگ آ گئی ہوں۔‘
یاد کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ کیمبرج میں اُن کو کہا گیا کہ کسی خاتون لیڈر کا انٹرویو کیا جائے۔
’میں نے بے نظیر کا انٹرویو کیا۔ یہ انٹرویو کافی پسند کیا گیا تھا۔ بے نظیر کی قد آور شخصیت اپنی جگہ مگر میرے لیے یہ انٹرویو کرنا قطعاً مشکل نہیں تھا کیونکہ مجھے بچپن ہی سے لکھنے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ابتدا میں ان کا تعلیم مکمل کرنے کے بعد سیاست کے میدان کا پلان تھا مگر پھر زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے انھیں محسوس ہوا کہ سیاست کا میدان ان کے لیے نہیں ہے۔
بچپن کے احساسات پر کہانی لکھی
مہناز ملک بتاتی ہیں کہ کم عمری میں اُن کی کتاب کو ایوارڈ ملا تھا۔ ’میری کتاب میں موجود ایک کہانی کو بی بی سی نے بھی نشر کیا تھا، اور اُس زمانے میں دیگر ذرائع ابلاغ نے بھی اس پر خبریں شائع کی تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سارک مقابلوں میں بھی مجھے گولڈ میڈل ملا تھا۔ وہ ایوارڈ اس وقت کے انڈین وزیر اعظم نرسیہما راؤ نے دیا تھا جبکہ میری اس کہانی پر ممتاز انڈین صحافی خشونت سنگھ اور دیگر صحافیوں نے ریویو لکھے تھے۔‘
’سارک کے لیے لکھی گئی کہانی میرے بچپن کے محسوسات پر مبنی تھی۔ بچپن میں ہم جن دوستوں یا سہیلوں کے ساتھ کھیلتے کودتے ہیں۔ جب تھوڑے بڑے ہوتے ہیں تو وہ الگ کیوں ہو جاتے ہیں؟ مجھے یہ سمجھ نہیں آتا تھا۔ یہ کہانی شاید میرے بچپن ہی کی تھی کہ میں جن سہیلوں کے ساتھ بچپن میں کھیلتی تھی جب سکول جانے کا وقت آیا تو میں مختلف سکول میں کیوں گئی اور وہ کسی اور سکول کیوں گئیں۔ یہ فرق کیوں تھا؟ میں نے اپنی کہانی میں اس فرق پر بات کرنے کی کوشش کی تھی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’زندگی میں میں نے بہت محنت کی ہے اور 18 سال کی عمر کے بعد کبھی والدین سے پیسے نہیں لیے۔‘
’لندن میں ٹیوشن پڑھاتی تھی‘
مہناز بتاتی ہیں کہ ’مجھے کیمبرج میں مکمل سکالر شپ ملا تھا۔ جس میں رہائش، ٹیوشن فیس وغیرہ سب کچھ شامل تھا۔ اس لیے دوران تعلیم تو مجھے جتنے پیسے ضرورت ہوتے تھے وہ وہاں سے مل جاتے تھے، بلکہ ایسا ہوتا تھا کہ جب چھٹیاں ہوتی تھیں تو میں پاکستان چلی آتی تھی، جس کی وجہ سے کچھ پیسے تو بچ بھی جاتے تھے۔‘
’کیمرج کی تعلیم محنت طلب ہوتی ہے۔ چونکہ میرے پاس مکمل سکالرشپ تھا، اس لیے میری ساری توجہ تعلیم ہی کی طرف تھی مگر جب تعلیم سے فارغ ہوئی اور زیر تربیت بیرسٹر بنی تو اس وقت اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے قانون کے طالبعلموں کو ٹیوشن پڑھایا کرتی تھی جس سے میرے اخراجات پورے ہو جاتے تھے۔‘
’میں سمجھتی ہوں کہ جب دل میں لگن ہو اور آپ محنت کر رہے ہوں تو پھر کچھ بھی ناممکن اور مشکل نہیں رہتا ہے۔ میری زندگی میں ایسا ہو چکا ہے۔ میں صرف 24 سال کی عمر ہی میں بین الاقوامی ٹریبونل میں پیش ہونا شروع ہو گئی تھی اور پھر آئی سی ایس آئی ڈی کی تاریخ میں دنیا کی کم عمر ترین خاتون جج بن گئی ہوں۔‘
’ایسا اس وجہ سے ممکن ہوا کہ رکاوٹوں کے باوجود میری منزل واضح تھی اور اس منزل تک پہنچنے کا راستہ خلوص نیت سے محنت تھا۔‘