بغاوت کا سینکڑوں سال پرانا قانون جسے لاہور ہائی کورٹ نے ’آئین سے متصادم‘ قرار دیا
بائیس سالہ اوشا مہتا پولیس کی پہلی دستک کے بعد اس جگہ پر آخری دروازہ ٹوٹنے تک ایک کے علاوہ اپنے ان تمام ساتھیوں کو بھگا چکی تھیں جو ہندوستان کی برطانوی حکومت سے آزادی کے پیغامات نشر کرتے زیرِ زمین ریڈیو چلانے میں ان کے مددگار تھے۔
ٹرانسمیٹر کا بندوبست کرنے کے بعد، ولسن کالج بمبئی (آج کا ممبئی) میں سیاسیات کی طالبہ اوشا مہتا نے خفیہ ریڈیو کی براہِ راست نشریات 14 اگست 1942 کو یہ کہتے ہوئے شروع کی تھیں: ’یہ کانگریس ریڈیو ہے جو ہندوستان میں کہیں سے آپ سے مخاطب ہے۔‘
ریڈیو سے خبریں، حب الوطنی پر مبنی تقاریر اور اپیلیں پیش ہوتیں۔ شروع میں نشریات دن میں ایک بار ہوتی تھیں لیکن جلد ہی دن میں دو بار نشر ہونے لگیں: ایک بار صبح اور ایک بار شام کو۔
یہی ریڈیو لوگوں کو بتاتا کہ کیا ہو رہا ہے اور ان موضوعات کے حوالے سے خبریں دیتا جنھیں اخبارات چھونے کی ہمت بھی نہ کرتے۔
چونکہ پولیس ان کے پیچھے لگی ہوتی تھی، اس لیے اوشا اور ان کے ساتھی جگہ تبدیل کرتے رہتے۔ پھر ریکارڈنگ سٹیشن اور براڈکاسٹنگ سٹیشن الگ الگ جگہوں پر بنا لیا گیا، نشریات بھی دو ٹرانسمیٹرز سے ہونے لگی۔
لیکن ان کی قسمت 12 نومبر 1942 کو اس وقت ہار گئی جب ایک ٹیکنیشن نے ان کے مقام کو ظاہر کر کے ان کے ساتھ دھوکا کیا۔ اوشا مہتا اور ایک اور کارکن کو اس روز گرفتار کیا گیا۔ دو دیگر اگلے دنوں میں پکڑے گئے۔
اے این شرما نے لکھا ہے کہ اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران میں مہتا یہ کہتی رہیں کہ ’میں نے کچھ غلط نہیں کیا ہے، صرف اپنے ملک کی آزادی کے لیے کام کیا ہے۔‘
طویل تفتیش، قید تنہائی اور پانچ ہفتے کے مقدمے کی سماعت کے بعد، اوشا مہتا کو مارچ 1946 تک جیل بھیج دیا گیا۔
یوں اوشا مہتا ان کئی خواتین اور مردوں میں شمار ہوئیں جن کو برطانوی دور میں بغاوت کے ایک ایسے قانون کے تحت سزا ملی جسے برطانوی نوآبادیاتی حکومت سے آزادی کے 75 سال بعد بھی انڈیا اور پاکستان دونوں نے اپنے اپنے پینل کوڈ میں برقرار رکھا ہوا ہے۔
اس قانون میں بغاوت کسی بھی ایسے عمل یا کوشش کو قرار دیا گیا ہے جس سے ’برطانوی ہندوستان میں قانون کے ذریعے قائم کی گئی حکومت کے خلاف نفرت، توہین، یا عدم اطمینان پیدا ہو۔‘
تاہم، حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں میں اس قانون کو اختلاف رائے کو دبانے اور حکومت کی مخالفت کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیے جانے پر تنقید کی جاتی رہی ہے اور اسے منسوخ کرنے کے مطالبات کیے گئے ہیں۔
گیارہ مئی 2022 کو سپریم کورٹ آف انڈیا نے نوآبادیاتی دور کے اس قانون کو معطل کر دیا تھا اورپاکستان میں کل لاہور ہائی کورٹ کے جج شاہد کریم نے بغاوت کے اس قانون، یعنی پینل کوڈ کے سیکشن 124 اے، کو آئین سے متصادم قرار دے دیا ہے۔
تاہم یہ قانون دونوں ملکوں کی تعزیرات میں ابھی بھی موجود ہے۔
یہ قانون بنا کیسے؟
بغاوت کا قانون سب سے پہلے 1837میں تھامس بیبنگٹن میکالے کے ڈرافٹ انڈین پینل کوڈ کی شق 113 میں متعارف کروایا گیا تھا۔
تاہم جب 1860 میں 20 سال کی تاخیر کے بعد بالآخر یہ کوڈ نافذ کیا گیا تو بغاوت سے متعلق سیکشن پراسرار طور پر اس میں شامل نہیں تھا۔
بغاوت کے قانون کو متعارف کرانے کی ضرورت کو سب سے پہلے انگریزوں نے 1857 کی بغاوت کے بعد تسلیم کیا اور 1870 تک انگریزوں کے خلاف بغاوت کے واقعات کے ساتھ وہابی سرگرمیوں (مسلمانوں کے ایک فرقے وہابیوں کی تبلیغ سمیت دیگر سرگرمیاں جنھیں انگریزوں نے اپنے مخالف سمجھا) میں بھی اضافہ ہو گیا۔
یوں 25 نومبر 1870 کو انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 124 اے کے تحت غداری کا معاملہ شامل کیا گیا۔
بغاوت کے قانون کے پیچھے کیا ارادہ تھا؟
برطانوی نوآبادیاتی اہلکار سر جیمز سٹیفن کا 1877 میں دیا گیا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ بغاوت کے قانون کا مقصد حکومت کی جانب سے عدم اطمینان کے اظہار کو دبانا ہے۔
سنہ 1898 میں اس قانون میں ترمیم کی گئی جس کے تحت قائم حکومت کی جانب سے نفرت یا حقارت (عدم اطمینان کے علاوہ) پیدا کرنے کوشش کو قابل سزا بنا دیا گیا۔ تب سے بڑی حد تک اس قانون کی یہی شکل برقرار ہے۔
19ویں اور 20ویں صدی کے اوائل میں یہ قانون بنیادی طور پر برطانوی راج سے آزادی کے خواہاں ہندوستانی سیاسی رہنماؤں کے خلاف استعمال کیا گیا۔
جن لوگوں پر قانون کے تحت الزام لگایا گیا اور جنھیں سزائیں دی گئیں ان میں بال گنگا دھر تلک، اینی بیسنٹ، مہاتما گاندھی، مولانا ابوالکلام آزاد، جواہر لال نہرو اور کئی دوسرے قوم پرست شامل ہیں۔
تلک کی وکالت جناح نے کی
قوم پرست اور تحریک آزادی میں ایک اہم کارکن بال گنگا دھر تلک پر دو بار غداری کا الزام لگایا گیا۔
سنہ 1897 میں انھیں بمبئی ہائی کورٹ نے مراٹھی اخبار ’کیسری‘ میں ایک مضمون شائع کرنے پر سزا سنائی۔ تلک کو اسی عدالت نے 1908 میں کیسری میں ان کی تحریروں کی وجہ سے ایک بار پھر بغاوت کا مجرم قرار دیا۔
اپنے مقدمے میں تلک نے حکومت پر اختلاف اور تنقید کرنے کے حق کا دفاع کرتے ہوئے کہا ’سیلف گورنمنٹ ہمارا مقصد ہے، لیکن تنقید ہمارا حق ہے۔‘
سنہ 1916 میں انھیں پونے کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ’تین تقریروں میں فتنہ انگیزی‘ کا مجرم قرار دیا۔ تاہم ہائی کورٹ نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے حکم کو منسوخ کر دیا۔
تلک کی وکالت محمد علی جناح نے کی۔
’محبت پیدا نہیں کی جا سکتی‘
سب سے تاریخی مقدمہ اور غداری کے قانون کی مخالفت کرنے والوں کی طرف سے اکثر حوالہ دیا جانے والا کیس 1922 میں گاندھی کے خلاف تھا۔
’ینگ انڈیا‘ میں سیاسی طور پر حساس مضامین کے لیے، بھدرا، گجرات کے سیشن کورٹ میں ان پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔
اپنا جرم قبول کرتے ہوئے گاندھی نے کہا کہ ’یہ قانون شہری کی آزادی کو دبانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ محبت قانون کے ذریعے پیدا نہیں کی جا سکتی۔‘
ایک برطانوی سوشلسٹ اور خواتین کے حقوق کی کارکن اینی بیسنٹ جو 19ویں صدی کے آخر میں ہندوستانی قوم پرست بن گئی تھیں، ان پر بھی 1917 میں اپنے اخبار ’نیو انڈیا‘ میں مضامین شائع کرنے پر بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا۔
ان مضامین میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی گئی تھی۔
ایچ ایس لینگ نے اینی بیسنٹ کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ 1917 میں اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران بیسنٹ نے اپنے دفاع میں ہندوستان کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کرتے ہوئے ایک پرجوش تقریر کی۔
انھوں نے کہا ’میں رحم کی درخواست نہیں کرتی، میں آپ سے انگریز کی حیثیت سے نہیں بلکہ انصاف سے محبت کرنے والوں کے طور اپیل کرتی ہوں۔۔۔ مجھے ہندوستان کی آواز بننے دیں، مجھے ہندوستانیوں کی حقیقی امنگوں کا ترجمان بننے دیں۔‘
انھیں چھ سال قید کی سزا سنائی گئی لیکن خرابی صحت کی وجہ سے ڈھائی سال بعد رہا کر دیا گیا۔
ہندوستانی قوم پرست رہنما بھگت سنگھ پر غداری کا الزام عائد کیا گیا اور لاہور سازش کیس میں ان کے کردار پر موت کی سزا سنائی گئی۔ انھیں 23 مارچ 1931 کو پھانسی دی گئی۔
ایک بنگالی انقلابی متنگِنی ہزرا پر 1932 میں نمک ستیاگراہ تحریک کے دوران بغیر اجازت ایک احتجاج کی قیادت کرنے پر بغاوت کا الزام لگایا گیا۔
انھیں ایک سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ سنہ 1942 کے بعد انھوں نے ہندوستان چھوڑو تحریک میں حصہ لیا اور ایک احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے پولیس نے انھیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
اروشی بٹالیہ لکھتی ہیں کہ اپنے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ارونا آصف علی نے مبینہ طور پر ایک جرات مندانہ بیان دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ’میں باغی ہوں اور جب تک میرا ملک آزاد نہیں ہو جاتا، باغی رہوں گی۔ لیکن میں غدار نہیں ہوں۔ میری انگریزوں سے کوئی وفاداری نہیں ہے۔‘
جبر کا آلہ
ڈرک ایچ اے کولف کا استدلال ہے کہ اس قانون کا استعمال برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف اختلاف رائے اور مخالفت کو دبانے کے لیے کیا گیا تھا اور یہ کہ بہت سے ہندوستانی قوم پرستوں نے اسے جبر کے ایک آلہ کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
عدالتی نقطہ نظر سے، سب سے اہم فیصلہ 1942 میں نہارندو دت موجمدار بمقابلہ شہنشاہ کیس میں آیا۔
فیڈرل کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس موریس گوئیر نے قرار دیا کہ:
’یہ [بغاوت] حکومتوں کی مجروح انا کی تسکین کے لیے جرم نہیں بنایا گیا بلکہ جہاں حکومت اور قانون کی اطاعت ختم ہو جائے صرف انتشار ہی ہو، عوامی خرابی، یا عوامی خرابی کی معقول توقع یا امکان، اس جرم کا خلاصہ ہے۔ جن حرکتوں یا الفاظ کی شکایت کی گئی ہو ان سے یا تو انتشار پیدا ہوتا ہو یا معقول لوگ یہ جانیں کہ ایسا کرنے کا ارادہ یا رجحان ہے۔‘