پنجاب، کے پی الیکشن ازخود نوٹس کیس سے الگ ہونے والے ججز نے اپنے نوٹس میں کیا کہا ہے؟
پیر کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے کیس کی سماعت سے پہلے سپریم کورٹ میں اعلان کیا گیا کہ 23 فروری کو ہونے والی سماعت کا فیصلہ ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ چودہ صفحات پر مشتمل ہے جس میں بینچ سے الگ ہونے والے ججز کے نوٹس شامل ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل:
جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ انہیں بائیس تاریخ کو رات گئے ایک فائل ملی جس کے مطابق چیف جسٹس نے انتخابات کے معاملے پر ازخود نوٹس لے لیا ہے۔
یہ ازخود نوٹس غلام محمود ڈوگر کی جانب سے کی گئی ایک پٹیشن پر ہونے و الے فیصلے کی بنیاد پر لیا گیا تھا جس میں عابد زبیری غلام محمود ڈوگر کے وکیل ہیں۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘غلام محمود ڈوگر کی پٹیشن پر ابھی فیصلہ نہیں ہوا تھا جب چیف الیکشن کمشنر، جو کہ اس کیس میں فریق نہیں تھے، کو بینچ نے طلب کیا اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے سوال پوچھا گیا۔’
اضافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ‘یہاں یہ قابل ذکر ہے کہ تین آڈیوز منظرعام پر آئیں۔ رپورٹس کے مطابق ان ریکارڈنگز میں سے ایک میں عابد زبیری سابق چیف منسٹر سے غلام محمود ڈوگر کے کیس کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، جو کہ میرے خیال میں بہت سنجیدہ (معاملہ) ہے۔’
اضافی نوٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ دونوں ججز اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی نے پہلے ہی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کا انعقاد نوے دن میں ہونا لازمی ہے اور یہ کہ آئین کی خلاف ورزی کا واضح خدشہ موجود ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ معاملے پر خود چیف جسٹس بھی اپنی رائے دے چکے ہیں۔ نوٹ کے مطابق ایسی حتمی رائے نے اس کیس کا فیصلہ کر دیا ہے اور فیصلہ بھی آئین کی شق 10 اے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔
‘لہذا ان حالات میں آرٹیکل 184(3) کے تحت اس معاملے کو چیف جسٹس کے پاس ازخود نوٹس کے لیے بھیجنا مناسب نہیں تھا۔ ازخود نوٹس جسٹفائیڈ نہیں ہے۔’
جسٹس سید منصور علی شاہ:
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ ‘یہ اس عدالت کے ہر جج کی آئینی اور قانونی فرض ہے کہ وہ چیف جسٹس کے بنائے گئے اس بینچ میں بیٹھے اور اس وقت تک مقدمے کی سماعت کرے جب تک کہ اس کے پاس اس کیس کی سماعت سے خود کو الگ کرنے کی ایک قانونی جواز موجود نہ ہو۔’
انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے انہوں نے خود کو اس سماعت سے علیحدہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اسے اپنا آئینی اور قانونی حق سمجھتے ہیں کہ وہ اس کیس سے متعلق اپنے تحفظات سامنے لائیں تاکہ ان کی خاموشی کو رضامندی نہ سمجھا جائے۔ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت اس عدالت کے اصل دائرہ اختیار کو موجودہ کیس کے ساتھ ساتھ موجودہ بینچ کی تشکیل پر بھی از خود نوٹس لینے پر تحفظات کا اظہار کیا۔
اضافی نوٹ میں ان کا مزید کہنا تھا کہ چیف جسٹس کو ازخود نوٹس کی سفارش کرنے والا (دو رکنی) عدالتی حکم ایک ایسے کیس میں دیا گیا تھا جس کا ہمارے سامنے موجود معاملے سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ اس فیصلے سے عوام میں یہ تاثر گیا کہ دو رکنی بینچ کی اس معاملے میں غیر ضروری دلچسپی ہے۔
انہوں نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ اس سے منسلک عوام میں ایک تنازع موجود ہے جو مذکورہ (دو رکنی) بینچ کے ایک ممبر سے متعلق آڈیو لیکس سے جڑا ہے۔ تاہم عدالت کے اندر اور باہر سے کی گئی درخواستوں کے باوجود عدالت یا سپریم جوڈیشل کونسل کے آئینی فورم کی طرف سے ان الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ عوامی اہمیت کے اس معاملے میں مذکورہ بینچ کے ان ججوں کی موجودگی نامناسب ہے اور ان کی بنچ میں میں شمولیت اس لیے بھی زیادہ معانی خیز ہو جاتی ہے جب اس عدالت کے دیگر سینئر ججز بینچ میں شامل نہیں۔
جسٹس یحیی آفریدی:
جسٹس یحیی آفریدی نے بھی اپنے اضافی نوٹ میں اس معاملے کو ہائی کورٹ کی انٹرا کورٹ اپیل میں جاری سماعت سے جوڑتے ہوئے کہا کہ یہ عدالتی طور پر مناسب نہیں ہو گا کہ ایک آرٹیکل 184 تھری کے تحت ایک ایسی پٹیشن پر ازخود نوٹس لیا جائے جو پہلے ہی لاہور ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ میں زیرالتوا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے اس آرٹیکل کے تحت عدالت کا دائرہ اختیار آزاد اور حقیقی ہے اور یہ دائرہ اختیار کسی بھی دوسری عدالت یا فورم پر موجود کسی پٹیشن کے التوا سے متاثر نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے مزید لکھا کہ عدالت کو خاص طور پر ایسے وقت میں صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے جب لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اس معاملے پر دیا گیا فیصلہ، اور پھر اس کے خلاف انٹراکورٹ اپیل زیرالتوا ہے جبکہ دوسری طرف فریقین کے مخصوص الزامات اور متزلزل بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ لہذا اس سماعت کے دوران کسی بھی قسم کے ریمارکس نہ صرف سیاسی جماعتوں کے جانب سے لگائے گئے الزامات کو بڑھاوا دیں گے بلکہ ہائی کورٹ کی دائرہ اختیار کو بھی متاثر کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ‘اسی لیے میں ان تینوں پیٹیشنز کو ڈس مس کرتا ہوں’۔ ان کا مزید کہنا تھا ان تینوں درخواستوں پر ازخود نوٹس لینا غیرمناسب ہے اور اسی لیے ان کی سماعت کا کوئی فائدہ نہیں۔ تاہم انہوں نے لکھا کہ وہ خود کو بینچ کا حصہ رکھنے یا نہ رکھنے سے متعلق فیصلہ چیف جسٹس پر چھوڑتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ:
جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ وہ جسٹس یحییٰ آفریدی سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کا حکم اوپن کورٹ میں جاری کارروائی اور حکم سے مطابقت نہیں رکھتا۔ انہوں نے خیبرپختونخوا اور پنجاب میں اسمبلیوں کے تحلیل کیے جانے پر اپنے سوالات کو اضافی نوٹ کا حصہ بنایا۔
انہوں نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ ‘ہمارے سامنے اٹھائے گئے سوالات کو علیحدہ کر کے نہیں دیکھ اجا سکتا کیونکہ خیبرپختونخوا اور پنجاب کی صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے حوالے سے آئینی حیثیت سے متعلق اٹھائے گئے سوالات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، اسمبلیوں کی تحلیل کی قانونی حیثیت سے متعلق سوالات میں بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں شامل ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ان کی تجویز تھی کہ اس معاملے پر غور کرنے سے قبل متعلقہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی آئینی حیثیت کا بھی جائزہ لیا جائے۔
نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے آرٹیکل 184 تھری کے تحت لیے گئے از خود نوٹس کے دائرہ اختیار کو قبول کرتے ہوئے مجوزہ سوالات کو غور کے لیے شامل کرلیا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اسمبلیوں کے تحلیل ہونے سے متعلق تین سوالات اٹھائے ہیں:
1: کیا صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے لیے وزیر اعلیٰ کا مشورہ دینے کا اختیار مطلق ہے اور کیا اس کے استعمال کے لیے کسی ٹھوس آئینی وجہ کی ضرورت نہیں ہے؟
2: کیا وزیر اعلیٰ اپنی آزادانہ رائے سے ایسا مشورہ دے سکتے ہیں یا کسی دوسرے شخص کی ہدایت پر ایسا مشورہ دے سکتے ہیں؟
3: اگر ایک یا کسی اور وجہ کی بنیاد پر وزیراعلیٰ کی ایسی تجویز آئینی طور پر غلط ثابت ہوئی تو کیا تحلیل کردہ صوبائی اسمبلی کو بحال کیا جا سکتا ہے؟
انہوں نے مزید لکھا ‘کہ میرے خیال میں آرٹیکل 183 تھری کے دائرہ اختیار میں یہ پنہاں ہے کہ اس غیر معمولی اختیار کو فل کورٹ ہی استعمال کرے۔
نوٹ میں کہا گیا ہے کہ اس پر چلنے والی کارروائی پر عوام کے اعتماد کو یقینی بنانے اور ہمارے سامنے اٹھائے گئے سوالات کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ آئین کی خلاف ورزی اور اس کی تشریح کے معاملے کی سماعت فل کورٹ کرے۔ لہٰذا اس تناظر میں آئین کے آرٹیکل 184 تھری کی مداخلت کی بھی تشریح درکار ہے۔