ظلِ شاہ میرا بیٹا بہت معصوم تھا، اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ عمران خان کا دیوانہ تھا
میرا بیٹا بہت سیدھا سادہ اور بھولا بھالا تھا۔ شاید وہ پوری دنیا میں عمران خان کا سب سے بڑا فین تھا۔ تحریک انصاف اس کا جنون تھی۔ ہم نے کبھی بھی اس کے جنون کے راستے میں حائل ہونے کی کوشش نہیں کی تھی۔‘
تحریک انصاف کے کارکن علی بلال (جو ظلِ شاہ کی عرفی نام سے زیادہ معروف تھے) کے والد لیاقت علی نے اپنے بیٹے کی کہانی سنانے کی ابتدا کچھ اس طرح کی۔ علی بلال بدھ کے روز صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں ہلاک ہو گئے تھے۔
علی بلال نے سوگواران میں والدین کے علاوہ دو بھائی اور دو بہنیں چھوڑی ہیں۔
ان کی ہلاکت کے بارے میں تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ وہ پنجاب پولیس کے تشدد سے مارے گئے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے مطابق علی بلال کو پنجاب پولیس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے کیس میں زمان پارک کے باہر سے گرفتار کیا تھا۔
تاہم پنجاب پولیس ان دعوؤں کو مسترد کرتی ہے اور انھوں نے اس واقعے کا مقدمہ پی ٹی آئی قیادت کے خلاف درج کر لیا ہے۔
دوسری جانب پنجاب کی نگران حکومت نے علی بلال کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے خصوصی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ علی بلال کے والد لیاقت علی کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے کے مبینہ قتل کا مقدمہ نگران وزیر اعلیٰ سمیت دیگر اہم شخصیات پر درج کرانے کے لیے پولیس کو درخواست بھی دی ہے۔
لیاقت علی بتاتے ہیں کہ ’میرا بیٹا بہت معصوم تھا۔ وہ کسی کو تکلیف نہیں پہچاتا تھا۔ اس کا قصور اتنا تھا کہ بس وہ عمران خان کا دیوانہ تھا۔ اتنا دیوانہ کے صبح ہو یا شام، بس عمران خان کا ذکر کرتا تھا۔ کہتا تھا کہ خان کہے گا تو وہ جان بھی دینے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی جب بھی کارکنوں کے لیے کوئی کال آتی تو وہ زمان پارک پہنچنے والوں میں سب سے آگے ہوتا تھا۔ اس کو نہ کھانے کا ہوش ہوتا اور نہ ہی سونے کا۔‘
’ابرات دیر گئے کس کو کھانا دوں گی‘
علی بلال کے والد نے بتایا کہ ’جب بھی عمران خان کی کال آتی تو وہ شاید پہلا بندہ ہوتا جو سب سے پہلے نکلتا تھا۔‘
’آج کل تو وہ زیادہ وقت زمان پارک کیمپ میں ہی ہوتا تھا۔ رات کو دیر سے (گھر) آتا اور صبح جلدی چلا جاتا تھا۔ اس کی والدہ اس کے لیے رات کو دیر تک جاگتی رہتی تھیں اور صبح جلدی اٹھتیں تاکہ اپنے بیٹے کو رات کا کھانا اور صبح کا ناشتہ دے سکیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ ہمارا بیٹا بھولا بھالا ہے۔ اس لیے وہ میرا اور اپنی والدہ کا بھی لاڈلا تھا۔‘
عمران خان نے گذشتہ روز ایک پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ ’علی بلال ایک سپیشل بچہ تھا۔ وہ ایک دیوانہ تھا۔ جس بے دردی سے قتل کیا گیا، جھوٹ بولا گیا کہ پرانی ویڈیو میں اس کو اُٹھا کر لے جایا گیا۔ اس کا جرم کیا تھا؟‘
چیئرمین تحریک انصاف کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ ساری شام میرے گھر کے باہر بیٹھا رہتا تھا۔ سارے لوگ اسے پسند کرتے تھے۔ مجھے صبح کے پانچ بجے آوازیں آتی تھیں، عمران خان کو وہ آوازیں دے رہا ہوتا تھا۔‘
ادھر علی بلاول کے والد کہتے ہیں کہ ’ہمیں ہر وقت اس کی فکر ہوتی تھی۔ لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک میں تو 24 گھنٹے کیمپ لگتا تھا۔ یہ عموماً زیادہ وقت ادھر ہی گزارتا تھا۔ اس کو دیکھنے کے لیے اکثر میں بھی کیمپ چلا جاتا تھا۔‘
لیاقت علی کا کہنا تھا کہ جب سے بیٹے کی وفات کی خبر ملی ہے تب سے اس کی والدہ کی حالت غیر ہے۔ ’وہ کچھ نہ تو کہہ رہی ہیں اور نہ ہی بول رہی ہیں۔ بس یہ ہی کہتی ہیں کہ معصوم بھولے بھالے نے کسی کا کیا نقصان کیا ہو گا کہ اس پر اتنا بے رحمانہ تشدد بھی کیا گیا اور مار بھی ڈالا۔ اپنے بچوں سے کہتی ہیں کہ اب میں رات دیر تک کس کا انتظار کروں گی۔‘
علی بلال لاہور کے مقامی سیاسی کارکنوں، صحافیوں اور تحریک انصاف کے سپورٹرز میں کافی مقبول تھے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے متعدد پی ٹی آئی کارکنوں نے انھیں زمان پارک کے باہر سجنے والی ’محفلوں کی جان‘ قرار دیا۔
زمان پارک لاہور میں عمران خان اور تحریک انصاف کی سرگرمیوں کی رپورٹنگ کرنے والے لاہور کے تقریبا تمام ہی صحافی ظل شاہ کو اچھے سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ کچھ عرصے سے ان کی تقریباً روزانہ ہی ظل شاہ سے ملاقات ہوتی تھی۔
ایسے ہی ایک صحافی علی طارق کہتے ہیں کہ وہ علی بلال کو گذشتہ پانچ، چھ سال سے جانتے ہیں۔ ’یہ تحریک انصاف کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ ہر جلسے، جلوس، پرگرام میں سب سے آگے ہوتے تھے۔‘
صحافی واصف محمود کہتے ہیں کہ ’میں 12، 13 برسوں سے تحریک انصاف کی کوریج کر رہا ہوں اور گذشتہ دس سالوں سے علی بلال کو جانتا ہوں۔‘
سردی ہو یا گرمی ظل شاہ متحرک رہتے
علی طارق بتاتے ہیں کہ زمان پارک میں کیمپ وغیرہ تو ابھی لگے ہیں مگر علی بلال ’وزیر آباد والے واقعے، جس میں عمران خان زخمی ہو گئے تھے، کے بعد ہی سے روزانہ صبح سویرے وہاں پہنچ جاتے تھے۔ وہاں پر باہر کھڑے رہتے اور نعرے لگاتے تھے۔‘
واصف محمود کہتے ہیں کہ ’ایک روز سخت سردی کے موسم میں دیکھا کہ علی بلال پھٹے پرانے کپڑے اور ٹوٹی ہوئی چپل پہننے سخت سردی کے عالم میں پیدل ہی زمان پارک کی طرف چل رہے تھے۔
’ان کو دیکھ کر میرا دل بہت خفا ہوا اور کہا کہ ’شاہ جی آپ کیا صبح سویرے اس حالت میں سردی میں چل پڑے ہیں‘۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ ’میرا لیڈر عمران خان تکلیف میں ہے تو میں کیسے سکون سے رہ سکتا ہوں۔‘
واصف محمود کہتے ہیں کہ ’ریلی، جلسہ، جلوس جہاں پر بھی ہوتا علی بلال سب سے آگے اور پہلے ہوتے۔ ابھی حال ہی میں اسلام آباد عمران کی عدالت تاریخ پیشی کے موقع پر علی بلال لاہور سے بسوں اور گاڑیوں کے پیچھے لٹک کر اسلام آباد پہنچ گئے تھے۔ وہاں سے واپسی کے موقع پر کوئی ان کو اپنے گاڑی میں نہیں بیٹھا رہا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک ویگو گاڑی کی چھت پر پڑی ترپال میں گھس کر بیٹھ گئے تھے۔ ’شدید بارش ہو رہی تھی۔ ظل شاہ سب کی منتیں کرتے رہے مگر ان کو کوئی اپنی گاڑی میں نہیں بیٹھا رہا تھا۔ مگر وہ پھر بھی کسی نہ کسی طرح انتہائی مشکل حالات میں واپس لاہور پہنچ گے تھے۔‘
’ظل شاہ کا نام شان کی فلم سے لیا‘
واصف محمود کہتے ہیں علی بلال نے ظل شاہ کا نام شان اور صائمہ کی مشہور فلم ’ظلِ شاہ‘ سے متاثر ہو کر لیا تھا۔ ’علی بلال نے ظل شاہ فلم دیکھنے کے بعد خود کو ظل شاہ کے کریکٹر میں ڈھال لیا تھا۔‘
’اس کے بعد یہ زیادہ تر کالے کپڑے پہنتے تھے۔ شان نے جس طرح ظل شاہ میں اداکاری کی تھی ویسی ہی زندگی گزارنے کی کوشش کرتے تھے۔‘
علی طارق کا کہنا تھا کہ ظل شاہ اکثر ’سلطان راہی کی اداکاری بھی کرتے تھے جب یہ کیمپ میں ہوتے اور ویسے بھی کسی محفل میں موجود ہوتے تو یہ اس کی رونق ہوتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اس حد تک عمران خان کے دیوانے تھے کہ اکثر سلطان راہی کے ڈائیلاگ میں بھی محبت سے عمران خان کا ذکر کیا کرتے تھے۔ عمران خان کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔‘
بی بی سی کی نامہ نگار ترہب اصغر کے مطابق ’میں جب بھی زمان پارک جاتی تو ظل شاہ مجھے دیکھ کر کہتے کہ ’باجی کبھی میرا انٹرویو بھی لے لو۔ ہر دفعہ پوچھتے کہ میں کس چینل سے ہوں۔‘
ادھر علی طارق کہتے ہیں کہ ’زمان پارک کے باہر اکثر علی بلال کی کوشش ہوتی کہ ان کی کسی طرح عمران خان سے ملاقات ہو جائے اور اس چکر میں وہ لوگوں سے سفارشیں بھی کیا کرتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کی عمران خان کے ساتھ ملاقات تو نہ ہو پائی مگر ایک مرتبہ ان کی عمران خان کے بھانجے شیر خان سے ملاقات ہوئی۔ ’انھوں نے شیر خان سے بھی کہا کہ عمران خان سے میری ایک ملاقات تو کروا دو۔ جس پر شیر خان نے ان کے سر پر موجود ٹوپی اُتار کر اس پر عمران خان کے دستخط کروا کر انھیں یہ ٹوپی دے دی۔ ‘
عمران خان کے دستخط والی ٹوپی
پاکستان تحریک انصاف کی سابق ممبر صوبائی اسمبلی سعدیہ سہیل کہتی ہیں کہ ’ظل شاہ بہت ہی سادہ اور پیارے انسان تھے۔ وہ ہمیشہ تحریک انصاف کے پروگراموں میں سب سے آگے رہتے تھے۔ واقعے سے ایک رات پہلے کافی وقت ہم لوگوں نے ساتھ ہی میں گزارا تھا۔‘
سعدیہ سہیل کا کہنا تھا کہ ’ظل شاہ تحریک انصاف کے چھوٹے باغی تھے۔ یہ نام اس وقت دیا گیا تھا جب جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی، یہ میرے ہمراہ ہی کنٹینر پر موجود تھے۔‘
لیاقت علی کہتے ہیں کہ ’بیٹے کو بھول نہیں سکتا ہوں۔ اپنی ساری زندگی اپنے بیٹے کو یاد رکھوں گا اور اس کے لیے انصاف حاصل کرنے کی جدوجہد کرتا رہوں گا۔