اسامہ ستی قتل کیس 22 سالہ نوجوان کے قتل کے جرم میں دو سابق پولیس اہلکاروں کو سزائے موت، تین کو عمرقید
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے دو برس قبل سرینگر ہائی وے پر نوجوان اسامہ ستی کی ہلاکت کے مقدمے میں دو سابق پولیس اہلکاروں کو سزائے موت جبکہ تین کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔
اسلام آباد کی ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری نے پیر کو مقدمے کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ملزمان افتخار اور محمد مصطفی کو سزائے موت جبکہ سعید احمد، مدثر مختار اور شکیل احمد کو عمر قید کی سزا دینے کا حکم دیا ہے۔
خیال رہے کہ مقدمے کی سماعت کے دوران ہی ان پانچوں اہلکاروں کو نوکری سے برطرف کر دیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ عدالت نے 31 جنوری کو ٹرائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ جب فیصلہ سنایا گیا تو اس وقت تمام مجرمان کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ اسامہ ستی کو جو گولیاں لگیں وہ ان سرکاری پستولوں سے چلائی گئی تھیں جو مجرمان افتخار اور محمد مصطفی کے زیر استعمال تھے۔
عدالتی فیصلے کے بعد اسامہ ستی کے وکیل راجہ فیصل یونس نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آج عدالت نے اپنے فیصلے میں مثال قائم کر دی ہے۔ اسامہ کے والد نے بہادری سے کیس لڑا اور اللہ نے انھیں کامیابی دی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسامہ کو پولیس والوں نے 22 گولیاں ماری تھیں، اگر دو چار اور ایسے فیصلے ہوں تو پولیس کسی کو ایسے گولیاں نہ مارے۔‘
22 سالہ اسامہ ستی کو دو جنوری 2021 کو سرینگر ہائی وے پر رات ڈیڑھ بجے فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں انسداد دہشت گردی پولیس سکواڈ کے پانچ اہلکاروں کو نامزد کیا گیا تھا۔
اسامہ ستی کیس کا ٹرائل دو سال اور ایک ماہ جاری رہا۔
اس واقعے پر پولیس کا مؤقف تھا کہ ڈکیتی کی کال چلنے کے بعد مشکوک معلوم ہونے والی کالے شیشوں والی گاڑی کو اے ٹی ایس اہلکاروں نے روکنے کی کوشش کی اور گاڑی نہ روکنے پر فائرنگ کے نتیجے میں اسامہ ستی کی ہلاکت ہوئی تھی۔
پولیس کے مطابق فائرنگ کے واقعے کے وقت مقتول گاڑی میں اکیلا تھا اور تھانہ رمنا کی جانب سے فائرنگ کے واقعے میں ملوث پانچ اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
مقتول کے والد ندیم ستی کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں ان پانچ اہلکاروں کو نامزد کیا گیا تھا اور یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ’اسامہ نے گذشتہ روز ان سے ذکر کیا تھا کہ ان کی پولیس کے کچھ اہلکاروں سے تلخ کلامی ہوئی تھی جس پر انھوں نے یہ دھمکی دی تھی کہ ہم تمھیں مزہ چکھائیں گے۔‘
ایف آئی آر کے مطابق اسامہ کی گاڑی پر مختلف اطراف سے تقریباً 17 گولیاں چلائی گئیں جبکہ ملزمان پر دفعہ 302 اور دہشتگردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
اسامہ ستی کی مدعیت میں درج کروائی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ ’دو جنوری کی رات دو بجے کے قریب میرا بیٹا اپنے دوست کو ایچ الیون نزد نسٹ یونیورسٹی چھوڑنے گیا۔ واپسی پر مذکورہ بالا پولیس اہلکاروں نے اس کی گاڑی کا پیچھا کیا اور گاڑی کو ٹکر مارنے کے بعد فائرنگ کی جس سے میرا بیٹا موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔‘
اس واقعے کے بعد ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی گئی ایک ٹویٹ میں واقعے کی ابتدائی تفصیلات بتائی گئی تھیں۔ ان کے مطابق پولیس کو رات کو کال ملی کہ گاڑی میں سوار ڈاکو شمس کالونی کے علاقہ میں ڈکیتی کی کوشش کر رہے ہیں، اے ٹی ایس پولیس کے اہلکاروں نے جو علاقہ میں گشت پر تھے، مشکوک گاڑی کا تعاقب کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پولیس نے کالے شیشوں والی مشکوک گاڑی کوروکنے کی کوشش کی تو ڈرائیور نے گاڑی بھگا دی پولیس نے متعدد بار جی 10 تک گاڑی کا تعاقب کیا نہ رکنے پر گاڑی کے ٹائروں میں فائر کیے، بدقسمتی سے دو فائر گاڑی کے ڈرائیور کو لگ گئے جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔‘
جبکہ اس مقدمے کی سماعت کے دوران اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے ریمارکس دیے تھے کہ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس ملزمان سے ملی ہوئی ہے اور اپنے پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اسامہ ستی کی ہلاکت کے مقدمے کی سماعت کے لیے پاکستان کہ ایوان بالا یعنی سینیٹ کی انسانی حقوق سے متعلقہ قائمہ کمیٹی نے اس مقدمے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو کہا تھا کہ وہ متاثرہ خاندان کو تحقیقاتی عمل کا حصہ بنائیں۔
اسامہ ستی کے لواحقین نے قائمہ کمیٹی میں قتل کی تحقیقات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ گاڑی کے چاروں اطراف سے گولیاں چلائی گئیں جبکہ گاڑی کے اندر خون کے نشانات نہیں ہیں۔
اُنھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ گاڑی کو تھانے میں کھڑا کر کے گولیاں ماری گئیں جو اس مقدمے کو خراب کرنے کی ایک کوشش ہے۔ لواحقین نے قائمہ کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ اُنھیں نہ جے آئی ٹی میں بلایا گیا اور نہ ہی ابھی تک جوڈیشل انکوائری کے سامنے طلب کیا گیا۔
اسامہ ستی کون تھے؟
22 سالہ اسامہ ندیم ستی کی تعلق کوٹلی ستیاں سے تھا اور وہ ایف ایس سی کے طالبعلم تھے اور اسلام آباد میں ہی رہائش پذیر تھے۔ وہ اپنے تین بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔
اسامہ کے والد ندیم ستی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’اسامہ بہت اچھا اور پیارا بچہ تھا، میں اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ اگر ہمیں انصاف نہیں ملتا تو آج میرا بیٹا شہید کیا ہے کل کسی اور کا کریں گا، یہ کام رکے گا نہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں نے سنا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے اسے دھمکی دی تھی، اب دیکھیں یہ دھمکی والا ہی سلسلہ لگتا ہے، جب آپ ونڈ سکرین پر چھ فائر کریں گے تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ سامنے سے مارنے کا مطلب تو ٹارگٹ کلنگ ہی ہوتا ہے۔