لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی پشتون نہیں طالبان کلچر ہے جس کے خلاف پشتونوں نے لڑائی کی ہے
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے نیویارک میں منعقدہ اقوام متحدہ کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان نگران حکومت کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کرنا کوئی مذہبی حوالے سے نہیں بلکہ پشتون کلچر کی وجہ سے ہے، جس کے تحت خواتین کو گھروں میں بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ افغانستان کی ایک مخصوص طرح کی حقیقت ہے۔‘
ان کے اس بیان پر سوشل میڈیا پر تنقید کی جا رہی ہے اور لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ کیا اقوامِ متحدہ جیسے فورم پر ایک سفیر کا اس طرح کا بیان دینا مناسب ہے؟
جمعرات کو دفتر خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ سے یہ سوال کیا گیا کہ پاکستان کے اقوام متحدہ کے مستقل مندوب نے کہا کہ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ایک کلچرل معاملہ ہے تو کیا افغانستان میں لڑکیوں پر تعلیم سمیت دیگر شعبوں پر عائد کی جانے والی پابندیوں سے متعلق یہ پاکستان کا باضابطہ مؤقف ہے؟
اس کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ ہم نے اس بیان کی تفصیلات طلب کی ہیں تا کہ یہ پتا چل سکے کہ یہ بیان کس تناظر میں دیا گیا ہے۔
دفتر خارجہ کے مطابق جہاں تک ان کی پالیسی کا تعلق ہے تو پاکستان وہ ملک ہے جو خواتین کو برابری کے حقوق دیتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان عالمی سطح پر کیے جانے والے معاہدوں اور کنونشنز کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
’ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسلام تعلیم سمیت خواتین کو برابری کے حقوق دیتا ہے اور ہم نے لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت اور ان کا ہر شعبہ زندگی میں حصہ لینے سے متعلق واضح مؤقف اختیار کیا ہے۔ ہم نے یہ بھی کہا ہے کہ افغانستان کی باصلاحیت خواتین کو آگے بڑھنے کے حق اور اپنے خوابوں کی تکمیل سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔‘
’کیا طالبان پشتون ووٹ سے اقتدار میں آئے‘
سماجی کارکن اور آن لائن حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ’بولو بھی‘ کے شریک بانی اسامہ خلجی نے منیر اکرم کی تقریر کا یہ حصہ ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ پاکستان کے مندوب کی طرف سے بہت باعث شرم نمائندگی کی گئی ہے کیونکہ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی پشتون کلچر کا حصہ نہیں ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ طالبان کلچر ہے، جس کے خلاف پشتونوں نے کئی دہائیوں تک لڑائی کی ہے۔ ان کے مطابق یہ خوفناک نسلی تعصبانہ ریاستی پالیسی ہے۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے اسامہ خلجی نے بتایا کہ جب طالبان حکومت میں آئے تو لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کی گئی۔ ان کے مطابق جب سوات جیسے علاقوں میں بھی طالبان آئے تو یہاں بھی اس طرح کی پابندیاں عائد کی گئیں۔
ان کے مطابق یہ پشتون کلچر نہیں ہے بلکہ پاکستان کے مندوب کو اس بات کا جواب دینا چاہیے کہ طالبان کب بنے، کیسے بنے اور انھیں کس نے حمایت کی اور کس طرح پھر ان کی ایک خاص آئیڈیالوجی کو فروغ دیا گیا۔
اسامہ کے مطابق پشتون ایک عام آدمی کی طرح ہی پرسکون زندگی چاہتے ہیں۔
ان کے مطابق ’یہ سمجھ نہیں آتی کہ منیر اکرم ہمارے سفیر ہیں یا طالبان کے، وہ ایسی وضاحتیں کیوں دے رہے ہیں۔ کیا پشتونوں نے طالبان کو ووٹ دیے ہیں۔‘ جب ان میں سے کوئی بات بھی درست نہیں ہے تو پھر اسے پشتون کلچر کیسے کہا جا سکتا ہے۔
زنیرہ انعام خان نامی صارف نے لکھا کہ ان کا خاندان اور رشتے دار خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقے بنوں میں آباد ہے مگر وہ بھی پاکستان کے سفیر کے اس مؤقف سے اتفاق نہیں کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ ان کے رشتے داروں میں سے ہر کوئی پڑھا لکھا ہے اور کام بھی کر رہا ہے، اگر ضرورت ہو تو پردہ بھی کر لیتے ہیں۔
صحافی زیب النسا برکی نے منیر اکرم کے بیان پر رائے دی کہ ’پاکستان کے دفتر خارجہ کو وضاحت کرنی چاہیے کہ کیا یہ پاکستان کی سرکاری پوزیشن ہے کہ پشتون کلچر کا مطلب یہ ہے کہ خواتین گھر پر رہیں؟‘ انھوں نے بھی اسے نسل پرستانہ تعصب سے تشبیہ دی ہے۔
کچھ صارفین نے پاکستانی مندوب کی فوری برطرفی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
ملالہ یوسفزئی کے والد ضیاالدین یوسفزئی نے بھی اس پاکستان کے مندوب کے اس بیان کو بہت شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو پاکستان میں بسنے والے پانچ کروڑ پشتونوں کی صحیح نمائندگی نہ کرنے اور ان کی بے توقیری کرنے پر معافی مانگنی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ غازی امان اللہ خان نے سنہ 1921 میں اس وقت لڑکیوں کے سکول کھولے تھے جب آپ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔
ان کے مطابق 40 لاکھ لڑکیاں افغانستان کے سکولوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھیں۔ اسی طرح پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں درجنوں یونیورسٹیوں میں ہزاروں لڑکیاں پڑھ رہی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ آپ کا نقطہ نظر جانبدارانہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ حقیقت میں یہ آپ کی جانب سے مذہب کا ’مخصوص انداز میں‘ غلط استعمال ہے جس نے ہمیں تباہ کیا ہے۔