نیب آرڈیننس میں ترامیم کے بعد ادارے کا ’من و عن‘ عمل کرنے کا فیصلہ، ’واپس کیے گئے مقدمات متعلقہ عدالتوں کو بھیجے جائیں گے
پارلیمنٹ سے نیب آرڈیننس میں حالیہ ترامیم کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے کہا ہے کہ وہ نئے قانون پر ’من و عن‘ عمل کرے گا۔
اس حوالے سے بدھ کو چیئرمین نیب آفتاب سلطان کی زیر صدارت نیب کا اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں نیب کے اعلیٰ عہدیداران سمیت پراسیکیوٹر جنرل نیب نے بھی شرکت کی۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ نیب سے متعلق نئے قانون پر من و عن عمل درآمد کیا جائے گا۔
نیب کے مطابق کرپشن کے وہ مقدمات جن میں 50 کروڑ روپے سے زیادہ کی بدعنوانی ہو اور دھوکہ دہی کے وہ مقدمات جن میں متاثرین کی تعداد کم از کم 100 ہو، صرف وہی لیے جائیں گے۔
اجلاس میں طے پایا کہ احتساب عدالتوں سے واپس بھیجے گئے، نیب کیسز سیشن، انسدادِ بدعنوانی اور دیگر متعلقہ عدالتوں کو بھیجے جائیں گے۔
واضح رہے کہ ان ترامیم کے بعد احتساب عدالتوں نے وزیراعظم شہباز شریف، سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف سمیت دیگر ملزمان کے خلاف 50 سے زائد ریفرنس عدالتی دائرہ اختیار ختم ہونے پر نیب کو واپس کر دیے ہیں۔
جو مقدمات واپس کیے گیے ہیں ان میں وزیراعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف رمضان شوگر ملز ریفرنس، سابق وزیر اعظم اور موجودہ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کے چھ ریفرنس، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف یو ایس ایف فنڈ ریفرنس، سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور اعجاز ہارون کے خلاف کڈنی ہلز ریفرنس، سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سردار مہتاب عباسی کے خلاف نیب ریفرنس، اور پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد کے خلاف لوک ورثہ میں مبینہ خرد برد کے ریفرنسز کو واپس کیا گیا ہے۔
احتساب عدالتوں نے مضاربہ سکینڈل اور کمپنیز فراڈ کے وہ ریفرنس بھی نیب کو واپس کر دیے ہیں جن میں متاثرین اور شکایت کنندگان کی تعداد 100 سے کم تھی۔
نیب کا کیا کہنا ہے؟
قومی احتساب بیورو کے ترجمان ندیم خان کا کہنا ہے کہ احتساب عدالتوں سے یہ مقدمات نیب کو اس لیے واپس بھجوائے گئے کیونکہ ترامیم میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ نیب 50 کروڑ سے کم مالیت کی بدعنوانی کے مقدمات کی تحققیات نہیں کر سکتا۔
انھوں نے کہا کہ ’پارلیمنٹ سے نیب آرڈیننس میں ترامیم کے بعد ملک کی مختلف عدالتوں میں زیر التوا مقدمات نیب کو واپس بھجوائے جا رہے ہیں۔‘
نیب ترجمان نے اُن کیسوں کی تعداد کے بارے میں تو نہیں بتایا جو اب تک واپس کیے جا چکے ہیں تاہم اُن کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پراسیکوشن برانچ اپنا کام کر رہی ہے۔
’جرائم پیشہ افراد کے لیے کرپشن کے دروازے کھول دیے گئے‘
نیب کے سابق ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل ذوالفقار بھٹہ کا کہنا ہے کہ جس طریقے سے جلد بازی میں نیب آرڈیننس میں ترامیم کی گئی ہیں اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان ترامیم سے جرائم پیشہ افراد کے لیے کرپشن کے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ان ترامیم میں 50 کروڑ روپے کی رقم رکھی گئی ہے کہ اس رقم کی بدعنوانی کی تحقیقات نیب کے زمرے میں آئیں گی لیکن اس سے زیادہ رقم کی بدعنوانی کے مقدمات بہت کم ہوں گے۔
ذوالفقار بھٹہ کا کہنا تھا کہ ان ترامیم کے بعد نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں لوگوں کو پلاٹ دینے کے بہانے سے پیسے بٹورنے کے واقعات میں بھی اضافے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
نیب کے سابق ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل کا کہنا تھا کہ احتساب عدالتوں میں تعینات ججز بدعنوانی کے مقدمات کو نمٹانے کے لیے بڑے متحرک تھے لیکن ان ترامیم کے بعد یہ مقدمات کن عدالتوں میں جائیں گے اور وہاں پر ججز کس حد تک ان مقدمات کو نمٹانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس بارے میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔
ذوالفقار بھٹہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم سے متعلق از خود نوٹس لے رکھا ہے اور اس پر اب تک جتنی بھی سماعتیں ہو چکی ہیں اس میں عدالت نے نیب کی ان ترامیم پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
’اس لیے اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ سپریم کورٹ نیب آرڈیننس میں ہونے والی ترامیم پر نظرثانی کے لیے اس کو دوبارہ پارلیمنٹ کو بھجوا دے۔‘
’نیب آرڈیننس میں ترامیم سے ادارے کے تشخص کو ختم کر دیا گیا‘
نیب کے سابق ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل راجہ عامر عباس کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ یہ واضح کر چکی ہے کہ کسی مخصوص فرد کے لیے مخصوص قوانین نہیں بنائے جا سکتے۔
انھوں نے کہا کہ نیب آرڈیننس میں ترامیم کر کے اس ادارے کے تشخص کو ہی ختم کر دیا گیا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے دیگر ادارے، ایف آئی اے اور انسداد رشوت ستانی کے ادارے کے پاس تفتیش کرنے کی وہ صلاحیت نہیں جو نیب افسران کے پاس تھی۔
راجہ عامر عباس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے متعدد مقدمات کی سماعت کے دوران یہ آبزرویشن سامنے آئی کہ عدالت کسی ایسی قانون سازی کو ختم کر سکتی ہے جو کہ آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہو۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے نیب کی طرف سے سابق صدر پاکستان آصف علی ذرداری کی ارسس ٹریکٹر، اے آر وائی گولڈ، کوٹیکنا اور پولو گراؤنڈ ریفرنس میں بریت کے خلاف اپیلوں میں نیب کی جانب سے مہلت کی استدعا پر سماعت ملتوی کر دی ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ نیب حکام نے ان ریفرنسز کا ریکارڈ دیکھنا ہے اور پارلیمنٹ کی طرف سے نیب قانون میں ترامیم کے بعد اس کی روشنی میں ریفرنسز کا جائزہ بھی لینا ہے، جس کے لیے مہلت دی جائے۔