ارشد شریف کینیا میں پاکستانی صحافی

ارشد شریف کینیا میں پاکستانی صحافی

ارشد شریف کینیا میں پاکستانی صحافی کی گاڑی پر نو گولیاں لگیں

کینیا میں حکام کے مطابق پاکستانی صحافی ارشد شریف کی پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔

ارشد شریف اتوار کی شب کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے قریب فائرنگ کے ایک واقعے میں مارے گئے تھے اور پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق پولیس اہلکاروں نے شناخت میں غلط فہمی پر اس گاڑی پر گولیاں چلائیں جس میں ارشد شریف سوار تھے۔

یہ واضح نہیں کہ ارشد شریف کینیا میں کیا کر رہے تھے تاہم کینیا کی پولیس کے ترجمان برونو شیوسو نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ ارشد شریف کی موت کے پسِ منظر کے حالات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

کینیا کی پولیس کی جانب سے اس واقعے کی جو ابتدائی رپورٹ مگدائی پولیس سٹیشن میں جمع کروائی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف جس کار میں سفر کر رہے تھے پولیس نے اسے مسروقہ سمجھا اور جب وہ عارضی رکاوٹوں کے باوجود نہیں رکی تو اس پر فائرنگ کی گئی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پولیس حکام نے اس رپورٹ کے اصل ہونے کی تصدیق کی ہے جس کے مطابق ’فائرنگ اور ایک غیر ملکی شہری کی موت کی اطلاع سب سے پہلے 23 اکتوبر کو مقامی وقت کے مطابق رات 10 بجے موصول ہوئی تھی‘۔

رپورٹ کے مطابق ’پولیس کو ابتدائی طور پر معلوم ہوا کہ فائرنگ کے ایک واقعے میں کینیا کی پولیس سروس کے دستے جنرل سروس یونٹ (جی ایس یو) کے افسران ملوث تھے اور اس کے نتیجے میں لگ بھگ 50 سالہ پاکستانی شہری ارشد شریف فائرنگ سے ہلاک ہو گئے ہیں‘۔

فائرنگ کے واقعے کی اس پولیس رپورٹ کے مطابق ارشد شریف اس کار میں سفر کر رہے تھے جس کا رجسٹریشن نمبر کے ڈی جی 200 ایم تھا۔

پولیس کا مؤقف ہے کہ یہ واقعہ اس وقت ہوا جب ارشد اور ان کے ’بھائی‘ خرم احمد نیروبی کی طرف واپس آ رہے تھے۔ اسی دوران کینیا میں کریمینل انویسٹیگیشن ڈپارٹمنٹ (ڈی سی آئی) کے افسران نے ایک رپورٹ جاری کی کہ ڈگلس وینینا نامی ایک شہری کی کار (رجسٹریشن نمبر کے ڈی جی 700 ایف) چوری ہوئی ہے جس میں ان کا بیٹا بھی موجود تھا اور یہ کار کی چوری کے ساتھ ساتھ اغوا کا کیس ہے۔

پولیس کی وقوعہ رپورٹ کے مطابق ڈگلس وینینا نے اس واقعے کی رپورٹ نیروبی کے نواحی علاقے پنجگنی میں درج کرائی جس کے بعد اس کے افسران نے ان کے بیٹے کے پتا لگا لیا جو کسیرین نامی نواحی علاقے میں تھے۔

اسی دوران ‘خرم احمد اور ان کے بھائی ایک کچی سڑک پر سفر کے بعد کسیرین مگدائی روڈ پر پہنچے۔ انھوں نے دیکھا کہ سڑک چھوٹے پتھروں کی مدد سے بند کی گئی ہے اور انھوں نے اسے عبور کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت انھوں نے کار کے سامنے اور پیچھے سے گولیوں کی آوازیں سنیں۔ وہ رُکے نہیں اور اپنا سفر جاری رکھا۔’

پولیس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خرم نے دیکھا کہ ان کے بھائی ارشد شریف کو ‘سر پر گولی لگی ہے۔ یہ گولی پیچھے سے لگی اور سر کے سامنے سے باہر نکلی۔’

کار کا جائزہ لینے پر پولیس کو معلوم ہوا کہ ‘ونڈ سکرین کی بائیں جانب ایک گولی کا سوراخ ہے، دو گولیوں کے سوراخ پیچھے بائیں جانب کی نشستوں پر ہیں، ایک گولی کا سوراخ پیچھے دائیں دروازے پر ہے، چار سوراخ ڈگی کی دائیں جانب اور ایک سامنے کے دائیں ٹائر پر ہے جس کی ہوا نکل گئی ہے۔’

پولیس کی وقوعہ رپورٹ میں درج ہے کہ ‘ان پاکستانی شہریوں کا دعویٰ تھا کہ وہ (ریئل اسٹیٹ) ڈیویلپرز ہیں اور نیروبی میں رہائش پذیر ہیں۔’

پولیس رپورٹ کے مطابق اس واقعے کے بعد ‘جائے وقوعہ کی جانچ کے بعد لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے سرد خانے لے جایا گیا تھا۔’

ارشد شریف

پولیس کے نگراں ادارے انڈیپنڈنٹ پولیس اوورسائٹ اتھارٹی کی چیئرپرسن اینا میکوری نے پیر کو ایک بیان میں کہا ہے کہ پولیس کے ہاتھوں اس ہلاکت کے حوالے سے ریپڈ رسپانس ٹیم کی تحقیقات جاری ہیں۔

اینا میکوری نے کہا ہے کہ ’گذشتہ شب کاجیادو کاؤنٹی میں مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ میں پاکستانی شہری ارشد شریف کی ہلاکت کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ ہماری ریپڈ رسپانس ٹیم بھیج دی گئی ہے۔’

’جی ایس یو کے افسران پر تشدد کے الزامات نئی بات نہیں‘

اس ابتدائی پولیس رپورٹ میں بیان کیے جانے والے واقعات پر کینیا کے مقامی صحافیوں کی جانب سے شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

کینیا کے میڈیا گروپ دی سٹار کے چیف کرائم رپورٹر سائرس اومباتی نے صحافی زبیر خان کو بتایا کہ ’واقعہ کے بعد میں نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا ہے مگر مجھے پولیس نے جائے وقوعہ پر جانے کی اجازت نہیں دی۔ پولیس نے وہ علاقہ اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے اور وہاں پر رکاوٹیں کھڑی ہیں‘۔

ان کا کہنا ہے کہ اس فائرنگ میں ڈرائیور کو خراش تک نہیں آئی اور پولیس نے بتایا ہے کہ ڈرائیور محفوظ ہیں۔ اسی طرح اگر گاڑی کو روکنا تھا تو گاڑی کے ٹائروں پر فائرنگ کی جا سکتی تھی۔ براہ ارشد شریف پر فائرنگ کی وجہ سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔

نیروبی میں بی بی سی کی نامہ نگار بیورلی اوچینگ کا کہنا ہے کہ کینیا میں پولیس کی جانب سے ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے حوالے سے سماجی کارکنان تشویش ظاہر کرتے ہیں۔ ‘ماضی کے کئی واقعات میں پولیس پر ماورائے عدالت اقدامات ثابت ہو چکے ہیں اور پولیس کے نظام میں کئی بار اصلاحات کی کوششیں کی گئی ہیں۔’

‘اسی تناظر میں پولیس اوورسائٹ اتھارٹی کا قیام ہوا جو پولیس کی مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کرتی ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ پولیس کو سزاؤں سے استثنیٰ حاصل ہے اور وہ عموماً صحافیوں، وکلا اور سماجی کارکنان کو نشانہ بناتے ہیں جو شہرت یافتہ ہوں۔’

بیورلی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ پولیس میں نیم فوجی ڈپارٹمنٹ جی ایس یو کے افسران اعلیٰ تربیت یافتہ ہیں اور ان پر ماضی میں تشدد کے الزامات لگ چکے ہیں۔ ‘انھیں اکثر پولیس کے ساتھ تعینات کیا جاتا ہے اور یہ شہریوں پر تشدد کی وجہ سے بدنام ہیں۔۔۔ اس کیس میں بھی یہی تحقیقات جاری ہیں کہ آیا وہ ارشد شریف کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔ تاہم یہ کوئی بڑی بات نہیں کہ اس کیس میں انھی کا نام سامنے آیا ہے۔’

انھوں نے کہا ارشد کے کیس میں ایسے سوالات سامنے آئے ہیں کہ اگر گاڑی کی چوری کا معاملہ تھا تو اس پر اچانک فائرنگ کیوں کی گئی، اتنی گولیاں کیوں استعمال کی گئیں اور شناخت کا طریقہ کار کیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ جس علاقے میں یہ واقعہ ہوا یہ تنزانیہ کی سرحد کے قریب ہے اور یہ ٹریفک کے اعتبار سے مصروف علاقوں میں سے ہے۔

دی سٹار کینیا سے تعلق رکھنے والے ایلیوڈ کیبی کہتے ہیں کہ پولیس نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ گاڑی ارشد شریف کے بھائی خرم احمد چلا رہے تھے اور ہمیں بعد میں پتا چلا کہ ارشد شریف کے کوئی سگے بھائی نہیں ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ کزن یا دوست یا تعلق دار ہوں۔

ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ

ارشد شریف کی ہلاکت کی خبر سامنے آنے کے بعد پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر جہاں اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے وہیں اس کی غیرجابندارانہ اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے ارشد شریف کی ہلاکت پر عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ارشد شریف نے ’سچ بولنے کی حتمی قیمت اپنی جان سے ادا کی‘۔

مظاہرہ

عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ اس ’بہیمانہ قتل‘ پر بےحد صدمے میں ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ارشد شریف کو ’ملک چھوڑنا پڑا مگر بیرونِ ملک پناہ کے دوران بھی انھوں نے سوشل میڈیا پر سچ بولنے اور طاقتور لوگوں کو بےنقاب کرنے کا سلسلہ جاری رکھا‘۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت کو اس معاملے کی فوری اور شفاف تحقیقات کرانی ہوگی۔

صحافی مظہر عباس نے عالمی صحافتی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے سینیئر اینکر پرسن اور صحافی کے ’قتل‘ کی تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ مشن قائم کیا جائے۔ ’(ماضی میں) کئی صحافیوں کے قتل کی طرح یہ کیس نظرانداز نہیں ہونا چاہیے۔‘

اینکر نسیم زہرہ نے سوال کیا کہ ‘یہ خون کا کھیل کب تک جاری رہے گا؟’

عمار راشد ٹوئٹر پر لکھتے ہیں کہ ’کینیا میں ارشد شریف کے قتل کی خبر خوفناک ہے۔ پاکستانی صحافیوں اور ناقدین کے خلاف ملک کے اندر اور باہر حملوں کی حالیہ تاریخ دیکھتے ہوئے اس پر شکوک و شبہات جائز ہیں۔ کینیا کے حکام پر فوراً یہ دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ تحقیقات کریں۔‘

اسامہ خلجی کا کہنا تھا کہ ارشد شریف نے پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کی جس کے بعد انھیں دھمکیوں کا سامنا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ان کے قتل کی انٹرنیشنل انکوائری ہونی چاہیے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *