یہ ورلڈ کپ کی ڈریس ریہرسل ہو سکتی ہے سمیع چوہدری کا کالم
مقابلہ تو اپنے تئیں پی سی بی کے دلِ ناتواں نے خوب کیا مگر سیاسی و جغرافیائی محاذ آرائیوں کے طفیل پاکستان صرف جزوی میزبانی ہی کما پایا اور ایشیا کپ کی حقیقی لڑائی اب سری لنکا کے میدانوں کا مقدر ہو گی جہاں رنز کی کمی رہا کرتی ہے اور سپن کی بہتات۔
پاکستان تو اپنے میزبانی حقوق مکمل طور پہ نہ بچا پایا مگر ایشیا کپ کو بالآخر اپنا کھویا ہوا فارمیٹ واپس مل ہی گیا اور دو متواتر ٹی ٹونٹی ایڈیشنز کے بعد حالیہ ایونٹ ون ڈے فارمیٹ میں کھیلا جائے گا۔
بہرحال ہمہ قسمی دو طرفہ کرکٹ اور کثیرالقومی ٹورنامنٹس کا مقصود آئی سی سی ایونٹس کی تیاری ہی ہوتا ہے اور رواں سائیکل کا ایونٹ ون ڈے فارمیٹ میں کھیلے جانے کی وجہ بھی اکتوبر میں طے شدہ آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ کی تیاری ہی ہے۔
اب کی بار ایشین بلاک کی یہ بھی خوش بختی رہے گی کہ مہینہ بھر بعد منعقد ہونے والا آئی سی سی ورلڈ کپ بھی لگ بھگ انہی کنڈیشنز میں کھیلا جائے گا جو ایشیا کپ میں ان ٹیموں کو میسر ہوں گی۔ یوں یہ ایونٹ ورلڈ کپ کے لیے گویا ڈریس ریہرسل کا کام دے گا۔
اپنے ٹیسٹ ریکارڈ کے برعکس ون ڈے فارمیٹ میں پاکستانی پچز کی حالیہ کارکردگی بہت خوش کُن رہی ہے۔
پاکستان کی میزبانی میں طے شدہ مقابلوں میں ہمیں خاصی دلچسپ کرکٹ دیکھنے کو مل سکتی ہے جہاں بڑے مجموعے بعید از قیاس نہ ہوں گے۔
مگر سپن کی طرف داری میں جو شہرت سری لنکن وینیوز نے کما رکھی ہے، وہاں سری لنکن کرکٹ بورڈ کے لیے بھی کار دشوار ہو گا کہ ماڈرن ون ڈے کرکٹ کے لیے متناسب پچز تخلیق کر پائیں۔ حالیہ پاک افغان ون ڈے سیریز میں ہیمبنٹوٹا کے پہلے میچ کی پچ تو گویا بنگلہ دیشی پچز کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی کوئی کاوش تھی۔
یہاں ذمہ داری پی سی بی کے شریک میزبان سری لنکا کرکٹ کی ہو گی کہ وہ ایشیا کپ کو اس پچ کی ڈگر پر نہ جانے دیں کیونکہ بہرحال پاکستان ہی کی طرح ورلڈ کپ میزبان انڈین وینیوز میں بھی سپن کی ویسی بہتات نہ ہو گی جو سری لنکن پچز کا خاصہ رہی ہے۔ سو، اگر یہاں ورلڈ کپ کی تیاری ہی مقصود ہے تو پچز کا بھی عین وہی رجحان درکار ہو گا جو انڈین وکٹوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
چالیس برس کے اس سفر میں ایشیا کپ نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں اور سہ فریقی ٹورنامنٹ کے طور پر جنم لینے والا یہ ایونٹ اب فراخ دامن ہو کر چھ ٹیموں تک پہنچ چکا ہے۔ ایشین کرکٹ کونسل کو مالی منفعت پہنچانے کے علاوہ یہ امر خطے میں کرکٹ کے فروغ کے حوالے سے بھی مثبت قدم رہا ہے اور نیپال بھی پہلی بار کسی ایلیٹ لیول کے کثیرالقومی ٹورنامنٹ کا حصہ بن پایا ہے۔
یہ بھی عجب حقیقت ہے کہ اتنی طویل تاریخ رکھنے والے اس ٹورنامنٹ میں آج تک کبھی کوئی پاکستان، انڈیا فائنل نہیں ہوا۔ سو مارکیٹنگ کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس بار بھی فارمیٹ یوں رکھا گیا ہے کہ پاکستان، انڈیا دوطرفہ کرکٹ کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہو سکیں۔
مگر رواں برسوں میں جو رقابت پاکستان انڈیا کرکٹ سے بھی زیادہ نمایاں ہوتی نظر آئی ہے، وہ پاکستان افغانستان رقابت ہے جو اگرچہ حالیہ ون ڈے سیریز میں ویسی شدت پکڑ نہ پائی مگر سیریز کے اہم ترین لمحات میں ایک بار پھر اپنی جھلک دکھلا گئی۔
سو ہرگز بعید نہیں کہ یہاں بھی پریشر میچز میں شاداب خان کے مینکڈ رن آؤٹ کی طرح نان سٹرائیکر اینڈ پر غیر معمولی سرگرمی دیکھنے کو ملے۔
ان دو مخاصمتوں سے سوا ایک تیسری رقابت بھی ہے جو ایشین بلاک میں ابھی نئی نئی پنپ رہی ہے مگر ماضی قریب میں اس کے جو بھی نظارے ہوئے، وہ ہاتھا پائی اور ڈریسنگ روم کے شیشے توڑے جانے جیسی مثالوں سے مزین تھے۔
اس ایونٹ میں بھی اگر بنگلہ دیشی ٹیم شکیب الحسن کی قیادت میں خود کو مجتمع کر پائی تو ’روایتی‘ حریف سری لنکا کے خلاف ناگن ڈانس کی بھی نشاطِ ثانیہ ہو سکتی ہے۔
اگرچہ ایشین کنڈیشنز میں سپنرز کا کردار اہم تر ہو رہتا ہے مگر حالیہ سیریز میں پاکستانی پیسرز نے کنڈیشنز سے بالاتر ہو کر اپنی مسابقت کا ثبوت دیا۔ طویل ون ڈے ایونٹس میں بہرحال بولنگ لائن پر ذمہ داری کا بوجھ زیادہ ہوا کرتا ہے اور بلاشبہ پاکستانی پیس اٹیک اس ایونٹ کا بہترین پیس اٹیک ہے۔
اگر یہ پیس اٹیک اس ٹرافی تک پہنچنا چاہتا ہے تو اس کا حتمی امتحان انڈین بیٹنگ لائن ہو گی جو بلاشبہ اس ایونٹ کا بہترین بیٹنگ یونٹ ہے اور چھ بار کا چیمپیئن ہونے کے ساتھ ساتھ ون ڈے فارمیٹ میں ابھی بھی ایشیا کا چیمپیئن ہی ہے۔
مگر انڈیا کے لیے قابلِ فکر ان کا وہ بولنگ یونٹ ہو گا جو اگرچہ جسپریت بمراہ کی واپسی سے مستحکم ہوا مگر بہرحال ویسی ایکسپریس پیس سے عنقا ہے جو فی الوقت پاکستان کو میسر ہے۔