یوکرین روس جنگ کیا روس کا اگلا ہدف ’بحیرہ اسود کا ہیرا‘ کہلائے جانے والا شہر اوڈیسا ہوگا؟
یوکرین کے جنوب مغرب میں واقع شہر اوڈیسا جسے ‘بحیرہ اسود کا ہیرا’ بھی کہا جاتا ہے، اب روسی فوج کی جانب سے متوقع حملے کے لیے تیاری کر رہا ہے۔ اندیشہ ہے کہ یوکرین کا تیسرا سب سے بڑا شہر اب روسی افواج کا اگلا ہدف ہوگا۔
روسی بحریہ نے اوڈیسا کے مضافات میں شیلنگ شروع کر دی ہے جو کہ ان کوششوں کا حصہ ہے کہ یوکرین کو بحیرہ اسود سے الگ کر دیا جائے۔
یوکرینی صدر ولودیمر زیلنسکی نے کہا ہے کہ دشمن فوج نے خطے میں ‘ساحل پر بمباری’ کر دی ہے۔ اوڈیسا کے مئیر گیناڈی ترخانوو نے تنبیہ کی ہے کہ روسی فوج شہر کو تین جانب سے گھیر سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پڑوسی ملک مالڈووا کے خطے ٹرانسزٹریا جو کہ روسی نواز علیحدگی پسند افراد کے زیر انتظام ہے، وہاں موجود روسی فوج اوڈیسا کی جانب بڑھ سکتی ہے اور اس کی مدد سے شہر کا یوکرین کے باقی حصوں سے رابطہ منقطع کر سکتی ہے۔
یوکرین کے جنوب مغربی حصے میں واقع ٹرانسزٹریا کا علاقہ بین الاقوامی طور پر مالڈووا کا حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن وہاں کا نظام ماسکو کی حمایت یافتہ یکومت کے پاس ہے۔
مئیر گیناڈی ترخانوو کے مطابق سمندر کے راستے بھی اوڈیسا پر حملہ کیا جا سکتا ہے۔
اوڈیسا اتنا اہم کیوں ہے؟
یوکرین کے تیسرے سب سے بڑے شہر اور اہم بندرگاہ ہونے کی حیثیت سے اوڈیسا ملکی معیشت کے لیے انتہائی اہم شہر ہے۔
یوکرین کے سابق اسسٹنٹ وزیر دفاع آندرئے رئژنکو نے بی بی سی کو بتایا کہ اوڈیسا یوکرین کا ‘میری ٹائم دارالحکومت’ ہے اور یوکرین کے کل جی ڈی پی کے 20 فیصد کا ذمہ دار ہے۔‘
جنگ سے قبل یوکرین کی اہم ترین برآمدات جیسے اناج، غلہ، معدنیات وغیرہ سب اوڈیسا اور اس کے قریب واقع چھوٹی بندرگاہوں سے گزر کر جاتا ہے۔
سکیورٹی تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹٹیوٹ سے منسلک ڈاکٹر سدارتھ کوشل کہتے ہیں کہ یوکرین کی 70 فیصد بحری تجارت اوڈیسا پر انحصار کرتی ہے۔
اس کے علاوہ اوڈیسا ایک اہم تاریخی اور سیاحتی مقام بھی ہے اور وہاں اکثر روسی سیاح پائے جاتے ہیں۔
یوکرینی صدر نے اپنے ایک حالیہ خطاب میں کہا بھی کہ ‘روسی شہری ہر وقت اوڈیسا آ رہے ہوتے ہیں اور ان کا وہاں گرمجوشی سے خیر مقدم کیا جاتا ہے لیکن اب کیا ہو رہا ہے؟ اوڈیسا پر حملہ اور بمباری۔ یہ ایک جنگی جرم ہے۔‘
اوڈیسا روس کے لیے اہم کیوں ہے؟
یوکرین کی بحریہ کا سب سے اہم اڈہ اوڈیسا میں قائم ہے جو کہ اس سے پہلے کریمیا میں ہوا کرتا تھا تاہم 2014 میں روس کی جانب سے کریمیا پر قبضے کے بعد وہ بحری اڈہ اوڈیسا منتقل کر دیا گیا۔
ممکنہ طور پر اوڈیسا کی بندرگاہ روسی صدر ولادیمر پوتن کے لیے اہم ہدف ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر سدارتھ کوشل سمجھتے ہیں کہ اگر روس یوکرین کی معیشت اور ان کی بحری تجارت پر قابو پا لے تو وہ یوکرین پر مزید دباؤ بڑھا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ماضی میں روسی سلطنت کا حصہ ہونے کے ناطے اوڈیسا کا روسی تاریخ اور ثقافت میں بھی بڑا اہم کردار رہا ہے۔
اس شہر کو 1794 میں روس کی آخری ملکہ، کیتھرین دا گریٹ نے قائم کیا تھا اور اس شہر کی اکثریتی آبادی روسی زبان بولتی ہے اور طویل عرصے سے صدر پوتن کی اس شہر پر نظریں ہیں۔
گذشتہ ماہ جنگ شروع ہونے سے چند روز قبل 21 فروری کو اپنے ایک خطاب میں صدر پوتن نے اوڈیسا کا خاص طور پر نام لے کر کہا کہ وہاں 2014 میں ‘بہت افسوسناک واقعہ’ پیش آیا تھا۔
وہ ان 48 روسی نواز احتجاج کرنے والوں کے بارے میں ذکر کر رہے تھے جو یوکرین کے قوم پسند افراد سے جھڑپ میں ہلاک ہو گئے تھے۔
’ایک ناقبل تسخیر قلعہ‘
خبر رساں ادارے اے ایف کے مطابق دس لاکھ کے قریب آبادی والے شہر کے ایک لاکھ سے زیادہ باسی یہاں سے جا سکے ہیں جن میں سے زیادہ تر بچے اور خواتین مغرب کی جانب رواں ہیں۔ .
پیچھے رہ جانے والوں میں سے زیادہ تر مرد اور نوجوان ہیں جو شہر کا تحفظ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
مئیر گیناڈی ترخانوو کہتے ہیں کہ اوڈیسا میں موجود افراد اپنے شہر کے تحفظ کے لیے بھرپور محنت کر رہے ہیں اور اس کو ایک ‘ناقابل تسخیر قلعہ بنا دیا ہے’
شہر میں موجود افراد اوڈیسا کے ساحل سے مٹی کو بوریوں میں بھر رہے ہیں تاکہ تعینات فوج کی مدد کر سکیں۔ اندازہ ہے کہ روزانہ تقریباً سات سو ٹن مٹی بوریوں میں جمع کی جا رہی ہے۔
مئیر گیناڈی ترخانوو نے کہا کہ تین محاذ پر دفاع کرنا آسان نہیں ہوگا لیکن وہ اپنے شہر کا تحفظ کرنے کے لیے بھرپور تیاری کر رہے ہیں۔
‘اوڈیسا ہماری آزادی کی نشانی ہے، یہ شہر تمام دنیا میں پسند کیا جاتا ہے، اور ہمارے شہر کے لوگ پر امن ہیں۔’