یوکرین روس تنازع روسی فوج نے یوکرین حملے میں کون سی غلطیاں کیں؟
روس کی فوج دنیا کی بڑی اور طاقتور مسلح فوج میں سے ایک ہے لیکن یہ یوکرین پر اس کے ابتدائی حملے میں ثابت نہیں ہوا۔ بہت سے مغربی عسکری تجزیہ کار میدان جنگ میں اس کی اب تک کی کارکردگی پر حیران ہیں، جن میں سے ایک نے اسے ‘مایوس کن’ قرار دیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اس کی فوجی پیش قدمی بڑی حد تک رک گئی ہے اور کچھ ماہرین اب سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا وہ اس نقصان کا ازالہ کر سکتا ہے جو اسے اس جنگ کے نتیجے میں اٹھانا پڑا ہے۔
رواں ہفتے، نیٹو کے ایک سینئر فوجی اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘روسی فوج واضح طور پر اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکی اور شاید وہ مقاصد حاصل ہو بھی نہ سکیں۔’
تو روسی فوج نے کہاں غلطیاں کیں؟ اس سلسلے میں، میں نے سینئر مغربی فوجی افسران اور انٹیلی جنس حکام سے روس کی غلطیوں کے بارے میں بات کی۔
غلط معلومات کی بنیاد پر مفروضے
روس کی پہلی غلطی اپنے سے چھوٹی یوکرین کی فوج کی مزاحمت کی قوت اور صلاحیت کو کم سمجھنا تھی۔ روس کا سالانہ دفاعی بجٹ 60 بلین ڈالر سے زیادہ ہے، جبکہ یوکرین صرف چار بلین ڈالر دفاعی اخراجات کرتا ہے۔
روس اور بہت سے دوسرے ممالک نے بظاہر روس کی فوجی طاقت کا غلط اندازہ لگایا ہے۔ صدر پیوٹن نے اپنی فوج کی عسکری قوت بڑھانے کے لیے جدید ایک پروگرام کا آغاز کیا تھا اور شاید وہ بھی اس پر یقین کر گئے۔
ایک سینئر برطانوی فوجی اہلکار کا کہنا ہے کہ روس کی زیادہ تر سرمایہ کاری اس کے وسیع جوہری ہتھیاروں اور تجربات پر خرچ کی گئی ہے، جس میں نئے ہتھیاروں جیسے ہائپرسونک میزائلوں کی تیاری بھی شامل ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ روس نے دنیا کا جدید ترین ٹینک ٹی-14 آرماٹا بنایا ہے۔ لیکن اسے اب تک صرف ماسکو کے ریڈ سکوائر پر وکٹری ڈے پریڈ میں دیکھا گیا ہے جبکہ یہ یوکرین کے خلاف میدان جنگ میں غائب ہے۔ اب تک روس نے یوکرین کے خلاف میدان جنگ میں زیادہ تر پرانے ٹینک ٹی-72، بکتر بند گاڑیوں، توپوں اور لاکٹ لانچروں کا استعمال کیا ہے۔
روس یوکرین تنازع: اس جنگ کے آپ کی زندگی پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟ ہمیں اپنے سوال بھیجیں
یوکرین پر حملے کے آغاز میں روس کو یوکرین پر واضح فضائی برتری حاصل تھی کیونکہ روسی فضائیہ کو یوکرین کے مقابلے میں تین ایک کی برتری ہے۔ زیادہ تر فوجی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ روس یوکرین پر جلد ہی فضائی برتری حاصل کر لے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یوکرین کا فضائی دفاع اب بھی مؤثر ثابت ہو رہا ہے، جس سے روس کے فضائی حملوں کی صلاحیت محدود ہو رہی ہے۔
ماسکو نے یہ بھی فرض کر لیا ہو گا کہ اس کی فوج کے سپیشل فورسز کے دستے جنگ میں ایک اہم کردار ادا کریں گے، جس سے یوکرین کو فوری اور فیصلہ کن ضرب لگانے میں مدد ملے گی۔
ایک سنیئر مغربی انٹیلی جنس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ روس کا خیال تھا کہ وہ سپیتناز جیسے چھوٹے دستوں اور وی ڈی وی جیسے اعلیٰ تربیت یافتہ پیرا ٹروپرز کو تعینات کر سکتا ہے تاکہ ‘تھوڑے سے محافظوں کو ختم کیا جا سکے اور ایسا ہی ہوا۔’
مگر روس کے یوکرین پر حملے کے ابتدائی چند دنوں میں دارالحکومت کیئو کے باہر ہوسٹومل ایئرپورٹ پر روسی ہیلی کاپٹروں کے حملے کو ناکام بنا دیا گیا، جس نے روس کو اس فضائی راستے سے مزید فوج اور ساز و سامان لانا ناممکن بنا دیا۔
اس کے برعکس روس کو اپنے زیادہ تر ساز و سامان کی ترسیل بذریعہ سڑک کرنا پڑی۔ اس کے باعث روسی قافلوں کو ٹریفک جام اور مرکزی شاہراؤں پر رش میں پھنسنا پڑا جنھیں یوکرین فوج لڑائی میں با آسانی نشانہ بناتی ہے۔ اس دوران کچھ بھاری ہتھیار اور توپ خانہ صرف کیچڑ میں پھنسنے کی وجہ سے میدان جنگ سے باہر ہو گیا ہے اور اس نے روسی فوج کی ایک ایسی تصویر کشی کی ہے جو ‘پھنس کر رہ گئی’ ہے۔
دریں اثنا روسی کا طویل فوجی قافلہ جو شمال کی جانب سے کیئو کی جانب بڑھ رہا تھا، سٹیلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر کے مطابق اب تک کیئو کا محاصرہ کرنے یا اسے چاروں طرف سے گھیرنے میں ناکام رہا ہے۔
روسی افواج کی سب سے زیادہ پیش قدمی جنوب سے ہوئی ہے، جہاں وہ اپنی افواج کو دوبارہ سازو سامان سپلائی کرنے کے لیے ریل لائنوں کو استعمال کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
برطانیہ کے وزیرِ دفاع، بین والیس نے بی بی سی کو بتایا کہ صدر پوتن کی افواج ‘جذبہ کھو چکی ہیں اور وہ اب یوکرین میں پھنس چکی ہیں اور آہستہ آہستہ مگر یقینی طور پر بھاری جانی نقصان اٹھا رہی ہیں۔’
نقصانات اور لڑائی کا کم جذبہ
روس نے اس حملے کے لیے تقریباً 190,000 فوجی جمع کیے تھے اور ان میں سے بیشتر پہلے ہی جنگ کے لیے تیار تھے۔ مگر وہ پہلے ہی اس تعداد کا تقریباً دس فیصد جنگ میں کھو چکے ہیں۔
تاہم روسی یا یوکرینی افواج کے نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے کوئی قابل اعتماد اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔
یوکرین کا دعویٰ ہے کہ اس نے 14,000 روسی فوجیوں کو اس جنگ میں ہلاک کیا ہے، جبکہ امریکہ کا اندازہ ہے کہ یہ تعداد اس کے مقابلے میں نصف ہے۔ مغربی حکام کا کہنا ہے کہ روسی جنگجوؤں کے حوصلے پست ہونے کے شواہد بھی موجود ہیں، جن میں سے ایک کا کہنا ہے کہ ‘ان کے حوصلے انتہائی پست’ ہیں۔
ایک اور اہلکار کا کہنا ہے کہ روسی فوجی’ سردی، بھوک اور تھکاوٹ’ کا شکار ہیں کیونکہ وہ یوکرین پر حملے کی اجازت ملنے سے قبل ہی بیلاروس اور روس میں ہفتوں سے برف میں انتظار کر رہے تھے۔ روس پہلے ہی اپنے نقصانات کی تلافی کے لیے مزید فوجیوں کو بلانے پر مجبور ہوا ہے، جس میں ملک کے مشرق حصے اور آرمینیا تک بہت دور سے ریزرو دستوں کو بلانا بھی شامل ہے۔
مغربی حکام کا خیال ہے کہ اس بات کا ‘قوی امکان’ ہے کہ روس کے شام میں موجود فوجی جلد ہی اس کے خفیہ ویگنر گروپ کے کرائے کے فوجیوں کے ساتھ لڑائی میں شامل ہوں گے۔ نیٹو کے ایک سینئر فوجی اہلکار نے کہا کہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ‘روس مشکل عسکری صورتحال سے گزر رہا ہے’
سازو سامان اور اسلحے کی ترسیل
روس کو بنیادی جنگی ضرورتوں میں مشکل کا سامنا ہے اور وہ اس کے لیے نبرد آزمائی کر رہا ہے۔ ایک پرانی فوجی کہاوت ہے کہ اناڑی حربے استعمال کرنے پر بات کرتے ہیں جبکہ پیشہ ور لاجسٹکس اور حکمت عملی کا مطالعہ کرتے ہیں۔
اس بات کے واضح شواہد موجود ہے کہ روس نے یوکرین پر حملہ کرنے سے قبل جنگی حکمت عملی پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ روس کے بکتر بند قافلوں کو فیول، کھانے پینے کی اشیا اور گولہ بارود کی کمی کا سامنا ہے۔ فوجی گاڑیاں خراب ہو گئی ہیں اور انھیں راستے میں ہی چھوڑ دیا گیا ہے جنھیں یوکرینی ٹریکٹروں کے مدد سے ہٹایا گیا ہے۔
مغربی حکام کا یہ بھی خیال ہے کہ روس کو گولہ بارود اور ہتھیاروں کی کمی کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ اس نے پہلے ہی 850 اور 900 کے درمیان طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں اور ہتھیاروں کا استعمال کر لیا ہے۔ امریکی حکام نے خبردار کیا ہے کہ روس نے چین سے ہتھیاروں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے رابطہ کیا ہے۔
اس کے برعکس یوکرین کو مغربی ممالک سے گولہ بارود اور ہتھیاروں کی سپلائی حاصل ہے، جو اس کی فوج کے حوصلے بلند رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ نے حال ہی میں یوکرین کو دفاعی مدد فراہم کرنے کے لیے اضافی 800 ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ ٹینک شکن اور طیارہ شکن ہتھیاروں کی فراہم کا وعدہ بھی کیا ہے۔
اس میں سوئچ بلیڈ نامی ہتھیار شامل ہونے کی توقع ہے، جو کہ ایک چھوٹا، امریکی تیار کردہ ‘کامیکاز’ ڈرون ہے جسے زمین پر اہداف پر چھوٹے دھماکہ خیز مواد گرانے کے لیے لانچ کیے جانے سے پہلے ایک بیگ میں لے جایا جا سکتا ہے۔
مغربی حکام اب بھی خبردار کرتے ہیں کہ صدر پیوتن یوکرین پر حملے میں ‘بربریت کی انتہا تک’ جا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اب بھی اتنی عسکری طاقت ہے کہ وہ یوکرین کے شہروں پر ‘کافی عرصے تک’ بمباری کر سکیں۔
ایک انٹیلی جنس اہلکار کا کہنا ہے کہ روس کی فوج کی ناکامیوں کے باوجود صدر پوتن اس سے ‘پیچھے نہیں ہٹیں گے بلکہ اس میں مزید شدت لا سکتے ہیں۔’ صدر پوتن اس بات کر پراعتماد ہیں کہ روس یوکرین کو عسکری شکست دے سکتا ہے۔
اسی انٹیلی جنس اہلکار نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ دوسری جانب یوکرینی فوج نے شدید مزاحمت کا مظاہرہ کیا ہے، ایسے میں اسلحے کی اہم رسد کے بغیر وہ بھی ‘ گولہ بارود اور فوجیوں کی تعداد کے لحاظ سے کمزور ہو سکتے ہیں۔’
روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے وقت کے مقابلے میں اب یوکرینی افواج کی مشکل کم ہونے کے اشارے تو موجود ہیں لیکن اب بھی یہ جنگ یوکرین کے لیے ایک پہاڑ جیسی ہے۔