یورپ میں گیس کی بڑھتی قیمتیں کیا روس توانائی کو ’سیاسی ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کر رہا ہے؟
یورپی ممالک میں گیس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور اس دوران روس پر الزامات لگ رہے ہیں کہ وہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیوان نے حال ہی میں اس صورتحال پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس شاید توانائی کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘میرا خیال ہے کہ روس کو یورپ کی جانب سے توانائی کی سپلائی بڑھانے کے مطالبات کو مدنظر رکھتے ہوئے پورا کرنا اور اس پر جواب دینا چاہیے۔’
لیکن یورپ میں گیس کی قلت اور اس کی بڑھتی قیمتوں کے لیے روس کس حد تک ذمہ دار ہے؟
یورپ روس سے کتنی گیس لیتا ہے؟
روس یورپ کو قدرتی گیس کی مانگ کا پچاس فیصد مہیا کرتا ہے۔ باقی ماندہ ضرورت کے لیے گیس الجیریا اور ناروے سے حاصل ہوتی ہے۔
روس یورپ میں متعدد گیس پائپ لائنوں کے ذریعے گیس پہنچاتا ہے جن میں نارڈ سٹریم، یامل یورپ گیس پائپ لائن اور دی بردارہڈ نامی گیس پائپ لائن شامل ہیں۔
روس سے بھیجی جانے والی گیس علاقائی سطحوں پر قائم گیس ذخیرہ کرنے کے مراکز میں رکھی جاتی ہے اور پھر اسے براعظم کے مختلف ممالک تک پہنچایا جاتا ہے۔
کووڈ کی وبا کے دوران روس سے یورپ گیس کی برآمد یورپی ممالک میں مانگ کی کمی کے باعث کم ہو گئی تھی۔
البتہ اب یورپ میں اس کی مانگ میں دوبارہ اضافہ ہوا ہے۔ مگر رواں برس بیلاروس اور یوکرین کی گیس پائپ لائنوں کے ذریعے یورپ میں گیس کی کم فراہمی کا رجحان جاری ہے۔ اس کے باعث یورپ بھر میں گیس کے ذخیرے کم ہو رہے ہیں اور قیمتیں اوپر جا رہی ہیں۔
کیا روس اپنے وعدے پورے کر رہا ہے؟
روس کی بڑی سرکاری توانائی کمپنی گیزپروم یورپ کو دو شرائط کے تحت گیس فراہم کرتی ہے۔
ایک طویل مدتی معاہدے کے تحت جو اکثر دس سے 25 برس کے ہوتے ہیں۔ دوسرا ‘سپاٹ ڈیلز’ معاہدے یعنی فوری گیس کی فراہمی یا ایک بار میں گیس کی خریداری جو ایک محدود مدت کے لیے ایک خاص قیمت پر سپلائی کی جاتی ہے۔
گیزپروم کمپنی طویل مدتی معاہدوں کو ‘بنیادی مستحکم اور پائیدار گیس کی فراہمی’ کے طور پر بیان کرتی ہے۔ اور یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس نے رواں برس ان معاہدوں کے تحت اپنے ذمہ داریوں کو پورا کیا ہے۔ تاہم انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر فتیح بیرول نے حال ہی میں کہا تھا کہ ان کے اندازے کے مطابق اگر روس چاہے تو پندرہ فیصد زیادہ گیس سپلائی کر سکتا ہے۔
بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ روس سے جرمنی تک براہ راست جانے والی نو تعمیر شدہ گیس پائپ لائن نارسٹریم ٹو کی جلد منظوری کروانے کے لیے گیس سپلائی روک سکتا ہے۔
یہ نئی گیس پائپ لائن یوکرین کو بائی پاس کرے گی اور اس کی تعمیر کے لیے کوئی سیاسی و ماحولیاتی اعتراضات بھی سامنے نہیں آئے ہیں البتہ روس اس کے جلد شروع ہونے کے لیے بیتاب ہے۔
آکسفورڈ انسٹی ٹیوٹ فار انرجی سٹڈیز کے جیک شارپلز کا کہنا ہے کہ ‘مرکزی یورپی میڈیا کے ایک اہم حصہ کا کہنا ہے کہ روس کی توانائی کی کمپنی گیزپروم نے جرمن ریگولیٹر اور یورپی کمیشن کو نورڈ سٹریم ٹو گیس پائپ لائن کی منظوری پر مجبور کرنے کے لیے جان بوجھ کر سپلائی روک دی ہے۔’
لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ تجزیہ ‘قابل اعتراض’ ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا مرکل نے کہا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی صورت حال سے آگاہ نہیں جہاں روس نے اپنی معاہدے کی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ انھوں نے کہا کہ’ روس صرف معاہدے کے تحت گیس فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔’
لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ گیزپروم کے اپنے الیکٹرانک سیلز پلیٹ فارم کے اعداد و شمار کے مطابق ‘سپاٹ’ سیلز کسی خاص مقدار میں ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
ڈاکٹر شارپلز کہتے ہیں کہ ‘ اس سے یہ نتیجہ اخد ہوتا ہے کہ گیزپروم اپنے طویل المیعاد معاہدوں کے تحت گیس فراہم کر رہی ہے، لیکن یہ ان معاہدوں سے ہٹ کر اضافی سپلائی فراہم نہیں کر رہی ہے۔’
یورپی یونین کے انرجی کمشنر کادری سمسن بھی اس موقف کی تائید کرتی ہیں۔ انھوں نے چھ اکتوبر کو کہا تھا کہ ’ہمارے ابتدائی اندازوں کے مطابق روس اپنے طویل المدتی معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے ہمیں گیس فراہم کر رہا ہے لیکن یہ ان کے علاوہ ہمیں اضافی سپلائی نہیں دے رہا۔‘
روس کے نائب وزیر خارجہ سرگی ریابکو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’درحقیقت گیزپروم نے اپنے ذخیروں میں سے گیس نکال کر یورپ کی مانگ پوری کرنا شروع کر دی ہے تاکہ مارکیٹ میں استحکام برقرار رہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے کبھی پہلے اپنے توانائی کی فراہمی کے ذرائع پر اتنا دباؤ نہیں ڈالا۔‘
یورپ کے بازار حصص کو کیا ہوا؟
یورپ کے گیس انفراسٹریکچر ڈیٹا کے مطابق یورپ میں گیس کا ذخیرہ دس برس کی اوسط مقدار سے بہت کم ہے۔ اور اس وقت اس ذخیرے میں گیس کی سطح 75 فیصد کے قریب ہے۔ برطانیہ کا گیس کا ذخیرہ اس وقت بھرا ہوا ہے۔ لیکن روس اسے صرف ملکی ضرورت کا پانچ فیصد فراہم کرتا ہے۔ لہذا اس کا دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں روس کی درآمد کردہ گیس پر انحصار کم ہے۔
روس کا اپنا گیس کا ذخیرہ بھی اس وقت کم ہے۔
اکنامسٹ کے انٹیلی جنس یونٹ میں یورپ کی تجزیہ کار ایڈلین وان ہوٹے کہتی ہیں کہ ‘فی الحال روس کی داخلی گیس مارکیٹ مندی کا شکار رہے گی کیونکہ اس وقت وہاں پیداوار پہلے ہی اپنے عروج کے قریب ہے اور سردیوں کا موسم قریب ہے لہذا گیس کی برآمد محدود رہے گی۔’
یورپ میں گیس کی قلت کے چند اور عناصر بھی ہیں جیسا کہ:
- رواں برس کے آغاز میں سرد موسم کے باعث گیس کا ذخیرہ کم ہونا
- موسم بہار اور سرما میں گیس کی بڑھتی قیمتوں کے باعث تاجروں نے گیس کم خریدی تاکہ سال کے آخر میں بیچ سکیں۔
- ناروے کی طرف سے گیس لائن کی مرمت کے باعث محدود سپلائی۔
- ونڈ پاور کی طرح دیگر توانائی کے ذرائع میں کمی۔
- دنیا بھر میں گیس کی بڑھتی مانگ
گیس کی طلب میں اضافہ کیوں ہے؟
کووڈ کی وبا کے بعد سے دنیا بھر کی صنعتیں اب دوبارہ کھل رہی ہیں اور اس کے باعث اب فیکٹریوں نے اپنی پروڈکشن بڑھائی ہے جس کے باعث دنیا بھر میں گیس کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔
یورپ کو بھی دیگر دنیا میں گیس کی بڑھتی مانگ کا مسئلہ درپیش ہے۔ حالیہ دہائیوں میں ایشیا اور مشرق وسطیٰ جیسے خطوں میں بھی گیس کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ان نے مائع قدرتی گیس کی سپلائی اور مارکیٹ پر اثر ڈالا ہے۔ ایل این جی یورپ کی ایک چوتھائی درآمد کا حصہ ہے۔
جب ایل این جی کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کی سپلائی کو ایشیا کی طرف موڑ دیا جاتا ہے تاکہ بڑھتی قیمتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
اس کے علاوہ روس چین کو اپنی گیس کی برآمدات بڑھا رہا ہے اور جون میں ملک کے مشرقی خطے میں ایک گیس پروسیسنگ پلانٹ کا افتتاح کیا جس کے بارے میں گمان ہے کہ وہ دنیا میں سب سے بڑا گیس پلانٹ ہے۔