ہاسٹلز میں رہائش اختیار کرنے والی پاکستانی خواتین کو کس

ہاسٹلز میں رہائش اختیار کرنے والی پاکستانی خواتین کو کس

ہاسٹلز میں رہائش اختیار کرنے والی پاکستانی خواتین کو کس نوعیت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

میرا تعلق کراچی کے ایک مِڈل کلاس گھرانے سے ہے اور مجھ سے پہلے میرے گھر کی کسی خاتون نے نوکری کے لیے اپنا گھر یا شہر نہیں چھوڑا۔

امی کے مطابق یہ میری فطرت ہے، مجھے ہر وہ کام کرنا ہوتا ہے جو کسی نے نہیں کیا۔

جب مجھے پشاور میں نوکری کرنے کی پیشکش ہوئی تو میں نے اس پر زیادہ سوچا نہیں اور اسے ایک نیا تجربہ سمجھ کر گھر سے نکل پڑی۔ گھر والوں کو بھی مجھ سے یہی امید تھی۔

گھر کے حالات کی وجہ سے میں نے کراچی میں تقریباً پانچ سال اکیلے رہ کر گزارے۔ اس کے بعد نوکری کی غرض سے اسلام آباد شِفٹ ہوئی اور وہاں بھی دو سال اکیلے ہی رہی۔ پھر ایک شاندار نوکری کے لیے پشاور آنے کا موقع ملا۔

اس اجنبی شہر میں تنہا رہنے کے حوالے سے میں تذبذب کی شکار تھی۔ میں یہاں کسی کو جانتی تھی نہ ہی مجھے مقامی زبان یعنی پشتو بولنی آتی تھی۔

بظاہر تو میں پُرسکون تھی، جیسے سب کنٹرول میں ہے لیکن اپنی زندگی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے یہ احساس تھا کہ اس ملک میں اکیلی خاتون کا کسی انجان شہر میں نوکری کرنا آسان نہیں ہوتا۔

اس پر لوگوں کی باتیں سُننا کہ ’اکیلے رہ لو گی؟ پشاور میں؟ وہاں تو لڑکیاں اکیلی تو بالکل نہیں رہ سکتیں۔ وہ تو بہت کنزرویٹیو (قدامت پسند) علاقہ ہے۔‘ یعنی ہمّت دلانے کے بجائے لوگ آپ کی بے چینی اور بڑھا دیتے ہیں۔

میں امّی اور دیگر گھر والوں کے سامنے بھی اپنے خدشات کا اظہار نہیں کر سکتی تھی کہ کہیں وہ پریشان ہو کر یہ نہ کہیں کہ مت جاؤ۔ خیر، ’ہمّتِ انساں، مدد خدا‘، میں الّلہ سے مدد مانگتی گئی اور پشاور شِفٹ ہونے کی تیاریاں شروع کر دیں۔

پرانی نوکری کا نوٹس پیریڈ چل رہا تھا اس لیے پشاور آ کر رہائش یا ہاسٹل کا بندوبست کرنا میرے لیے مشکل تھا۔ شروع میں جب میں پشاور آئی تو کسی جاننے والے کے توسط سے ایک گیسٹ ہاؤس میں رُکی لیکن دو راتوں کے چھ ہزار روپے دے کر میرے چھکے چھوٹ گئے۔ میں نے فوراً ورکِنگ ویمن ہاسٹل تلاش کرنا شروع کیے۔

ہاسٹلز کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ مہینے کا کرایہ چار ہزار روپے ہے۔ یہ سُن کر میں وقتی طور پر خوش ہو گئی لیکن یہی خوشی کچھ ہی دیر میں ایک خوفناک خواب میں بدل گئی جب میں نے ایسے ہی کچھ ہاسٹلز کا دورہ کیا۔

میں ان جگہوں کی حالت دیکھ کر حیران رہ گئی۔ ہر جگہ گندگی تھی اور ایسے لگتا جیسے صفائی کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا۔ اکثر جگہوں پر کمرے بالکل جوتوں کے ڈبوں کے سائز کے تھے، دروازے سے اندر قدم رکھو تو سامنے اگلی دیوار ہوتی ہے۔

ہاسٹل
ہاسٹلوں میں صفائی ستھرائی کا انتظام اکثر نظر نہیں آتا

ہاسٹل کے اس ایک تنگ کمرے میں دو لڑکیاں رہتی تھیں۔ ایک ہاسٹل میں کمرہ بڑا تھا تو وہاں میں چار یا پانچ لڑکیاں ایک ساتھ رہ رہی تھیں اور سب کا ایک ہی باتھ روم تھا۔ سامان رکھنے کے لیے الماری بھی نہیں تھی نہ ہی کوئی اور فرنیچر تھا۔

اکثر ہاسٹل میں لڑکیوں کو زمین پر سونے کے لیے ایک گندا سا گدّا دے دیا جاتا تھا۔ کمروں میں کھڑکیاں بھی نہیں تھیں اور گرمی کی شدّت الگ۔ اے سی تو بھول ہی جائیں۔

ہاسٹلز کے یہ حالات دیکھ کر تو میرا دل ہی بیٹھ گیا۔ جب پوچھا کہ کیا الگ کمرہ لے سکتی ہوں تو اس کا کرایہ دگنا اور تگنا کر کے بتایا گیا۔

پشاور میں اکثر لوگوں کو کہتے سُنا تھا کہ ‘گزارہ کرو۔ گزارہ کرو’ لیکن یہاں کے ورکنگ ویمن ہاسٹلز کی حالت دیکھ کر پتہ چلا گزارہ کرنا کسے کہتے ہیں۔

پھر لوگوں نے اور بھی ڈرا دیا کہ ایسے ہاسٹلز میں سکیورٹی کے بھی مسئلے ہوتے ہیں۔ یہ سب سُن کر میں نے طے کیا کہ میں ہاسٹل میں مستقل طور پر تو بالکل نہیں رہ سکتی۔

ویسے تو میں بہت بہادر بنتی ہوں لیکن اندر سے کافی ڈرپوک ہوں اور قوی امکان تھا کہ میں اگر ان حالات میں رہتی تو اسے برادشت نہ کر پاتی اور نوکری پر کارکردگی علیحدہ خراب ہو جاتی۔ اسی لیے میں نے اپنے لیے کرائے کا مکان ڈھونڈنا شروع کیا۔

یہ ایک نیا امتحان تھا۔ پشاور میں اپارٹمنٹ کلچر ابھی شروع ہی ہوا ہے اور یہاں فلیٹ کم ہی ہیں۔ ایک اکیلی، ملازمت پیشہ خاتون ہونے کے ناطے میں نے کسی کے گھر کے پورشن میں رہنا مناسب نہیں سمجھا۔

ہاسٹل

ویسے بھی مجھے فلیٹ میں رہنے کی عادت ہے اور وہاں فیملیز کے درمیان رہتے ہوئے میں زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہوں۔ اس کے علاوہ فلیٹ میں جو بھی کام ہوتے ہیں وہ بِلڈنگ کی انتظامیہ سنبھال لیتی ہے اور سکیورٹی کے لیے گارڈ ہر وقت تعینات ہوتے ہیں۔ گاڑی بھی پارکنگ لاٹ میں محفوظ کھڑی رہتی ہے۔

لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پشاور میں اگر آپ کسی اچھے فلیٹس میں رہنا چاہیں تو بِلڈنگ انتظامیہ یہ کہہ کر انکار کر دیتی ہے کہ بھئی ہم اکیلے لڑکوں کو نہ ہی اکیلی خواتین کو یہاں رہنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ’یہ ہمارا اصول ہے۔‘

یہ ایک نیا ’لانجہ‘ (پشاور میں مسئلے کو لانجہ کہتے ہیں) تھا۔

آخر ایک نوکری کرنے والی لڑکی آپ کی عمارت میں ایسا کیا کرے گی جو اسے وہاں رہنے کی اجازت نہیں، یہ معاملہ میری سمجھ سے باہر تھا۔

تاثر یہ ہے کہ خواتین کا اکیلے رہنا معیوب سمجھا جاتا ہے، جیسے انھیں اور کوئی کام نہیں، بس وہی ایک ’کام‘ کرنا ہو گا۔ ویسے یہ تاثر تو سب ہی جگہ ہے لیکن اس کا طرح صاف انکار میں نے پہلی بار سُنا تھا۔

بلڈنگ کی انتظامیہ والے میری کوئی دلیل سننے کو تیار ہی نہ تھے۔ میں مزید دل برداشتہ ہو گئی کیونکہ مجھے فیملیز کے درمیان اچھے ماحول میں رہنا تھا اور یہاں حالات ایسے تنگ کر دیے گئے تھے کہ ان اچھے فلیٹس میں کوئی اکیلی عورت رہ ہی نہیں سکتی تھی۔

خیر اللہ اللہ کر کے ایک بِلڈنگ ملی جہاں فیملیز بھی تھیں اور کچھ بہتر ماحول تھا۔ اگرچہ فلیٹ کا عجیب و غریب سا کچن ہے اور باتھ روم میں بھی کموڈ نہیں، لیکن میں نے پھر بھی سوچا کہ چلو گزارا ہو جائے گا۔

یہاں رہنے کے کچھ دن بعد ہی بِلڈنگ انتظامیہ کی جانب سے مجھے ہراسانی کا سامنا ہوا۔ کسی نے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی تو کسی نے ہاتھ ملانے کی۔

جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، بہادر بنتی ہوں لیکن ہوں نہیں۔ ’شٹ اپ کال‘ دینے کے لیے کافی ہمّت چاہیے ہوتی ہے۔ شکر ہے کہ پشاور آتے ہی کچھ دوست بن گئے جن سے میں نے بِلڈنگ والوں کو کال کروا دی۔ میرے دوستوں نے نہ جانے کیا کہا کہ بِلڈنگ انتظامیہ والے تعاون کرنے لگے اور بلاوجہ واٹس ایپ پر پیغامات اور دیگر طریقوں سے تنگ کرنے کا سلسلہ ختم ہوا۔

ہاسٹل

اکثر ہاسٹلوں میں کمرے نہایت تنگ ہوتے ہیں اور ایک کمرے میں کئی افراد رہتے ہیں

میری زندگی میں اب جا کر کچھ سکون آیا ہے لیکن میں ابھی بھی کسی اچھے فلیٹ کی تلاش میں ہوں۔

اس کے علاوہ بھی ہراسانی کا سامنا ہوا۔ ایک پڑوسی سے سوئچ بورڈ چیک کرنے کے لیے مدد مانگی تو وہ پیچھے ہی پڑ گیا۔ بہانے بہانے سے گھنٹی بجانی شروع کر دی۔ پھر اس کا دماغ طریقے سے ٹھیک کیا۔ پھر ایک دفعہ سڑک پار کرتے ہوئے موٹر سائیکل پر سوار تین مردوں میں سے ایک مجھے پیچھے سے چھوتا ہوا گیا لیکن اس وقت تو میں کچھ نہیں کر سکی۔

بازار میں شاپنگ کرتے وقت کوئی جملہ کستا ہے تو کوئی ہاتھ لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ گھورنے کی بھی بہت بُری عادت ہے۔ بھئی، لڑکی اپنا کام کر رہی ہے، آپ کو کیا مسئلہ ہے؟

ایسا بھی نہیں میرے تمام تجربات منفی ہوں، کچھ اچھے لوگوں سے بھی میری ملاقات ہوئی ہے۔ میرے دفتر میں میرے اچھے دوست بن گئے ہیں جو نہ صرف میری حفاظت کرتے ہیں بلکہ میرا خیال بھی رکھتے ہیں۔

قیوم سٹیڈیم میں پشاور سپورٹس کمپلیکس جانا شروع کیا تو وہاں بھی لوگوں سے اچھی بات چیت ہو گئی اور جب انھیں معلوم ہوا کہ میں کراچی سے ہوں تو انھوں نے میری خاطر تواضع میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

بڑے دل والے بھی مِلے جنھوں نے میرے کھانے پینے کا بھی خیال رکھا اور میرے اکیلے پن کا بھی۔ مجھے پشاور بھی گھمایا، عید پر اکیلی تھی تو اپنے گھر پر دعوت دی۔

ان ہی لوگوں کے خلوص اور محبت کی وجہ سے میں پشاور مستقل طور پر رہنا چاہتی ہوں۔ میرا یہاں اب دل لگ گیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *