گیتا کیا پاکستان سے انڈیا لوٹنے والی لڑکی کا اصل نام رادھا واگھمارے ہے؟
کئی برس تک پاکستان میں رہنے کے بعد سنہ 2015 میں انڈیا واپس جانے والی گیتا اب بھی اپنے والدین کی تلاش میں ہیں۔
پاکستان کے اخبار ’ڈان‘ نے گذشتہ دنوں خبر دی تھی کہ گیتا دراصل مہاراشٹر کی رادھا واگھمارے ہیں لیکن گیتا کی دیکھ بھال کرنے والی ’پہل فاؤنڈیشن‘ نے اس کی تردید کی ہے۔
گیتا پیدائشی طور پر سننے اور بولنے سے معذور ہیں۔ پہل فاؤنڈیشن کے بانی رکن اور مشیر ڈاکٹر اشوک سیل گاؤنکر نے کہا کہ ڈان میں شائع خبر غلط ہے۔
’ڈان نے کہا کہ گیتا نائے گاؤں کی رہنے والی ہیں اور ان کا اصل نام رادھا واگھمارے ہے اور ان کے والد سدھاکر واگھمارے کا انتقال ہو چکا ہے۔ لیکن ابھی تک یہ پتا نہیں چل سکا ہے کہ گیتا کے اصلی ماں باپ کون ہیں۔ ڈی این اے کی جانچ ہونے سے پہلے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ گیتا کے اصل ماں باپ کون ہیں اور یہ کہ ان کا اصل خاندان مل گیا ہے۔
گیتا 2015 میں پاکستان سے انڈیا آئی تھیں۔ پاکستان میں ان کی پرورش اور دیکھ بھال ایدھی فاؤنڈیشن نے کی تھی اور اسی نے اُنھیں انڈیا کی وزارتِ خارجہ کو سونپا تھا۔ اس وقت کی وزیرِ خارجہ سُشما سوراج نے بھی گیتا سے ملاقات کی تھی۔ وہ وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی ملی تھیں۔ ان کے والدین کو بہت دنوں تک پورے ملک میں تلاش کیا گیا لیکن سبھی کوششیں ناکام رہیں۔
سشما سوراج نے گیتا کو ایک مذہبی تنظیم کی دیکھ بھال میں دے دیا تھا اور وہ جنوری 2021 تک اندور کے رہنے والے گیانیندر پروہت اور مونیکا پروہت کے ساتھ رہیں۔ اس کے بعد سے وہ مہاراشٹر کے پربھنی ضلع میں واقع پہل فاؤنڈیشن میں رہ رہی ہیں۔
فی الحال وہ اشاروں سے بات کرنے کی زبان سیکھ رہی ہیں۔ اشوک سیل گاؤنکر کہتے ہیں کہ اُنھوں نے پانچویں درجے کا امتحان بھی پاس کر لیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے گیانیندر پروہت سے بات کرنے کے بعد بتایا ہے کہ وہ گیتا کے ماں باپ کو تلاش کرتے ہوئے پربھنی میں جنتور کی رہنے والی مینا واگھمارے کے گھر پہنچے۔
مینا نے اُنھیں بتایا کہ ان کی بھی ایک بیٹی کھوئی تھی اور ان کی اس بیٹی کے پیٹ پر جلے کا نشان تھا۔
گیانیندر پروہت نے بتایا کہ ویسا نشان گیتا کے پیٹ پر بھی ملا ہے لیکن ابھی تک ڈی این اے ٹیسٹ نہیں کروایا گیا اس لیے اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ گیتا ان کی بیٹی ہے یا نہیں۔
گیتا اور مینا نے پہل فاؤنڈیشن کے دفتر میں ملاقات کی تھی۔ مینا واگھمارے کے شوہر سدھاکر واگھمار ے کا انتقال ہو چکا ہے۔ مینا کا کہنا ہے کہ سدھاکر واگھمارے ہی گیتا کے والد تھے۔
گیتا کون ہیں؟
گیتا پیدائشی طور پر قوتِ سماعت اور گویائی سے محروم ہیں۔ سال 2000 کے آس پاس وہ غلطی سے سمجھوتہ ایکسپریس پر بیٹھ کر پاکستان پہنچ گئی تھیں جہاں پولیس نے انھیں فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کے حوالے کر دیا تھا۔
ایدھی فاؤنڈیشن میں ہی اُن کا نام گیتا رکھا گیا کیونکہ ان کا اصل نام معلوم نہیں تھا اور ایدھی سینٹر میں ہی ان کے لیے ایک عبادت کی جگہ مختص کر دی گئی جہاں ہندو دیوی دیوتاؤں کی تصاویر آویزاں تھیں۔
جب 2015 میں سلمان خان کی فلم بجرنگی بھائی جان ریلیز ہوئی تو گیتا کی کہانی بھی منظرِ عام پر آئی۔ بجرنگی بھائی جان میں انڈیا میں بھٹک جانے والی ایک پاکستانی بچی کی کہانی دکھائی گئی ہے۔
سال 2015 میں وزیر خارجہ سشما سوراج اُنھیں انڈیا لے آئیں اور اس کے بعد سے اب تک گیتا اپنے ماں باپ کی تلاش میں ہیں لیکن ابھی تک یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ وہ انڈیا کے کس گاؤں، کس ضلع یا کس ریاست سے نکل کر پاکستان پہنچیں۔
انھیں صرف یہ یاد ہے کہ ان کے گاؤں میں ایک ندی ہے، جس کے کنارے ایک دیوی کا مندر ہے اور ایک ریلنگ والا پل ہے۔
گیانیندر پروہت اور ان کی ٹیم نے ان علامات کو سامنے رکھ کر انڈیا کے طول و عرض میں موجود دیہات چھان مارے ہیں مگر تاحال کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ گذشتہ 20 سال میں انڈیا اس قدر بدل چکا ہے کہ اس بات کا بہت امکان ہے کہ جو جگہ گیتا کو یاد ہے وہ اب ویسی نہ نظر آتی ہو۔
گیانیندر نے گذشتہ سال بی بی سی ہندی کو بتایا تھا کہ ’جب گیتا ندی کے کنارے پہنچتی ہیں تو وہ بہت خوش ہو جاتی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ایک چمک سی آ جاتی ہے اور دل میں ایک امید سی جاگتی ہے کیونکہ اُنھیں لگتا ہے کہ ان کا گھر ایک ندی کے کنارے ہی ہے۔‘
گیانیندر کی تنظیم گیتا کی یادوں اور ان کے طور طریقوں کا بغور مشاہدہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اُن کا گاؤں مہاراشٹر کے سرحدی علاقے میں کہیں ہو گا۔