گرین پاکستان منصوبہ کیا ہے اور اس میں فوج کو اہم ذمہ داریاں کیوں سونپی گئیں؟
حکومتِ پاکستان نے غیر ملکی، بالخصوص خلیجی ممالک کے، سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے لیے گذشتہ دو ماہ میں کچھ اہم سیاسی اور انتظامی فیصلے کیے ہیں جس میں ملک کی فوج کو اہم کردار سونپا گیا ہے۔
رواں برس جون کے پہلے ہفتے میں سپیشل انویسٹمینٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کا قیام عمل میں لایا گیا جس کی ایپکس کمیٹی میں آرمی چیف بطور رکن جبکہ فوجی افسر عملدرآمد کمیٹی کے ڈائریکٹر جنرل ہوں گے۔
اس کونسل میں ایک شعبہ کارپوریٹ فارمنگ کا بھی شامل ہے۔ اس شعبے میں کب سے سرمایہ کاری کی کوششیں ہو رہی ہیں، فوج کو اس میں اہم ذمہ داریاں کیوں سونپی گئی ہیں، اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے مطلوبہ زمین اور پانی دستیاب ہے اور کیا اس منصوبے سے مقامی کسانوں کی زندگی پر اثرات مرتب ہوں گے؟
بی بی سی کی جانب سے ان ہی سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
’سبز پاکستان‘ ایک سٹریٹیجک پراجیکٹ
پاکستان کے اقتصادی سروے 2023 کے مطابق پاکستان میں زراعت کا شعبہ 22 فیصد سے زائد جی ڈی پی اور 37 فیصد ملازمت کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں زرعی اجناس جیسا کہ گندم، دالوں اور آئل سیڈیز کی قلت ہے۔
بطور وزیراعظم شہباز شریف نے سات جولائی کو ’لینڈ انفارمیشن اینڈ مینیجمینٹ سسٹم سینٹر آف ایکسلینس‘ کا افتتاح کیا اور حکومت کی جانب سے آگاہ کیا گیا کہ اس کا مقصد زراعت کے شعبے کو فروغ دینا اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنا ہے۔
لینڈ انفارمیشن اینڈ میجنمینٹ سسٹم کے سربراہ میجر جنرل شاہد نذیر نے صحافیوں کو بتایا کہ ’سبز پاکستان‘ کو سٹریٹیجک پراجیکٹس میں شامل کیا گیا ہے جس کے سربراہ آرمی کے ڈائریکٹر جنرل سٹریٹیجک پراجیکٹس ہوں گے۔
اس منصوبے کا مقصد 70 لاکھ ہیکٹرز سے زائد غیر کاشت شدہ اراضی کو استعمال کرتے ہوئے جدید زرعی فارمنگ کو فروغ دینا ہے۔
گرین پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے اس منصوبے کو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا ویژن قرار دیا اور فیلڈ مارشل صدر ایوب خان کا نام لیے بغیر کہا کہ ساٹھ کی دہائی میں زرعی ترقی ہوئی اور پیداوار بڑھی، کسانوں کو توانا بیج فراہم کیا گیا، ڈیم بنائے گئے، نہریں بنیں جس سے ملک میں زرعی انقلاب آیا۔
شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ انھیں جنرل عاصم نے مشورہ دیا کہ زراعت کی طرف توجہ دینی چاہیے، قومی سلامتی کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنی معاشی سلامتی کو یقینی بنائیں اور زرعی معاش کو مضبوط بنائیں۔
اس منصوبے سے جڑے افراد اور حکام پُرامید ہیں کہ لینڈ انفارمیشن اینڈ مینیجمینٹ سسٹم سینٹر آف ایکسلینس کے ذریعے پاکستان میں 30 سے 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو سکتی ہے اور اس کے تحت پاکستان سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور چین کے ساتھ مل کر ملکی برآمدات کو بڑھانے کے لیے مختلف زرعی منصوبوں پر کام کرے گا۔
وزیراعظم کے مطابق گرین پاکستان کے لیے خلیجی ممالک سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ’وہ یہاں آئیں سرمایہ لگائیں، اجناس پیدا کریں اور لے جائیں۔ یہ زمین تو یہاں رہے گی۔‘
بقول ان کے سعودی عرب، قطر ، متحدہ عرب امارت اب پاکستان کو قرض دینے میں اعتبار نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ منصوبے بنا کر لائیں ہم سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ ہمیں منافع ملے گا، آپ کوسروسز ملیں گی۔
فوج اور زراعت
پاکستان میں زراعت سمیت پانچ شعبوں میں فوج کی شمولیت پر میڈیا میں زیادہ تر مثبت بحث و مباحثہ جاری ہے تاہم بعض تجزیہ نگار اور ماہرین اس کو درست نہیں سمجھتے اور اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔
سیاسی اور عسکری تجزیہ نگار و مصنف شجاع نواز کہتے ہیں کہ اُن کے خیال میں سویلین حکومتوں نے زراعت کی بہتری کے لیے کوئی فیصلہ نہیں کیا، جو بنیادی مسائل ہیں جیسا کہ زراعت سے ہونے والی آمدن پر ٹیکس نہیں لگایا جاتا، اس سے ہوتا یہ ہے کہ جن کے پاس زراعت کی کمائی ہے وہ اس کی سرمایہ کاری درست نہیں کرتے اور نہ ہی وہ ایگریکلچر مینو فیکچرنگ میں اس آمدن کو لگا رہے ہیں جس سے ایکسپورٹ ہوتی ہے اور ملک کی آمدن بھی بڑھتی ہے۔
شجاع نواز کے مطابق یہی وجوہات ہیں کہ پاکستان کا زرعی شعبہ دنیا میں مقابلہ نہیں کر پا رہا۔ ’اس صورتحال میں اگر حکومت پالیسی میں تبدیلی نہیں لائے گی تو پھر یہ منصوبے کی طرف جائیں گے، جیسا کہ یہ ملٹری پراجیکٹ ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اس منصوبے سے بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔‘
انھوں نے کہا کہ سبز انقلاب تحقیق سے آتا ہے جس کے لیے پاکستان کے ہر صوبے میں دنیا کے بہترین ادارے موجود ہیں۔
’ماضی میں جو پاکستان میں سبز انقلاب آیا وہ ان ہی اداروں کی مدد سے آیا۔ فوج کا کمپیریٹیو ایڈوانٹج (کسی معاشی سرگرمی کو دوسرے افراد یا گروہوں سے زیادہ مؤثر طریقے سے سرانجام دینے کی صلاحیت) ایسے شعبوں میں نہیں بلکہ سیکیورٹی میں ہے۔ حکومت ایک طرح سے فوج کو ان معاملات میں الجھا رہی ہے، جس میں اُن کی مہارت نہیں۔ یہ پرائیوٹ سیکٹر کا کام ہے، اُن کو پُرکشش پیشکش دیں تاکہ وہ بہتر طریقے سے زرعی مصنوعات میں ویلیو ایڈ کریں اور پھر اسے درآمد کریں۔ اس سے اُن کا بھی فائدہ ہو گا اور ملک کا بھی۔ زرعی شعبے میں جو سبسڈیز دے رہے ہیں، وہ ختم کریں۔‘
عسکری تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ فوج کے زراعت کے شعبے میں آنے کی وجہ یہ ہے کہ جو پیسے چاہیے، وہ دستیاب نہیں۔
ان کے مطابق انھیں (فوج کو) اس کا احساس ہے، بنیادی طور پر کچھ انجنیئرنگ بٹالینز زمینوں کو ہموار کر کے پھر کچھ بڑے کاشت کاروں کو اس منصوبے میں شامل کر رہے ہیں، کچھ باہر کی کمپنیوں کو لے کر آ رہے ہیں، اس منصوبے میں فوجی فاؤنڈیشن اور اینگرو بھی شامل ہوں گے۔
ڈاکٹر عائشہ کے مطابق ’اس منصوبے میں شیئرز پر وہ کافی خاموش ہیں کہ کس کا کتنا حصہ ملے گا۔ اس میں شفافیت کا فقدان ہے۔‘
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے حقوق خلق پارٹی کے سربراہ عمار جان کہتے ہیں کہ ’فوج کی زراعت میں شمولیت کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت سے فوج کو جو حصہ ملتا ہے وہ کم ہوتا جا رہا ہے، لہذا اب کبھی معدنیات میں تو کبھی زراعت میں حصہ لینے کی بات ہو گی۔ یہ ملک چلانے اور معیشت کو سنوارنے کا کوئی طریقہ نہیں۔‘
عمار جان کے مطابق ’اب ہم معیشت اور زراعت کو بھی میلیٹرائز کر رہے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جاگیرداروں پر تو سوال اٹھا سکتے ہیں کیونکہ وہ سیاستدان ہوتے ہیں مگر جب زراعت میں بھی فوج آ جائے گی تو پھر کس میں اتنی جرات ہو گی کہ کسی وردی والے پر سوال اٹھائے۔ بڑے عرصے سے جو چھوٹے کسان یا مزارعے ہیں ان میں زمین تقسیم کی نہیں جا رہی لیکن جو سبز انقلاب ہے اس کا حل انھوں نے کارپوریٹ فارمنگ نکالا ہے جس کا فائدہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ہوتا ہے، عام کسان کو نہیں۔‘
فوج کی زراعت میں شمولیت اور اس حوالے سے خدشات پر تبصرے کے لیے بی بی سی نے فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے آئی ایس پر آر سے تحریری طور پر رابطہ کیا گیا تھا تاہم آئی ایس پی آر نے اس ضمن میں وزیراعظم سیکریٹریٹ سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا۔
ان خدشات اور آرا پر جواب لینے کے لیے جب سابق وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب سے سوال کیا گیا تو انھوں نے حکومت کے اِس فیصلے کو ملکی معشیت اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری سے جوڑا۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں جو براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری آتی ہے اس میں سرمایہ کار بیوروکریٹک مشکلات سے نہیں گزرنا چاہتے کیونکہ یہ سب عوام سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں لہذا زراعت سمیت پانچ شعبوں کو سپیشل انویسٹمینٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) میں اکٹھا کیا گیا۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کے پاس دو آپشن ہیں: ایک یہ کہ ہم دنیا کے سامنے ہمیشہ کشکول پھیلاتے رہیں اور آئی ایم ایف سے سخت شرائط (جن کا براہ راست بوجھ عوام پر پڑتا ہے) پر قرضہ لینے کا سلسلہ جاری رکھیں۔ دوسرا آپشن یہ ہے، جو پوری دنیا کرتی ہے یعنی براہ راست سرمایہ کاری کے عمل کو آسان بنایا جائے اور اس ضمن میں اقدامات اٹھائے جائیں۔
انھوں نے واضح کیا اس میں کسی مقامی سرمایہ کاری کی ممانعت نہیں، اگر آپ مقامی سطح پر کارپوریٹ فارمنگ کر رہے ہیں تو اس میں کوئی تفریق نہیں۔
منصوبے کی شفافیت سے متعلق خدشات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں ایک پورٹل بنایا جا رہا ہے جس تک سب کو رسائی ہو گی۔
مریم اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ایک مکمل منصوبہ ہے جس کے تحت سرمایہ کاروں کو ون ونڈو آپریشن دستیاب ہو گا۔ ورنہ تو سرمایہ کاروں کو ڈھائی، تین سال تک کسی منصوبے کو شروع کرنے کے لیے درکار سرکاری اجازت نامے نہیں ملتے، کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ دفتروں کے چکر لگاتا رہے، یہ معاشی استحکام کی جانب ایک قدم ہے جس کے تحت پاکستان مزید قرضوں پر انحصار نہیں کرے گا۔‘
منصوبے کے لیے درکار پانی کہاں سے آئے گا؟
ایک اور سوال جو پوچھا جا رہا ہے وہ یہ کہ پاکستان میں اگر اتنے بڑے رقبے پر کاشتکاری کی جائے گی تو کیا اس کے لیے مناسب مقدار میں پانی دستیاب ہو گا؟ اس کا مختصر جواب دیتے ہوئے مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں بہت پانی ہے۔‘
نیشنل فوڈ سکیورٹی پالیسی 2018 کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی اور خوراک کی زیادہ مانگ کی وجہ سے ملک میں پانی کے وسائل دباؤ کا شکار ہیں۔ پاکستان میں 1950 کی دہائی میں پانی کی فی کس دستیابی 5000 کیوبک میٹر تھی جو 2018 تک 1000 کیوبک میٹر سے بھی کم ہو چکی تھی۔
پاکستان واٹر پالیسی 2018 کے مطابق پانی کے حصول کے لیے ٹیوب ویلز کے ذریعے زیر زمین پانی نکالنے کا عمل نہ صرف پانی کی کمی کی صورت میں نکلا بلکہ زمینی پانی کی نمکیات میں بھی اضافہ ہوا ہے، یعنی اب یہ اتنی بہتر کوالٹی کا نہیں رہا۔ نمکیات اور پانی میں فلورائیڈز اور آرسینک کی موجودگی کے نتیجے میں زرعی زمینوں کی زرخیزیت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ایس ڈی پی آئی کی جانب سے ’ایگریکلچر لینڈ اکوزیشن بائی فارن انویسٹرز‘ کے عنوان کے تحت ہونے والی تحقیق سے منسلک محقق انتونیا سی سیٹل لکھتی ہیں کہ پاکستان میں پانی کی قلت پہلے ہی مختلف کمیونٹیز اور صوبوں میں کشیدگی کا باعث بنتی ہے، سمندر میں دریا کا پانی نہ جانے کی وجہ سے سمندری کٹاؤ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، چولستان، تھر اور بلوچستان (جو غیر ملکی سرمایہ کاری کا ٹارگٹ ہیں) وہاں زراعت کا دارومدار زیر زمین پانی پر ہے اور ان علاقوں میں قحط سالی بھی دیکھنے میں آتی رہتی ہے۔
معاشی تجزیہ نگار اور پاکستان میں پانی کی صورتحال پر لکھی جانے والی کتاب کے مصنف قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ ’اب جو فارمز بنیں گے، انھیں پانی کے سلسلے میں فوقیت ملے گی، جس کے باعث ہو سکتا ہے کہ ڈاؤن سٹریم کو پانی نہ ملے۔‘
اس کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جیسے شہروں میں جن گھروں میں پانی کا لائنوں پر سکر پمپ لگا ہوتا ہے وہاں تو پانی دستیاب ہو جاتا ہے مگر جن گھروں میں یہ پمپ نہیں وہ پانی سے محروم رہ جاتے ہیں یا ان کے حصے میں بچنے والا پانی ہی آتا ہے۔‘
زمین کتنی اور کہاں ہے؟
پاکستان کی قومی زرعی پالیسی 2018 کے مطابق 13 ملین ایکڑ سے زائد زمین ایسی ہے جس کو قابل کاشت لایا جا سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف سرگودھا کے ایک تحقیقی مقالے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 9.14 ملین ہیکٹر بنجر زمین قابل کاشت بنائی جا سکتی ہے۔ جس میں بلوچستان میں 4.87 ملین ہیکٹر، پنجاب میں 1.74 ملین ہیکٹرز، سندھ میں 1.45 ملین ہیکٹرز جبکہ خیبرپختونخوا میں میں 1.08 ملین ہیکٹر ایسی زمین ہے۔
اس پیپر میں نشاندہی کی گئی ہے کہ بلوچستان میں قابل کاشت بنجر زمین بنیادی طور پر قلات، کوئٹہ، نصیر آباد اور مکران ڈویژن میں واقع ہے۔ پنجاب میں ایسی قابل کاشت زمین ڈی جی خان، بہاولپور، راولپنڈی اور لاہور ڈویژن میں موجود ہے۔ صوبہ سندھ میں قابل کاشت مگر بنجر زمین حیدرآباد، میرپور خاص، سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن میں واقع ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں قابل کاشت بنجر زمین ڈی آئی خان، ہزارہ اور کوہاٹ ڈویژن میں واقع ہے۔
پاکستان میں سرکاری زرعی زمینوں کے مالکانہ حقوق صوبوں کے پاس ہے جبکہ وفاقی محکمے اپنی ضرورت کے مطابق ان سے زمین لیتے ہیں۔
مریم اورنگزیب سے جب سوال کیا گیا کہ تو انھوں نے بلاواسطہ طور پر جواب دیا کہ ’یہ زمینیں صوبوں سے ہی لی جائیں گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ سپیشل انویسٹمینٹ فیسیلیٹیشن کونسل میں صوبائی حکومتیں بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ ماضی قریب میں صوبہ پنجاب کے مختلف اضلاع میں دس لاکھ ایکڑ زمین فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ سامنے آ چکا ہے۔ ابتدائی طور پر 45 ہزار ایکڑ کی بات سامنے آئی جس کو جب ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا تو حکومت نے آگاہ کیا کہ مجموعی طور پر دس لاکھ ایکڑ زمین مانگی گئی ہے۔
سپیشل انویسٹمینٹ کونسل کے قیام سے قبل اور فوج کو کارپوریٹ فارمنگ کی ذمہ داریاں ملنے سے قبل یعنی مارچ میں پنجاب میں 45 ہزار ایکڑ فوج کو دینے کی خبریں سامنے آئیں۔
احمد رافع عالم نے اس الاٹمنٹ کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا اور پٹیشن میں دو نکات کو بنیاد بنایا گیا جن کے مطابق نگران حکومت کی ذمہ داریوں میں روزہ مرہ کے امور سرانجام دینا اور اس کا مقصد الیکشن کروانا ہے، دوسرا یہ کہ مسلح افواج کی آئینی ذمہ داریوں میں کارپوریٹ فارمنگ کا تصور نہیں۔
رافع عالم نے بتایا کہ اس مقدمے کے دوران معلوم ہوا کہ افواج پاکستان نے تقریباً دس لاکھ ایکڑ زمین مانگی تھی جس سے قبل پنجاب حکومت اور فوج میں مشترکہ اقدامات کا معاہدہ بھی ہوا۔
عدالت نے اس معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے فیصلے میں لکھا کہ نگران حکومت کو یہ اختیارات حاصل نہیں کہ وہ مستقبل کی منتخب حکومت کو کسی فیصلے کا پابند بنا سکے۔
یہ بھی لکھا کہ آئین پاکستان کے تحت افواج پاکستان کی ذمہ داریوں میں کارپوریٹ فارمنگ نہیں آتی۔ تحریری فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا کہ (عدالت کا) یہ فیصلہ تمام فوجی سربراہان کو پڑھایا جائے تاکہ انھیں آئینی ذمہ داریوں کا پتا ہو۔
تاہم ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف حکومت پنجاب اور حکومت پاکستان نے ڈویژن بینچ میں درخواستیں دائر کیں اور اس فیصلے کو سپیشل انویسٹمینٹ فیسیلیٹیشن کونسل کے قیام کے اعلان سے دو روز قبل معطل کر دیا گیا۔
’کسانوں کو گھر کے لیے اناج نہیں ملے گا‘
محقق انتونیا سی سیٹل ’ایگریکلچر لینڈ اکیوزیشن بائی فارن انویسٹرز‘ کے عنوان سے کی گئی تحقیق میں لکھتی ہیں کہ کارپوریٹ فارمنگ کے مقامی کمیونٹیز پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بقول اُن کے جنوبی پنجاب اور بلوچستان ان منصوبوں میں اہم ہیں جبکہ تھر، تھل میں بارشوں پر کاشتکاری ہوتی ہے اور یہاں لوگ مال مویشی پالتے ہیں جن کی نقل و حرکت متاثر ہونے کا امکان ہو گا۔
تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ کے مطابق لاکھوں بے زمین کسان ہیں جو سرکاری زمینوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ’جب آپ زمین کو ہموار کریں گے اور میکنائزڈ فارمنگ کے لیے تو ظاہر ہے کہ کچھ کو اٹھائیں گے۔‘
معاشی تجزیہ نگار قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ ’اس اقدام سے جو جس کے پاس ہے وہ بھی بے زمین ہو جائیں گے کیونکہ کارپوریٹ فارمنگ چھوٹے رقبے پر تو ہو نہیں ہو سکتی، اس کے لیے زیادہ رقبہ چاہیے۔‘
ان کے مطابق ’اُن کی پیدوار زیادہ ہو گی کیونکہ وہ جدید ٹیکنالوجی استعمال کریں گے، پانی زیادہ استعمال کریں گے تو آس پاس کے جو کھیت ہوں گے انھیں پانی نہیں ملے گا کیونکہ انھیں پانی میں فوقیت دی جائے گی۔ یہ کھاد بھی زیادہ استعمال کریں گے جس سے وقتی طور پر تو پیداوار بڑھ جائے گی لیکن زمین ڈی گریڈ ہوجائے گی۔ جب زمین کاشت کے قابل نہیں رہے گی تو یہ کمپنیاں چھوڑ کر چلی جائیں گی، لوگ وہاں ہی رہے جائیں گے پر زمین بنجر ہو جائے گی۔‘
قیصر بنگالی کے مطابق جو ایکسپورٹ کے معاہدے ہوتے ہیں اس میں یہ گارنٹی ہوتی ہے کہ وہ پیداور اپنے وطن لے جائیں گے لہذا جو مزدور ان کی زمینوں پر کام کریں گے وہ خود خوراک اپنے گھروں میں نہیں لے جا سکتے کیونکہ سب کچھ تو ایکسپورٹ کے لیے ہو گا۔
حقوق خلق پارٹی کے سربراہ عمار جان کہتے ہیں کہ جہاں لوگ صدیوں سے بیٹھے ہوتے ہیں اس زمین کو بھی یہ غیر استعمال شدہ قرار دیتے ہیں جس کی ایک مثال اوکاڑہ زرعی فارم کی ہے۔
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ صادق آباد اور رحیم یار خان میں پہلے سے پانی کا مسئلہ موجود ہے اور ممکن ہے کہ موجودہ اقدامات کی وجہ سے سندھ اور پنجاب میں پانی کا مسئلہ بنے گا۔
33 سال پر محیط کوششیں
پاکستان میں کارپوریٹ فارمنگ کے فروغ کی کوششیں گذشتہ 33 سال سے جاری ہیں۔
وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت نے پہلی بار 1990 کی دہائی کے آخر میں کارپوریٹ فارمنگ متعارف کروائی، جس کے لیے 19 ملٹی نیشنل کمپنیوں کی منظوری دی گئی لیکن اس پر عملدرآمد سے قبل اُن کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
جنرل پرویز مشرف نے جب میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کر کے اقتدار سنبھالا تو انھوں نے کارپوریٹ فارمنگ کے لیے باضابطہ اقدامات کیے اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے زرعی فارمنگ پالیسی اور کارپوریٹ فارمنگ آرڈیننس کا اجرا کیا۔
سنہ 2008 میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو اس نے بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بورڈ آف انویسٹمینٹ کے ذریعے غیر ملکی سرمائے کو متوجہ کرنے کی کوشش کی اور سنہ 2009 میں ایک پیکیج کا اعلان کیا جس کا فوکس بھی مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک تھے جس کے بعد مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع ہوا تاہم یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوئی تھیں۔