گجرات کے چودھری رشتہ داری کی بنیاد پر قائم پارٹی میں پڑنے والی دراڑ کبھی پُر ہو سکے گی؟
جمعہ کی شب پنجاب اسمبلی میں وزیرِاعلیٰ کے انتخاب میں چودھری شجاعت حسین کے خط سے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا منصب اچانک چودھری پرویز الٰہی سے چھن گیا۔
اِن دونوں بھائیوں کے مابین ہمیشہ سے تعلقات مثالی رہے۔ مگر سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے جہاں چودھری خاندان کے مابین خلیج پیدا ہوئی، وہاں پارٹی بھی منقسم ہو کر رہ گئی۔
یہ پارٹی جو رشتہ داری کی بنیاد پر کھڑی تھی، اس کا مستقبل کیا ہے؟ نیز اس خاندان کے مابین تعلقات میں جو لکیر سی کھنچ گئی ہے، کیا یہ مزید گہری ہو گی؟ اِن پہلوؤں کا یہاں جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
سب سے پہلے چودھری خاندان کی سیاسی تاریخ پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔
چودھری خاندان کی سیاست کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟
چودھری شجاعت حسین کے والد چودھری ظہور الٰہی 25 ستمبر1981 کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔ اِن کی ہلاکت کے بعد چودھری شجاعت حسین کی سیاست کا آغاز ہوا۔
چودھری ظہور الٰہی کی عملی زندگی کا آغاز قیام پاکستان سے قبل ہوا تھا۔ کاروبار اور سیاست کی دُنیا میں قدم رکھنے سے پہلے یہ پولیس میں ایک عام سپاہی تھے۔
پولیس کی ملازمت سے فارغ ہو کر اِنھوں نے اپنے بھائی چودھری منظور الٰہی کے ساتھ مل کر کاروبار کا آغاز کیا۔
کامیاب کاروبار نے اس خاندان کی سماجی و معاشی حیثیت بدل دی۔ معاشی مسائل نہ رہے اور سماجی مرتبے میں اضافہ ہوا تو چودھری ظہور الٰہی نے سیاسی میدان میں قدم رکھا۔
جس وقت چودھری ظہور الٰہی نے گجرات کی سیاست میں متحرک کردار ادا کرنا شروع کیا، گجرات نواب زادہ خاندان کی سیاسی چھتری کے نیچے سانس لے رہا تھا۔
نواب زادہ خاندان معاشی و سیاسی سطح پر بہت مضبوط تھا۔ نواب غضنفر گل کے دادا، یعنی نواب فضل علی تقسیم ہند سے قبل سیاست سے وابستہ تھے اور اسمبلی کے ممبر بھی تھے۔
نواب زادہ خاندان کی سیاسی وراثت کو نواب زادہ اصغر علی آگے لے کر چلے۔ گجرات میں سیاسی طور پر دوسرا مضبوط دھڑا بہاول بخش کا تھا جو مشہور سیاسی شخصیت تھے۔ یہ دھڑا ان کے بیٹے اور اعتزاز احسن کے والد محمد احسن علیگ کا تھا۔
یعنی گجر اور جاٹ برادری کا دھڑا ایک دوسرے کا سیاسی حریف تھا۔ اس منظر نامے میں چودھری ظہور الٰہی نے اپنی جگہ بنانی تھی اور وہ ایسا کرنے میں کامیاب رہے۔
چودھری ظہور الٰہی کا طرزِ سیاست اگلی نسل میں منتقل ہوا
چودھری ظہور الٰہی نے ریپبلکن پارٹی میں شمولیت اختیار کی، اِن کے ساتھ فضل الٰہی بھی شامل ہوئے۔
سید عقیل عباس جعفری اپنی کتاب ‘پاکستان کے سیاسی وڈیرے’ میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ‘چودھری ظہور الٰہی اور فضل الٰہی نے ریپبلکن پارٹی میں شمولیت کے بعد گجرات میں مسلم لیگ کے دفتر پر قبضہ جما لیا اور اس پر ریپبلکن پارٹی کا بورڈ بھی آویزاں کر دیا۔’
چودھری ظہور الٰہی کی سیاست میں اہم موڑ اُس وقت آیا جب گجرات ڈسٹرکٹ بورڈ چیئرمین شپ اِن کو مل گئی جس میں کلیدی کردار ریپبلکن پارٹی کے سینئر رہنما مخدوم حسن محمود نے ادا کیا تھا جو موجودہ پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کے والد تھے۔
چودھری ظہور الٰہی ایبڈو کا شکار بھی ہوئے لیکن اِنھوں نے سیاست کو الوداع کہنے کے بجائے قانونی جنگ کا سہارا لیا۔
سنہ 1962کے انتخابات میں جب ظہور الٰہی نے نواب زادہ اصغر علی پر سبقت حاصل کی تو یہاں سے صحیح معنوں میں اِن کی سیاست کے جوہر کھل کر سامنے آئے۔
ریپبلکن سے یہ کنونشن لیگ میں شامل ہو گئے۔ سنہ 1965کے انتخابات میں آزاد حیثیت سے شمولیت اختیار کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ اس ناکامی کی وجہ نواب آف کالاباغ کے ساتھ سیاسی مخاصمت قرار دی جاتی ہے۔
چودھری شجاعت حسین اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب’سچ تو یہ ہے’میں لکھتے ہیں ‘نواب آف کالا باغ نے میرے والد کو پیغام بھجوایا کہ وہ اگر قومی اسمبلی کی سیٹ سے دستبردار ہو جائیں تو صوبائی اسمبلی کی سیٹیں انھیں مل سکتی ہیں۔ مگر یہ پیشکش مسترد کر دی گئی۔’
نواب آف کالا باغ سے سیاسی لڑائی میں اِن کو کافی نقصان اُٹھانا پڑا اور وہ سیاسی مقدمات میں پھنستے رہے۔ قریبی سیاسی رفیق فضل الٰہی بھی الگ ہو گئے۔
سنہ 1970 میں چودھری ظہور الٰہی ایک بار پھر اپنے روایتی حریف نواب زادہ اصغر علی کو مات دینے میں کامیاب رہے۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی یہ مقدمات کی زد میں رہے۔ حتیٰ کہ سیاسی تاریخ کا مشہور بھینس چوری کا مقدمہ بھی اِن پر بنا۔
چودھری ظہور الٰہی کو دھڑے کی سیاست پر ملکہ حاصل تھا۔ یہی وصف اگلی نسل کو بھی منتقل ہوا۔
خاندانی تقسیم پارٹی کے اختتام کی طرف پہلا قدم ہے؟
چودھری خاندان کی یہ نسل جو چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی پر مشتمل تھی، کی سیاست کا آغاز 80 کی دہائی میں ہوا۔
سنہ 1985 میں چودھری پرویز الٰہی نے صوبائی سیٹ سے کامیابی حاصل کی اور وزیرِ اعلیٰ بننے کی منصوبہ بندی کی لیکن شریف خاندان ان پر سبقت لے گیا اور چودھری پرویز الٰہی وزیرِ اعلیٰ نہ بن سکے۔
آگے جا کر نواز شریف کے خلاف چودھری خاندان نے تحریک عدم اعتماد کی بھی کوشش کی۔ مسلم لیگ کی تقسیم کے وقت اِنھوں نے محمد خان جونجو کا ساتھ دیا۔
سنہ 1988 میں بھی یہ دونوں اپنی نشستیں جیت گئے اور پرویز الٰہی صوبائی وزیر بن گئے۔ 1990کے انتخابات میں چودھری شجاعت حسین وفاقی وزیر بن گئے۔سنہ 1997 کے انتخابات میں چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیرِ داخلہ بھی بنے۔
جب سابق صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں مسلم لیگ ن کی حکومت کا خاتمہ کیا تو چودھریوں کی اہمیت بڑھ گئی۔ سنہ 2002 کے انتخابات میں چودھری خاندان کی سیاسی گرفت مضبوط ہوئی اور پنجاب میں اِن کی اہمیت بھی بڑھ گئی۔
اس عرصہ میں چودھری پرویز الٰہی وزیرِ اعلیٰ جبکہ شجاعت حسین مختصر عرصہ کے لیے وزیرِ اعظم بھی رہے۔
2008 کے انتخابات کے بعد یہ سمجھا جارہا تھا کہ چودھری خاندان کی سیاست اب ختم ہو جائے گی اور ق لیگ کا خاتمہ ہو جائے گا مگر آصف زرداری کی حکومت میں چوھری پرویز الٰہی ڈپٹی وزیرِ اعظم رہے۔
2018 میں ق لیگ نے عمران خان کا ساتھ دیا اور پرویز الٰہی سپیکر پنجاب اسمبلی بن گئے۔ اس سارے عرصے میں چودھری خاندان میں نہ تو سیاسی تقسیم پیدا ہوئی اور نہ ہی باہمی خاندانی تعلقات میں کوئی بگاڑ آیا۔
چودھری فیملی کی اگلی نسل دراڑ کی وجہ بنی؟
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دِنوں میں، چودھری پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت کے مابین اختلاف سامنے آیا تھا اور یہ خاندان اپنی اکائی قائم نہ رکھتا ہوا دکھائی دیا۔
اُس وقت چودھری شجاعت و چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی ملاقاتیں ہوئیں۔ آصف علی زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن، چودھری شجاعت حسین کی خیریت دریافت کرنے گھر پہنچتے رہے۔
یہ وہ وقت تھا، جب پی ڈی ایم کی قیادت چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا مشترکہ اُمیدوار بنانے پر رضامند تھی۔ مگر چودھری پرویز الٰہی اور ان کے بیٹے نے عمران خان کا ساتھ دیا۔
یہاں سے چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی کے مابین فاصلہ پیدا ہوا اور ق لیگ میں تقسیم پیدا ہوئی۔ چودھری شجاعت حسین کا بیٹا وفاقی وزیر بن گیا۔
اِن دونوں بھائیوں کے مابین تعلقات میں تقسیم کا نیا موڑ اُس وقت آیا، جب پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کا چناؤ قریب آیا اور آصف علی زرداری کی چودھری شجاعت حسین سے ملاقاتوں نے اپنا رنگ دکھایا۔
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ‘دونوں کے بچے اب اپنی اپنی سیاست کرنا چاہتے ہیں، مونس سیاسی میدان میں کافی متحرک ہیں۔ بچوں کی سیاست اور دونوں بھائیوں یعنی شجاعت حسین اور پرویز الٰہی کی سیاست کا انداز بالکل بدل جائے گا۔’
ق لیگ کے اختتام کی طرف پہلا بڑا قدم؟
پھر جو کچھ پنجاب اسمبلی میں وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کے عین موقع پر ہوا، کیا اُس کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ ق لیگ کے اختتام کی طرف پہلا بڑا قدم ہے؟
اس پر سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اب خاندان کی اگلی نسل کی سیاست شروع ہو گئی ہے۔ اور پارٹی کو سنبھالنا بھی بہت مشکل ہو جائے گا۔’
پاکستان میں سیاسی خاندانوں اور اُن کی سیاست پر جب بھی بات ہوتی ہے تو عمومی طو پر گجرات کے چودھری برادران کے رکھ رکھاؤ کے قصے ضرور بیان ہوتے ہیں۔
اب یہ خاندان چونکہ سیاسی سطح پر تقسیم ہو چکا ہے، تو اِن کی سماجی حیثیت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ یہ سوال اُٹھ سکتا ہے کہ سیاست کے میدان میں کامیاب قرار دیا جانے واالا خاندان، باہمی طور پر اکائی برقرار نہ رکھ سکا اور خاندانی تقسیم کا شکار ہو گیا۔
چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی کو ورثے میں ملنے والا رکھ رکھاؤ، اور وضع داری، خاندانی تقسیم کا باعث کیسے بنی؟
اس پہلو پر سیاسی تجزیہ کار،سینئر صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں ‘وضع داری قائم نہ رہ سکی، جس کی بنیادی وجہ یہ کہ مفادات آڑے آ گئے۔ رکھ رکھاؤ ایک عرصہ تک کام آنا تھا، آ گیا۔’
سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد کا بھی یہی خیال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘اس واقعہ سے جہاں خاندان میں دراڑ گہری ہو گی، وہاں رکھ رکھاؤ، وضع داری بھی ختم ہو گئی ہے، اُس کی جگہ سیاسی مفادات نے لے لی ہے۔’
چودھری فیملی میں پڑنے والی دراڑ پُر ہو سکے گی یا مزید گہری ہو گی؟
جمعہ کی رات جب پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں وزیرِ اعلیٰ کے چناؤ میں چودھری شجاعت حسین کا خط سامنے آیا تو چودھری پرویز الٰہی کو وزارتِ اعلیٰ سے محروم کرنے کا باعث بن گیا۔
چودھری شجاعت حسین کے اس سخت اور دو ٹوک مؤقف کا اندازہ قطعی نہیں تھا کیونکہ وہ پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد برملا چودھری پرویز الٰہی کی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے حمایت کا اظہار کر چکے تھے۔
چودھری شجاعت حسین کا مؤقف جہاں پارٹی کے اندر سیاسی تقسیم کا باعث بنا، وہاں خاندان کو بھی تقسیم کرنے کا باعث ٹھہرا۔
جمعہ کی شب جب پنجاب اسمبلی میں چودھری شجاعت کے خط کے بعد غیر متوقع موڑ آیا تو اسمبلی اجلاس کے بعد وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے ایشو پر چودھری پرویز الٰہی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
پرویزالٰہی، مسلم لیگ ق اور پی ٹی آئی کے ارکان سپریم کورٹ رجسٹری کے باہر جا پہنچے تو وہاں کارکنان نے پرویزالٰہی کے حق میں نعرے مارے۔
اس غیر متوقع صورتحال کے بعد چودھری فیملی کے درمیان جو دراڑ پیدا ہوئی ہے، وہ پُر ہو سکے گی یا مزید گہری ہو گی؟
اس سوال کے جواب میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں ‘یہ جو خاندان کے بیچ دراڑ پڑی ہے، اب یہ پُر نہیں ہوسکے گی، مزید بڑھے گی، جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا، تلخیاں بڑھتی جائیں گی۔’
اس ضمن میں افتخار احمد کہتے ہیں کہ ‘پرویز الٰہی اور ق لیگ، چودھری شجاعت کے خلاف سپریم کورٹ گئے ہیں۔ اس کے بعد کیا رہ گیا؟’
افتخار احمد مزید کہتے ہیں کہ ‘یہ دراڑ مزید گہری ہو گی۔ جب چودھری شجاعت سے کوئی ملنے جاتا تھا وہ اپنے کمرے میں موجود ہوتے، مگر مہمان کو اُس کمرے تک چودھری پرویز الہی اور اُن کا بیٹا لے کر جاتے۔ اب بتائیں اس کے بعد کیا مزید کہا جا سکتا ہے؟