گاڑی پر برطانیہ سے پاکستان پہنچنے والے محمد سرور سب سے مہنگا پیٹرول انگلینڈ، سب سے سستا ایران میں ملا
برطانیہ سے پاکستان تک کا طویل سفر وہ بھی گاڑی پر۔۔۔ یہ سُننے میں مشکل تو لگتا ہے، مگر یہ اتنا ہی دلچسپ بھی ہے۔
پاکستانی نژاد برطانوی شہری محمد سرور اور اُن کے بھانجے محمد ساجد نے سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسکو سے پاکستان تک یہ سفر بذریعہ سڑک گاڑی پر نو دن میں طے کیا۔
محمد سرور نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں گھومنے پھرنے کا بہت شوق ہے۔ اُن کے پاس چھ سال پرانی مرسڈیز کار ہے اوران کی خواہش تھی کہ وہ کبھی اس گاڑی پر کہیں دور کا سفر کریں لیکن اُن کو اپنے ساتھ دوسرا ڈرائیور نہیں ملتا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ اُن کے خاندان کا گلاسگو میں ریستوران کا کاروبار ہے اور اُن کے ایک بھانجے، جو یہی کام کرتے ہیں، نے ان کے ساتھ یہ دلچسپ سفر کرنے کی حامی بھری۔
محمد سروربتاتے ہیں کہ ’ایک دن میں نے اپنے بھانجے سے بات کی کہ میں بذریعہ سڑک پاکستان جانا چاہتا ہوں مگر دوسرا ڈرائیور نہیں مل رہا۔ یہ سننے پر میرا بھانجا فوراً اس سفر کے لیے آمادہ ہو گیا اور کہا کہ وہ ایک ہفتے کی چھٹی لے کر ساتھ چلتے ہیں۔ جتنا بھی پیپر ورک تھا، وہ کام میرے بھانجے نے کیا اور جو گاڑی کے تکنیکی کام تھے، وہ میں نے کیے۔‘
محمد سرور بتاتے ہیں کہ جس ملک کے آپ شہری ہوتے ہیں اُس ملک تک کار میس سفر کرنے کے لیے آپ کو اپنے برطانوی پاسپورٹ پر ویزا لگوانا پڑتا ہے۔
محمد سرور کے مطابق وہ گلاسگو سے لندن اور وہاں سے پھر فرانس میں داخل ہوئے۔ فرانس سے بیلجیئم، پھر جرمنی اور پھر آسٹریا کے بعد ہنگری پہنچے اور پہلے دو دن میں پانچ ممالک سے گزر گئے۔
’گلاسگو سے سوچ کر چلے تھے کہ ترکی میں کباب کھائیں گے‘
لیکن سفر کی اصل داستان اس کے بعد شروع ہوئی۔ محمد سرور بتاتے ہیں کہ دو دن میں پانچ ممالک کا سفر کرنے کے بعد وہ بہت خوش تھے کہ اب چار دن میں وہ پاکستان پہنچ جائیں گے لیکن آگے کا سفر تھوڑا مشکل اور ایڈوینچر والا تھا۔
بلغاریہ کی سرحد پر ان کی اچھی خاصی تلاشی بھی لی گئی لیکن سب سے زیادہ وقت ترکی تک سفر میں لگا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ترکی کے سفر کا ٹائم تقریباً بیس گھنٹے ہے۔ اُدھر ہمیں تین دن لگے، وہاں ہمیں ناردرن ایریا سے گزرنا پڑا، وہاں سردی بہت زیادہ تھی اور درجہ حرارت منفی 23 ڈگری سینٹی گریڈ تک تھا۔
’سفر کا یہ حصہ بہت مشکل تھا۔ درجہ حرارت منفی میں ہونے کی وجہ سے جب گاڑی کی ہیٹنگ بھی ختم ہو گئی اور کافی زیادہ دھند تھی تو وہاں ہمیں رات رکنا پڑا۔ وہ دو دن ہمارے مشکل تھے مگر سب کنٹرول میں تھا۔‘
’ہمیں خود پر یقین تھا۔ ہم گلاسگو سے یہ سوچ کر چلے تھے کہ ترکی میں ہم کباب کھائیں گے، جو ہم نے کھائے اور آدھا دن استنبول میں گزارا۔‘
محمد سرور بتاتے ہیں کہ ’ہم نے اپنے آپ کو زیادہ نہیں تھکایا۔ چار سے پانچ گھنٹے میں گاڑی چلاتا تھا اور پھر میرا بھانجا گاڑی چلا لیتا تھا۔ ہم سفر کا لطف لے رہے تھے۔‘
وہ آگے کی دقتوں کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایران میں ویزہ کا سسٹم تھوڑا مشکل ہے۔ ’وہاں گاڑی کی انشورنس بھی کروانی تھی کیونکہ ایران میں یورپ کی انشورنس نہیں چلتی۔‘
ہمیں ایران میں پاکستان ایران بارڈر پر رات گزارنا پڑی۔ وہ بتاتے ہیں یہاں ان سے اندازے کی غلطی ہو گئی کیونکہ وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ سرحد کھلنے کا جو وقت انٹرنیٹ پر ہے اس وقت پر بارڈر کھلے گا لیکن سرحد ایران کے مقامی وقت کے مطابق کھلنا تھا۔
اب باری تھی تافتان سے پاکستان میں داخل ہونے کی۔ محمد سرور نے بتایا کہ تافتان بارڈر پر انھیں بہت زیادہ پروٹوکول ملا۔
’سب سے مہنگا پیٹرول انگلینڈ، سب سے سستا ایران میں ملا‘
محمد سرور نے ایران کا ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایران کے شہر زاہدان میں ہم نے پیٹرول ڈلوانا تھا۔
’ہم وہاں کھڑے تھے کہ ایک آدمی آیا، اُس نے کارڈ نکالا اور پیٹرول ڈالنا شروع کر دیا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ گاڑی میں 76 لیٹر پیٹرول ڈالا تھا۔ میں نے اس شخص کو پیسے دینے کی کوشش کی تو اس نے منع کر دیا۔‘
’میں نے زور ڈالا تو وہ کہنے لگا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور ایران کی حکومت کی جانب سے یہاں آنے والے مہمانوں کو ایک ٹینک فیول کا مفت فراہم کیا جاتا ہے۔‘
محمد سرور نے بتایا کہ اس طویل سفر میں ان کے نو دن لگے اور اس دوران سب سے زیادہ مہنگا پیٹرول انھیں انگلینڈ جبکہ سب سے سستا ایران میں ملا۔
’پورے سفر میں 80 لیٹر والے 11 ٹینک لگے یعنی تقریباً 900 لیٹر پیٹرول۔ پاکستانی کرنسی میں پیٹرول پر ہمارا تقریباً تین لاکھ روپے خرچ آیا۔‘
’طویل سفر بڑی کار پر ہی کریں‘
سفر کے تجربات کے حوالے سے محمد سرور بتاتے ہیں کہ جو بھی لوگ ایسا سفر کرنا چاہیں ان کو ٹن فووڈ اور خشک میوہ جات ساتھ رکھنے چاہیے۔
وہ مشورہ دیتے ہیں کہ کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ میڈیکل کی چیزیں بھی ساتھ ہونا لازمی ہیں۔
’سفر کے آغاز میں ہی ہمارے گلے خراب ہو گئے اور وہ ہم برداشت کرتے رہے۔ ترکی میں آ کر اینٹی بائیوٹک دوا لی جو بہت مہنگی تھی لیکن اس سے ہماری طبیعت ٹھیک نہیں ہوئی۔ پھر ہم نے ایران میں آ کر دوبارہ اینٹی بائیوٹک لی۔‘
سفر میں گاڑی خراب ہو تو سفر مصیبت بن جاتا ہے مگر محمد سرور اس مشکل سے محفوظ رہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ گاڑی نے انھیں بالکل بھی تنگ نہیں کیا۔
’میں باقی لوگوں کو بھی مشورہ دیتا ہوں کہ اگر کسی نے اتنا طویل سفر کرنا ہو تو وہ بڑی کار پر ہی کریں کیونکہ سفر بہت آرام دہ ہوتا ہے۔‘