کینیڈا میں سکول سے 215 بچوں کی باقیات ملنا ’تاریخ

کینیڈا میں سکول سے 215 بچوں کی باقیات ملنا ’تاریخ

کینیڈا میں سکول سے 215 بچوں کی باقیات ملنا ’تاریخ کے شرمناک باب‘ کی دردناک یاد قرار

کینیڈا کے ایک سابق مقامی رہائشی سکول میں 215 بچوں کی باقیات پر مشتمل ایک اجتماعی قبر ملی ہے۔ یہ سکول مقامی افراد کو ہم آہنگ کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔

یہ بچے برٹش کولمبیا کے کیملوپس انڈین رہائشی سکول کے طالب علم تھے۔ اور اس سکول کو سنہ 1978 میں بند کر دیا گیا تھا۔

اس دریافت کا اعلان جمعرات کے روز ٹی کے ایملوپس ٹی سیکوپیمک فرسٹ نیشن کے سربراہ نے کیا۔

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا ہے کہ یہ ’ہمارے ملک کی تاریخ کے شرمناک باب‘ کی دردناک یاد ہے۔

برٹش کولمبیا کے شہر کیملوپس میں اس برادری کی سربراہ روزانے کیسیمیر نے کہا کہ ابتدائی کھوج میں ایسے ناقابل تصور نقصان کا پتا چلا ہے جسے سکول انتظامیہ نے کبھی دستاویز میں درج نہیں کیا تھا۔

19ویں اور 20ویں صدی کے دوران کینیڈا کے سکول حکومت اور مذہبی حکام کے ذریعہ چلائے جانے والے بورڈنگ سکول ہوتے تھے جن کا مقصد مقامی نوجوانوں کو زبردستی ہم آہنگ کرنا تھا۔

رہائشی نظام کے تحت چلائے جانے والے سکولوں میں کیملوپس انڈین رہائشی سکول سب سے بڑا تھا۔ سنہ 1890 میں رومن کیتھولک انتظامیہ کے تحت اسے قائم کیا گیا تھا اور سکول میں سنہ 1950 میں اپنے عروج کے زمانے میں تقریباً 500 طلبا تھے۔

مرکزی حکومت نے سنہ 1969 مین اس سکول کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا اور اسے سنہ 1978 میں اس کے بند ہونے تک مقامی طلبا کے اقامتی درسگاہ کے طور پر چلایا جاتا تھا۔

سکول
باقیات کی جانج کی جا رہی ہے

ہم باقیات کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

دی ٹکیملوپس ٹی سکویپیمک فرسٹ نیشن نے کہا کہ راڈار سے زمین کے ایک سروے کے دوران سکول کی یہ باقیات ملی ہیں۔

مز کیسیمیر نے کہا: ’ہمارے علم کے مطابق یہ ایسے بچوں کی لاشیں ہیں جن کا ریکارڈ نہیں رکھا گیا۔۔۔ ان میں سے کچھ تو محض تین سال کی عمر کے تھے۔‘

ہم نے اس بات کی تصدیق کے لیے ایک راستہ تلاش کیا ہے کہ ان گمشدہ بچوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ گہرے احترام اور محبت کے ساتھ ہم ٹکیملوپس ٹی سکویپیمک کو ان کی حتمی آرامگاہ قرار دیں۔

اس قبیلے کا کہنا ہے کہ وہ ان گھروں اور برادریوں تک پہنچے جن کے بچے سکول جاتے تھے۔ انھیں جون کے وسط تک ابتدائی نتائج برآمد ہونے کی امید ہے۔

برٹش کولمبیا کی چیف کورونر (یعنی موت کا پتہ لگانے والا طبی افسر) لیزا لاپوائنٹ نے کینیڈا کے نشریاتی ادارے سی بی سی کو بتایا کہ ‘ہم معلومات اکٹھا کرنے کے عمل میں جلدی کر رہے ہیں۔’

اس پر کیا رد عمل آیا ہے؟

اس پر صدمے، رنج و الم اور شرمساری کا احساس ہے۔

مسٹر ٹروڈو نے ایک ٹویٹ میں لکھا: ‘کیملوپس رہائشی سکول میں پائے گئے باقیات کی خبر نے میرے دل کے ٹکڑے کر دیے۔’

کینیڈا کے دیسی امور کے وزیر کیرولن بینیٹ نے کہا کہ رہائشی سکول نوآبادیاتی پالیسی کا ‘ ایک شرمناک’ حصہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت ‘ان گمشدہ جانوں کی یادگار قائم’ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

برٹش کولمبیا کی اسمبلی آف دی فرسٹ نیشنز کے علاقائی چیف ٹیری ٹیجی نے ایسی قبروں کے مقامات کی تلاش کو ‘فوری کام’ قرار دیا جو کہ اس خطے میں کمیونٹیوں کے غم اور نقصان کو تازہ کرتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار فرسٹ نیشن ہیلتھ اتھارٹی (ایف این ایچ اے) سمیت دیگر دیسی گروپوں نے بھی کیا ہے۔

اس کے سی ای او رچرڈ جوک نے ایک بیان میں کہا: ‘یہ صورتحال بدقسمتی سے تعجب کی بات نہیں ہے اور یہ رہائشی سکول سسٹم فرسٹ نیشن کے لوگوں، ان کے اہل خانہ اور کمیونٹیز پر پائے جانے والے نقصان دہ اور دیرپا اثرات کی عکاسی کرتے ہیں۔’

یہ رہائشی سکول کیا تھے؟

سنہ 1863 سے 1998 تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ مقامی بچوں کو ان کے اہل خانہ سے لے کر ان سکولوں میں رکھا گیا تھا۔

ان بچوں کو اکثر اپنی زبان بولنے یا اپنی ثقافت پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور ان میں سے بہت سوں کے ساتھ بدسلوکی اور زیادتی کی جاتی تھی۔

سنہ 2008 مین اس نظام کے اثرات کو جاننے کے لیے قائم کردہ کمیشن نے پایا کہ مقامی بچوں کی بڑی تعداد کبھی بھی اپنے گھروں اور اپنی برادریوں میں واپس نہیں آئی۔

سنہ 2015 میں جاری کی گئی تاریخی ‘ٹرتھ اینڈ ریکنسلیشن رپورٹ’ میں کہا گیا کہ یہ پالیسی ‘ثقافتی نسل کشی’ کے مترادف تھی۔ سنہ 2008 میں کینیڈا کی حکومت نے اس نظام کے لیے باضابطہ طور پر معافی مانگی۔

مسنگ چلڈرن پروجیکٹ کے تحت سکولوں میں رہتے ہوئے فوت ہونے والے بچوں کی اموات اور تدفین کے مقامات کو دستاویزی شکل دی جا رہی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اب تک رہائشی سکول میں پڑھتے ہوئے مرنے والے چار ہزار ایک سو سے زیادہ بچوں کی شناخت کی جا چکی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *