کیا چین نے انڈیا سے لداخ میں اپنے دعوے کی زمین واپس لے لی ہے؟
مشرقی لداخ میں چین کی سرحد سے ملحق چوشل گاؤں سے تقریباً 30 کلومیٹر کے فاصلے پر اور سرحد سے محض چند کلومیٹر دور پہاڑیوں پر خانہ بدوشوں کا ایک خاندان خمیہ زن ہے۔ انھوں نے پتھروں سے دیوار بنا رکھی ہے جس میں سینکڑوں بھیڑیں چراگاہوں کی طرف جانے کے لیے بیتاب ہو رہی ہیں۔ پاس میں ہی تقریباً 50، 60 یاک گھاس چر رہے ہیں۔
مگر خاندان کے سربراہ سیوانگ نوربو بہت اداس ہیں۔
اکتوبر کے اواخر سے یہاں برفباری شروع ہو جائے گی اور نومبر آتے آتے درجۂ حرارت منفی 35 سے منفی 40 ڈگری تک نیچے آ جائے گا۔ آئندہ چھ ماہ تک یہ پورا خطہ برف سے ڈھکا رہے گا۔ موسم سرما میں خانہ بدوش اپنے مویشیوں کے ساتھ سامنے کے پہاڑوں پر چلے جاتے تھے۔
سیوانگ نے بتایا کہ اب انھیں ایسے علاقوں میں جانا پڑے گا جہاں گھاس نہیں ہوگی۔ ’جن پہاڑوں پر ہم جاتے تھے وہاں جاڑوں میں گھاس بہت اچھی ہوتی ہے۔ ہم وہاں پر کئی مہینے رہتے تھے۔ وہاں انڈین فوج اب ہمیں جانے نہیں دیتی۔ ہمیں نیچے سے ہی لوٹا دیتے ہیں۔ ہم انھیں بتاتے ہیں کہ ہم چینی خطے میں نہیں جائیں گے لیکن فوج ہمیں نہیں جانے دیتی۔ ہم بہت مشکل میں ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ ہمیں کیوں نہیں جانے دیتے۔‘
مشرقی لداخ کی 70 فیصد سے زیادہ آبادی خانہ بدوشوں پر مشتمل ہے۔ ان کی زندگی یاک اور بھیڑوں پر منحصر ہے۔ اونچے اونچے پہاڑوں کے درمیان کئی سو کلومیٹر کے سرحدی علاقے میں چھوٹے چھوٹے درجنوں گاؤں صدیوں سے آباد ہیں۔
یہ خطہ ساڑھے تین ہزار سے پانچ ہزار میٹر کی اونچائی پر واقع ہے۔ زندگی یہاں انتہائی مشکل ہے۔ یہ چین کی سرحد یعنی ایل اے سی پر واقع ہے۔
یہ ایک پر امن خطہ رہا ہے لیکن جون 2020 میں گلوان وادی میں انڈین اور چینی فوجیوں کے درمیان خونریز ٹکراؤ کے بعد یہاں کی صورتحال یکسر بدل گئی ہے۔ اس ٹکراؤ کے درمیان چینی فوجی کئی علاقوں میں اس خطے میں داخل ہو گئے جن پر انڈیا کا دعویٰ یا کنٹرول تھا۔
اس وقت دوربک، گلوان، پینگونگ سو، ڈیپسانگ، ہاٹ سپرنگ، گوگرا، چوشل، چومور اور ڈیمچوک جیسے سرحدی علاقوں میں دونوں ملکوں کے ہزاروں فوجی پورے جنگی سازو سامان کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابل تعینات ہیں۔
کئی مقامات پر دونوں فوجوں کے درمیان بہت کم فاصلہ ہے۔ خطے میں انتہائی چوکسی برتی جا رہی ہے۔ لیہ سے پینگونگ چوشل، چومور ڈیمچوک اور ڈیپسانگ اور ہاٹ سپرنگ تک ہر جگہ انڈین فوج کے اڈے اور چھاؤنیاں بنی ہوئی ہیں۔
ایک مقامی باشندے سیوانگ گیستو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پہلے انڈین فوج اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ وہ سرحدوں پر تعینات ہوتی تھی لیکن گلوان کی لڑائی کے بعد بارڈر پر انڈین فوج بہت زیادہ آ گئی ہے۔
ایسا سننے میں آیا تھا کہ چینی فوج انڈین بارڈر پر بھر گئی ہے۔۔ انڈین آرمی بھی بارڈر پر زیادہ آگئی ہے۔ فوجی ٹرک بہت زیادہ آ رہے ہیں۔ ٹینک اور دوسرے ہتھیار بھی اوپر جاتے ہیں۔‘
چوشل گاؤں کی سرپنچ سیرنگ ڈولکر بتاتی ہیں کہ گلوان کی لڑائی کے بعد مقامی باشندوں کی مشکلات بہت بڑھ گئی ہیں۔ گاؤں کے نوجوان لڑکے لڑکیاں اکثر جگہوں پر فوج کے لیے پورٹر اور تعمیری کاموں میں لگے ہوئے ہیں لیکن مویشیوں پر منحصر رہنے والے خانہ بدوشوں کی مشکلیں بڑھ گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا ’گلوان کی لڑائی سے پہلے سرحد پر کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ہمارے لوگ جہاں ٹکراؤ ہے وہاں بھی اپنے مویشیوں کے ساتھ پہاڑوں پر سرحد کراس کر کے چلے جاتے تھے۔ فوج اب جانے نہیں دیتی۔ فوج کی پابندیوں کی وجہ سے جاڑے میں گھاس کا بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ لڑائی سے پہلے یہاں 1700 مویشی تھے، اب وہ کم ہو کر 1100 سے 1200 سو رہ گئے ہیں۔ دو برس میں اتنی کمی ہوئی ہے، یہاں لوگ بہت تشویش میں ہیں۔‘
’واضح اندازہ ہوتا ہےکہ چین کس موڈ میں ہے‘
چوشول کے منتخب کونسلر کونچوک سٹینزن کہتے ہیں کہ 2020 کا واقعہ بہت بڑا واقعہ تھا۔ 1962 کے بعد اتنی بڑی تعداد میں فوج کا یہاں آنا لوگوں کے لیے پہلا تجربہ تھا۔ سرحد پر چین کے ساتھ اس طرح کا ٹکراؤ پہلے کبھی نہیں ہوا۔
چوشول کے پاس جتنے بھی پہاڑ دکھائی دے رہے ہیں ہر جگہ فوج ہی فوج دکھائی دے رہی ہے وہ کہتے ہیں ’پہلے صرف ڈیمچوک اور چومور ایریا میں چینی فوج کا کچھ سٹرکچر ہوتا تھا۔ لیکن اب انھوں نے ہر جگہ فوجی ڈھانچے کھڑے کر دیے ہیں۔ مشرقی لداخ میں جہاں جہاں بارڈر ہے وہاں چین نے فائیو جی ٹاور لگا دیے ہیں۔ یہی نہیں اس نے پینگونگ سو جھیل پر دو پل تعمیر کر دیے ہیں۔ چین 2020 کے بعد سے اس خطے میں بہت زیادہ فوجی تعمیرات میں لگا ہوا ہے۔ اس سے واضح اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس موڈ میں ہے۔‘
لیہہ کے سابق ایگزیکٹو کونسلر محمد شفیع لاسو کہتے ہیں کہ ’لداخ دو بین الاقوامی سرحدوں سے گھرا ہوا ہے۔ مغرب میں پاکستان اور مشرق میں چین۔ 1962 کے بعد چین نے اس خطے میں پہلی بار اتنی بڑی جارحیت کی ہے‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’انھوں نے اس دراندازی میں ہماری بہت سے سرحدی علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ پہلے انھوں نے اپنے چرواہوں کو ہماری چرا گاہوں میں بھیج کر کافی زمین ہڑپ کی۔ لیکن 2020 میں انھوں نے گلوان وادی، ڈیپسانگ، ہر جگہ زمینوں پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد پینگونگ سو میں اتنی مداخلت کی، اتنی زمین پر قبضہ کیا کہ اس جانب سے ان کی روشنیاں نظر آتی ہیں۔‘
’انڈیا کے نئے نقشے میں اکسائی چن لداخ کا حصہ دکھانے پر چین ناراض ہوا‘
14 جون 2020 کو گلوان وادی میں معمول کی پیٹرولنگ کے دوران انڈین اور چینی فوجیوں میں خونریز جھڑپ ہوئی تھی جس میں انڈیا کے 20 اور چین کے کم از کم چار فوجی مارے گئے تھے۔ اس سے پہلے اپریل میں بھی معمولی نوعیت کی جھڑپ ہوئی تھی۔ ان جھڑپوں کے درمیان چینی فوج ایل اے سی پر کئی مقامات پر اپنی پوزیشن سے آگے بڑھ کر انڈین کنٹرول کے علاقے میں داخل ہو گئی تھی جہاں سے بظاہر وہ پیچھے نہیں ہٹی ہے۔
چین اور انڈیا کے ٹکراؤ پر حال میں شائع ہونے والی کتاب ’دی لاسٹ وار ‘ کے مصنف پروین ساہنی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’میرے خیال میں چین نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ ان کو یہ منظور نہیں تھا کہ انڈیا نے نئے نقشے بنائے جس میں لداخ کو یونین ٹریٹوری دکھایا اور جو اکسائی چن کے کچھ حصے تھے، اس کو آپ نے لداخ کا حصہ دکھایا۔ یہ چین کے لیے قابل قبول نہیں تھا یہ 1959 سے ان کی کلیم لائن تھی۔ موقع دیکھ کر وہ ایک دو جگہ چھوڑ کر ہر اس لائن پر آ کر بیٹھ گئے ہیں۔ اب وہ یہاں سے واپس نہیں جائیں گے ۔ ہم میں ابھی اتنی فوجی طاقت نہیں ہے کہ ہم انھیں وہاں سے بھگا سکیں۔‘
چومور بھی ایک سرحدی علاقہ ہے۔ وہاں کے سابق کونسلر گرومے ڈورجے کو شکایت ہے کہ سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو حکومت نے سہولیات نہیں فراہم کی ہیں۔
ان کا کہنا تھا ’چین کی جانب سہولیات زیادہ ہیں۔ ہماری طرف نہیں ہیں۔ چومور زیرو بارڈر ہے۔ وہاں موبائل ٹاور تک نہیں ہے۔ چین اپنے چرواہوں کو بہت سی سہولیات دیتا ہے۔ یہاں خانہ بدوشوں کو سہولیات برائے نام ملتی ہے۔ 2013 کے بعد سے چین چومور کے سامنے کا جو پہاڑ ہے وہاں تک آ گیا ہے اور بات چیت کے بعد بھی وہاں سے گیا نہیں، وہیں بیٹھا ہے ۔ ہمارے خانہ بدوش جو چراگاہوں کے لیے وہاں جانا چاہتے ہیں انڈین فوج انھیں وہاں جانے نہیں دیتی۔‘
’چین کی شرائط پر ڈس اینگیجمنٹ ہوئی‘
ماہرین کے تخمینوں کے مطابق مشرقی لداخ کے ان دشوار گزار پہاڑوں میں چین نے ساٹھ ہزار سے زیادہ فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ یہی اندازہ انڈین فوجیوں کے بارے میں بھی ہے۔ سینکڑوں ٹرک روزآنہ علاقائی مرکز لیہہ سے فوجیوں کے لیے رسد اور دیگر ضروری سامان سرحدی علاقوں میں پہنچاتے ہیں۔
بی بی سی نے انڈین آرمی سے چین اور انڈین فوج کی تعیناتی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ای میل کے ذریعے رابطہ قائم کیا لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔
تین دن پہلے ہاٹ سپرنگ خطے میں دونوں ملکوں کی افواج نے موجودہ پوزیشن سے دونوں جانب برابری پر فوجیں پیچھے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔
چینی امور کے ماہر پروین ساہنی کہتے ہیں کہ یہ ’ڈس انگیجمنٹ چین کی شرائط پر ہو رہا ہے۔‘ انڈیا اور چین نے گلوان وادی کے ٹکراؤ کے بعد 10 ستمبر 2020 کو ماسکو میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت یہ طے ہو چکا ہے کہ دونوں ممالک صرف ڈس انگیجمنٹ کریں گے اور وہ ساری ڈس انگیجمنٹ چینی شرائط پر ہوں گی۔‘
ان کے مطابق ’یہ بھی طے ہو چکا ہے کہ چین اپریل 2020 کی پوزیشن یعنی انڈین زمینوں پر قبضے سے پہلے کی پوزیشن پر نہیں جائے گا۔ تیسری اہم بات اس میں یہ ہے کہ جو لائن آف ایکچول کنٹرول ہے اسے ’بارڈر ایریاز‘ کا نیا نام دیا جائے گا۔ یہ سارا بارڈر ایریا ہمارے خطے میں ہو گا۔ اس مشترکہ اعلانیے پر انڈیا دستخط کر چکا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم 19 جون 2020 کو بول چکے ہیں کہ نہ ہمارے ایریا میں کوئی آیا ہے اور نہ ہی ہماری زمین پر کوئی موجود ہے۔ مشرقی لداخ میں اتنے بڑے پیمانے پر فوج تعینات کرنے کا بس اب ایک مقصد ہے چینی فوج اور آگے نہ آ سکے۔‘
یہ خطہ بہت پر امن ہوا کرتا تھا۔ 2020 میں وادی گلوان کے ٹکراؤ کے بعد پورا مشرقی لداخ گشیدگی کی گرفت میں ہے۔
ہزاروں فوجی پہلے سے ہی تعینات ہیں۔ اب اس میں مزیداضافہ ہو رہا ہے۔ کشیدگی کے اس ماحول میں کوئی معولی سا ٹکراؤ بھی گمبھیر رخ اختیار کر سکتا ہے۔