کیا چینی صدر شی جن پنگ اور انڈین وزیراعظم مودی کی ملاقات کے بعد سرحدی کشیدگی میں کمی کے آثار ہیں؟
چین کے صدر شی جن پنگ اور انڈیا کے وزیراعظم نریند مودی کے درمیان جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں ملاقات کے بعد دونوں ملکوں نے لداخ میں ایل اے سی (لائن آف ایکچول کنٹرول) پر افواج پیچھے ہٹانے اور سرحدی کشیدگی کم کرنے کے لیے کوششیں مزید تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
لداخ میں وادی گلوان کی جھڑپ کے بعد ایل اے سی کے دونوں جانب ہزاروں فوجی تعینات ہیں اور سرحد پر کشیدگی کا ماحول برقرار رہا ہے۔
سنہ 2020 میں اس جھڑپ کے بعد چین کی فوجیں مشرقی لداخ میں سینکڑوں کلومیٹر تک پھیلی ہوئی سرحدی لائن پر کئی جگہ ان علاقوں میں داخل ہو گئیں جنھیں انڈیا اپنا علاقہ مانتا ہے۔
صدر شی جن پنگ اور وزیراعظم مودی کی ملاقات بدھ کو ہوئی لیکن اسے راز میں رکھا گیا تھا۔ جمعرات کی شام کو انڈیا کے سکریٹری خارجہ ونے کوترا نے اس میٹنگ کے بارے نامہ نگاروں کو بتایا۔
ونے کوترا نے بتایا کہ ’صدر شی سے اپنی ملاقات میں وزیراعظم مودی نے لداخ میں انڈیا چین کے سرحدی علاقوں میں ایل اے سی پر تصفیہ طلب معاملات پر اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’وزیر اعظم نے کہا کہ انڈیا اور چین کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سرحدی خطے میں امن و سکون برقرار رکھنا اور ایل اے سی کو پوری طرح ماننا اور اس کا احترام کرنا لازمی ہے۔‘
انڈیا کے سکریٹری خارجہ نے بتایا کہ دونوں رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے اپنے ملک کے متعلقہ اہلکاروں کو ہدایات جاری کریں گے کہ وہ ایل اے سی سے فوجیوں کو پیچھے ہٹانے اور کشیدگی ختم کرنے کی کوششوں کو مزید تیز کریں۔
اس دوران جمعے کو بیجنگ میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صدر شی نے وزیراعظم مودی کی درخواست پر یہ ملاقات کی تھی۔
اس بیان کے مطابق ’دونوں رہنماؤں نے چین اور انڈیا کے تعلقات کی موجودہ صورتحال اور باہمی مفاد کے دوسرے پہلوؤں پر گہری اور کھل کر بات چیت کی۔ صدر شی نے کہا کہ دونوں ملکوں کو اپنے باہمی تعلقات کے مفاد کو ذہن میں رکھنا چاہیے اور سرحدی مسئلے کو اس طرح حل کیا جائے کہ مشترکہ طور پر خطے میں امن و سکون کا تحفظ کیا جا سکے۔‘
واضح رہے کہ دونوں رہنماؤں کی یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب لداخ میں سرحدی تنازعے اور کشیدگی ختم کرنے کے لیے دونوں جانب کے ملیٹری کمانڈروں کے درمیان 13 اور 14 اگست کو 19ویں دور کے مذاکرات میں کوئی کامیابی نہیں مل سکی تھی۔
اس بات چیت کے فوراً بعد گذشتہ ہفتے غیر معمولی طور پر فوج کے میجر جنرل کی اعلیٰ سطح پر دو روز تک مفصل بات چیت چلی۔
اگرچہ اس بات چیت کے بارے میں فوج کی طرف سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
تاہم، روز نامہ ’انڈین ایکپریس‘ نے نامعلوم فوجی ذرائع کے حوالے سے اس ہفتے کے اوائل میں یہ خبر دی تھی کہ ان اعلیٰ فوجی کمانڈروں نے ڈیپسانگ اور ڈیمچوک کے متنازعہ سرحدی علاقوں میں مرحلہ وار طریقے سے فوجیں پیچھے ہٹاںے، ان کی تعداد کم کرنے اور ایک بفر زون بنانے کے پہلوؤں پر اتفاق کر لیا ہے۔ لیکن انھیں اس کے لیے سیاسی قیادت کی منظوری کا انتظار ہے۔
یاد رہے کہ صدر شی جن پنگ 9 اور 10 ستمبر کو جی 20 کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے دلی جانے والے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اگر لداخ میں ایل اے سی سے فوجیں پیچھے ہٹانے کا کوئی سمجھوتہ طے پا گیا تو اس کا اعلان ان کے آنے سے پہلے کیا جا سکتا ہے۔
انڈیا کی اپوزیشن جماعتیں مودی حکومت پر لداخ کی اصل صورتحال کو چھپانے کا الزام لگاتی رہی ہیں۔
اُن کا الزام ہے کہ چینی افواج نے ایل اے سی پر انڈیا کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
جبکہ ناقدین کا ماننا ہے کہ حکومت نے چین سے کشیدگی کے سوال پر عموماً خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
چین سے سرحدی تنازعے کی بعد انڈیا کے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔ انڈیا میں چینی کمپنیوں پر کنٹرول رکھنے کے لیے سرمایہ کاری کی منظوری دینے کے لیے ایک علیحدہ حکومتی کمیٹی بنائی گئی۔
انڈیا میں جو بڑی بڑی کمپنیاں پہلے سے کام کر رہی تھیں ان کی توسیع اور ان میں مزید سرمایہ کاری وغیرہ کے لیے ضابطے مزید سخت کیے گئے تھے۔
چینی کمپنیوں کے ماہرین اور اہلکاروں کو ویزا ملنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ چینی مصنوعات کی درآمد پر بھاری ڈیوٹی عائد کر دی گئی لیکن جوہانسبرگ کی میٹنگ کے بعد دونوں ملکوں کے کشیدہ تعلقات میں نرمی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر دونوں ممالک نے سرحدی کشیدگی وقتی طور پر کم بھی کر لی تو بھی انھیں کسی نہ کسی مرحلے پر مشرق سے مغرب تک سرحدی تنازعے کا ایک حتمی حل نکالنا ہوگا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ دیرینہ تنازعہ دونوں ملکوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے جو وقتاً فوقتاً خطے میں کشیدگی کی شکل میں سامنے آتا رہتا ہے۔
’بات چیت ہونا ایک مثبت اشارہ ہے‘
چینی امور کی ماہر ڈاکٹر الکا آچاریہ کا کہنا ہے کہ اس مرحلے پر کوئی بھی بات صرف امکانات اور توقعات کے دائرے میں ہی دیکھی جانی چاہیے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب تک زمین پر کوئی تبدیلی نہیں ہوتی تب تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکتی۔ اس وقت انڈیا کے مطالبات اور چین کی پوزیشن میں بہت فرق ہے ۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’دونوں ملکوں کے رہنماؤں میں بات چیت ہونا ایک مثبت اشارہ ہے۔ لیکن سرحدی تنازعے کا حل تب ہی ہو سکتا ہے جب بات چیت کسی سمجھوتے کی طرف لے جائے۔‘
دلی یونیورسٹی میں چینی امور کی پروفیسر ڈاکٹر ریتوشا تیواری کا خیال ہے کہ جوہانس برگ میں صدر شی اور وزیراعظم مودی کی ملاقات دونوں ملکوں کے درمیان موجود کشیدہ تعلقات کے پس منظر میں یقیناً ایک مثبت اشارہ ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ بات قابل ذکر ہے کہ لداخ میں سرحدی تنازع کو حل کرنے کے لیے ملٹری کی سطح پر جو مذاکرات ہو رہے ہیں اس میں اگست کی بات چیت کے بعد ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا تھا جس میں بات چیت کے بارے دونوں جانب سے مثبت رویے کا اظہار کیا گیا تھا۔‘
’یہ بات بھی اہم ہے کہ دلی میں ستمبر کے اوائل میں جی -20 کے سربراہی اجلاس کے دوران بھی چین کے صدر اور انڈیا کے وزیر اعظم کے درمیان ملاقات ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ایک پیش رفت ہو گی۔‘
ڈاکٹر ریتوشا کہتی ہیں کہ گلوان کے تنازعے اور کووڈ کی وبا کے بعد چین کے خلاف عالمی سطح پر ایک منفی فضا بنی ہے۔ اس محاذ میں انڈیا سب سے بڑا ملک ہے۔ گلوان سے پہلے انڈیا چین کے خلاف نہیں تھا۔
انھوں نے مزید بتایا کہ چین کی معیشت اس وقت مشکلات سے گزر رہی ہے۔ اگر وہ انڈیا سے اپنے سرحدی تنازعات فوری ختم کرتے ہیں تو اس سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ختم ہو گی۔ یہ صورتحال اقتصادی طور پر چین کے لیے فائدہ مند ہو گی۔