کیا پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات میں تاخیر ہوسکتی ہے؟
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد تاحال صوبائی الیکشن کی تاریخوں کا حتمی اعلان نہیں ہوسکا جسے تحریک انصاف نے آئین شکنی کے مترادف قرار دیا ہے۔
اتوار کو لاہور میں عمران خان کی زمان پارک رہائش گاہ پر پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی اور پارلیمانی کمیٹی کے مشترکہ اجلاس میں ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا اور اس کے بعد چار قراردادیں بھی پاس کی گئیں۔
ان میں سے ایک قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان تحریک انصاف کی قیادت صدر مملکت اور افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر کی توجہ گورنر خیبر پختونخوا کے اس بیان کی جانب مبذول کرانا چاہتی ہے کہ پختونخوا اسمبلی کے انتخاب کی تاریخ ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دی جائے گی۔‘
’پاکستان تحریک انصاف صدر مملکت سے ملکی سیاسی معاملات میں انٹیلی جنس ایجنسیز اور مقتدرہ کے دیگر حصوں کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے فوری نوٹس کا مطالبہ کرتی ہے۔‘
کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر حکومت 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد نہیں کرتی تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔
’مقننہ کی تحلیل کے بعد 90 دن کے اندر ہر صورت انتخابات کے انعقاد کا پابند بناتا ہے اور اس مدت میں ایک گھنٹے کا اضافہ بھی ممکن نہیں۔‘
اس سے قبل عمران خان بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر 90 دن میں انتخابات نہ ہوئے تو پھر (حکمرانوں پر) آرٹیکل 6 لگے گا۔
تاہم وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے آئینی مدت تو 90 روز ہے تاہم ماضی میں الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخ میں تبدیلی کی مثالیں موجود ہیں۔
جہاں ان انتخابات کی تاریخ سے متعلق کشمکش موجود ہے تو وہیں ماہرین کے مطابق آئین حکومت کو ہر صورت 90 روز کے اندر انتخابات کےانعقاد کا پابند بناتا ہے۔ تاہم ان کے مطابق غیرمعمولی حالات میں اس قانون کی خلاف ورزی کی نظیریں بھی موجود ہیں۔
کیا الیکشن میں تاخیر کی خبروں میں کوئی صداقت ہے؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنروں کو سفارش بھیجی ہے کہ پنجاب میں 9 سے 13 اپریل جبکہ خیبر پختونخوا میں 15 سے 17 اپریل کے درمیان انتخابات کرائے جائیں۔
الیکشن کمیشن کی سفارش کے مطابق پنجاب اسمبلی 14 جنوری کو تحلیل کی گئی۔ اسمبلی تحلیل کی صورت میں الیکشن کمیشن 90 روز میں انتخابات کرانے کا پابند ہے۔ آرٹیکل 105 کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا گورنر کا آئینی اختیار ہے۔ تاہم انتخابات کی تاریخ کے لیے الیکشن کمیشن سے مشاورت ضروری ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ’گورنر کی جانب سے تاریخ دینے کے بعد الیکشن کمیشن سات روز کے اندر پروگرام جاری کرنے کا پابند ہے۔‘
سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو الیکشن پروگرام مکمل کرنے کے لیے 54 دن درکار ہیں۔
دونوں صوبوں کے گورنرز نے ابھی تک الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ البتہ مقامی میڈیا میں دونوں کے بیانات سامنے آئے ہیں جن سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ گورنر بھی 90 روز کے اندر انتخابات کے حق میں نہیں ہیں۔ اس کی وجہ مردم شماری اور لا اینڈ آرڈر کو بتایا گیا ہے۔
گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ ان کے پاس تین سے چار سو مشران (قبائلی عمائدین) کا جرگہ آیا تھا۔
’انھوں نے کہا کہ دو تین ماہ بعد الیکشن کا انعقاد کریں اور ہماری مردم شماری ضرور کریں کیونکہ اس سے ہماری سیٹیں بڑھ جائیں گی۔‘
گورنر نے کہا کہ ’اب اگر ایک ضم ہونے والا صوبہ کہے کہ ہم یہ (مردم شماری کے بغیر الیکشن) نہیں مانتے ہیں۔ اور اگر انٹیلی جنس ادارے لکھ کر دے دیں تو کیا کرو گے۔‘ انھوں نے انٹیلی جنس اداروں کی تجویز کے ذکر کے بعد پولیس چیک پوسٹوں پر ہونے والے حملوں کا بھی ذکر کیا۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن یہ پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ اگر مردم شماری ہو گی تو پھر نئی حلقہ بندیوں کے لیے چھ ماہ کا عرصہ درکار ہو گا۔
سیکریٹری الیکشن کمشین نے بی بی سی کو بتایا کہ کمیشن نے اپنی سفارشات بھیج دی ہیں اور اب یہ گورنروں کا دائرہ اختیار بنتا ہے کہ وہ الیکشن کی کیا تاریخ دیتے ہیں اور 90 دن کب سے شمار کرتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے سیکریٹری کے مطابق ’کمیشن نے اپنا کام کر دیا ہے اور اب ایسا کوئی میکنزم نہیں ہے کہ دوبارہ اس حوالے سے کوئی عمل کیا جائے۔ ان کی رائے میں کمیشن زیادہ سے زیادہ تحریری یاد دہانی کرا سکتا ہے۔‘
بی بی سی نے دونوں صوبائی گورنروں سے ان کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا۔ تاہم انھوں نے بھیجے گئے پیغامات پر کوئی جواب نہیں دیا۔
کیا الیکشن میں تاخیر ممکن بھی ہے؟
وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں یاد ہے کہ دو بار ایسا ہوا ہے کہ غیرمعمولی حالات کو وجہ بتا کر انتخابات ملتوی کیے گئے ہیں۔
ان کے مطابق ایک بار 2007 میں جب سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا اور دوسری بار سنہ 1988 میں جب ملک میں سیلاب آیا تھا۔ ان کے مطابق بے نظیر کے قتل کے بعد الیکشن کمیشن نے خود انتخابات میں التوا کا اعلان کیا تھا کیونکہ ملک میں کمیشن کی عمارات جلا دی گئی تھیں اور حالات الیکشن کے لیے سازگار نہیں تھے۔
الیکشن کمیشن کی دستاویزات کے مطابق سنہ 1988 میں فوجی صدر ضیاالحق نے اپنے قوم سے خطاب میں ملک میں عام انتخابات کے لیے 16 نومبر 1988 کی تاریخ دی تھی۔ یہ تاریخ 90 دن کی مدت سے زائد ضرور تھی مگر سیلاب یا ضیاالحق کے طیارہ حادثے کی وجہ سے الیکشن ملتوی نہیں ہوئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے 16 نومبر کو قومی اسمبلی اور اس کے تین روز بعد صوبائی اسمبلی کے انتخابات کروائے تھے۔
الیکشن میں تاخیر کے امکان سے متعلق وزیرقانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ آئین میں الیکشن 90 دن کے اندر کرانے کی پابندی ہے۔ تاہم ان کے مطابق ’ٹائم فریم‘ والے معاملات میں تاریخیں اوپر نیچے ہو جاتی ہیں اور اس حوالے سے گنجائش موجود ہے۔
ان کے مطابق آئین بنانے والوں نے تو یہ سوچ کر بنایا تھا کہ اس کا استعمال کرنے والے بڑے سمجھدار لوگ ہوں گے مگر وہ کہتے ہیں کہ یہاں تو عدم اعتماد جیسے معاملات بھی عدالتوں میں چلے جاتے ہیں۔
وزیر قانون کے مطابق آئین میں لکھا ہے کہ ’صدر مملکت 15 دن میں اجلاس طلب کریں گے مگر جب وہ ایسا نہیں کرتے تو اس سے کوئی بڑا مسئلہ بھی پیدا نہیں ہوتا۔‘
مسرت قدیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کی چیئرپرسن ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ آئین کے تحت الیکشن 90 دن کے اندر ہونا ضروری ہیں۔ ان کے مطابق آئین میں ایسی کوئی شق نہیں ہے کہ انتخابات کو غیرمعمولی حالات کے بغیر ہی ملتوی کر دیا جائے۔
وہ وزیر قانون کی اس رائے سے متفق ہیں کہ سنہ 2007 میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی اچانک موت کی وجہ سے انتخابات ملتوی کیے گئے تھے مگر ان کے مطابق وہ التوا بھی صرف ایک ماہ تک کے لیے تھا۔ ان کی رائے میں حکومت یا صوبائی حکومتوں کو الیکشن کا شیڈول جاری کرنا ہوتا ہے جو ابھی تک جاری نہیں ہو سکا ہے۔
عنبرین عجائب ’بیداری‘ نامی ایک ادارے کی چیف ایگزیکٹو ہیں۔ ان کی رائے میں بھی الیکشن 90 دن کے اندر کرایا جانا آئینی تقاضا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ملک میں ایسی بھی مثالیں موجود ہیں کہ کسی بات کی جب گنجائش نہ بن رہی ہو تو پھر آرڈینینس یا کسی پالیسی کا سہارا لیا جاتا ہے۔
تاہم عنبرین عجائب کے مطابق اس طرح سے بھی کی جانے والی تاریخ غیر معینہ مدت کے لیے نہیں ہو سکتی ہے۔
’ہچکچاہٹ کی وجہ صوبائی اور عام انتخابات میں زیادہ وقفہ بھی ہے‘
انتخابی اصلاحات سے متعلق امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہر احمد بلال محبوب کے مطابق اگر سنہ 2007 جیسی کوئی صورتحال ہو گی تو الیکشن کے التوا کے لیے سہارا لیا جا سکتا ہے۔
ان کی رائے میں اب اگر انتخابات میں تاخیر ہوئی تو معاملہ عدالت میں جائے گا۔
احمد بلال محبوب کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017 میں واضح لکھا ہے کہ آئین کے متوازی کوئی اور پالیسی نہیں بنائی جا سکتی ہے اور اس ایکٹ کے تضاد میں کچھ نہیں لایا جا سکتا ہے۔
تاہم ان کے مطابق اس وقت فوری صوبائی انتخابات کی تاریخ دینے میں ہچکچاہٹ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد بھی ایک ہی وقت پر ممکن بنایا جا سکے۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں کے مؤقف سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت 90 دن میں الیکشن نہیں کراتی تو یہ آئین کی خلاف ورزی تو ہو سکتی ہے مگر یہ غداری نہیں ہے اور نہ اس پر آرٹیکل 6 کا اطلاق ہوتا ہے۔