کیا صدر کے دستخط کے بغیر کوئی بل قانون بن سکتا ہے؟
پاکستان کے صدر عارف علوی کے ایک حالیہ بیان کے بعد یہ معاملہ زیر بحث ہے کہ اب متنازع آفیشل سیکرٹس ایکٹ اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کا سٹیٹس کیا ہے؟
یہی سب سے بڑا سوال ہے کہ آیا دونوں ایوانوں سے منظور یہ بل صدر کے دستخط کے بغیر قانون بن گئے ہیں یا نہیں۔
پاکستان میں قانون سازی کے لیے کیا صدر کے دستخط ہونا ضروری ہیں اور اگر صدر کوئی بھی قانونی راستہ اختیار نہ کریں تو کیا کوئی بل خود ہی قانون بن جاتا ہے؟
ان سوالوں کا جواب دینے سے پہلے ذرا یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ایوانِ صدر میں ایک فائل آخر چلتی کیسے ہے۔
خیال رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ انھوں نے دونوں بلوں پر دستخط نہیں کیے بلکہ انھیں واپس بھجوا دیا تھا۔ انھوں نے صدارتی عملے پر حکم عدولی کا الزام لگایا تاہم وزارت قانون نے بلز پر کارروائی میں تاخیر پر صدر کو خود ذمہ دار قرار دیا ہے۔
ایوان صدر کیسے کام کرتا ہے؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایوانِ صدر سے وابستہ رہنے والے ایک سابق افسر نے بتایا ہے کہ پرائم منسٹر ہاؤس اور پریزیڈنسی یعنی ایوانِ صدر کا سٹاف دو ڈپارٹمنٹس میں منقسم ہوتا ہے۔
ان میں سے پہلا ڈپارٹمنٹ ’انٹرنل ونگ‘ کہلاتا ہے جس کی سربراہی صدر اور وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری کرتا ہے۔ ملٹری سیکرٹری عموماً ایک ون سٹار فوجی افسر ہوتا ہے، جسے بریگیڈیئر کہا جاتا ہے۔
ملٹری سیکرٹری کے ماتحت ڈپٹی ملٹری سیکرٹری اور ان کے ماتحت تین اے ڈی سیز ہوتے ہیں جو تینوں مسلح افواج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے ماتحت ایک ٹیم سکیورٹی افسران و عملہ اور ایک ٹیم پروٹوکول آفیسرز اور عملے پر مشتمل ہوتی ہے۔
انٹرنل ونگ کا کام صدر کے ذاتی امور چلانا، ان کی سکیورٹی، اندرونِ ملک اور بیرونِ دورے اور ملاقاتیں وغیرہ منظم رکھنا ہوتا ہے۔
ایوان صدر کی دوسری ونگ کی سربراہی سینیئر ترین بیورکریٹ افسر یعنی سیکرٹری ٹو پریذیڈنٹ کرتے ہیں۔ یہ 21ویں گریڈ کے سرکاری افسر ہوتے ہیں۔ ان کے ماتحت ایک مکمل سیکرٹریٹ ہوتا ہے جس میں ایڈیشنل سیکرٹریز، جوائنٹ سیکرٹریز، ڈپٹی سیکرٹریز اور دیگر دفتری عملہ شامل ہوتا ہے۔
کسی بھی قسم کی فائل جس پر صدرِ مملکت کے دستخط یا منظوری چاہیے ہو وہ سب سے پہلے ایوان صدر کے سٹاف میں شامل سیکشن آفیسر کے پاس پہنچتی ہے جو ان افسران کی فہرست میں سب سے آخر میں آتے ہیں۔
سیکشن آفیسر اس فائل کا جائزہ لیتے ہیں۔ اب اس فائل میں دائیں جانب اس درخواست، ایکٹ کا متن درج ہوتا ہے اور اس کی تمام تر دستاویزات نتھی کی جاتی ہیں۔
اس فائل کی بائیں جانب منٹ شیٹ یا نوٹس فار کانسیڈریشن (این ایف سی) چسپاں کیا جاتا ہے، جہاں سیکشن آفیسر اس فائل سے متعلق مختصر انداز میں لکھتے ہیں کہ یہ فلاں فائل ہے جو قومی اسمبلی، سینیٹ یا فلاں وزارت سے آئی ہے اور یوں اسے اپروول کے لیے اسسٹنٹ سیکرٹری کو بھیج دیا جاتا ہے۔
یہاں سے فائل جوائنٹ سیکرٹری، پھر ڈپٹی سیکرٹری اور پھر سیکرٹری ٹو پریذیڈینٹ کے پاس پہنچتی ہے جو یہ فائل صدر کے پاس لے جاتے ہیں۔ ان تمام مراحل کے دوران اس فائل پر نوٹس لکھے جاتے ہیں، اس کو جانچا جاتا ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی کمی کی صورت میں وہ پوری کی جاتی ہے یا متعلقہ وزارت کو واپس بھجوائی جاتی ہے۔
صدر کے پاس پہنچنے کے بعد اگر وہ اس پر تصدیق کی مہر ثبت کر دیں تو کام مکمل ہو جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو وہ ’ڈس اپروول‘ کے ساتھ واپس بھیجی جاتی ہے۔
کسی بھی فائل کی واپسی بھی اسی چین آف کمانڈ کے تحت ہوتی ہے جس سے وہ پہلے صدر کے دفتر تک پہنچی تھی۔ سیکشن آفیسر فائل واپس ملنے پر اعتراضات کے ساتھ اسے متعلقہ ادارے، محکمے، وزارت یا پارلیمنٹ بھیج دیتے ہیں۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور بلز کیسے صدر کے پاس پہنچتے ہیں؟
وزارتوں یا دیگر اداروں سے صدر کے پاس دستخط کے لیے پہنچنے والی فائلز میں کئی ٹیکنیکل مسائل ہوسکتے ہیں جنھیں پورا کرنے کے لیے ایوان صدر کے عملے اور متعلقہ وزارتوں کے درمیان خط و کتابت جاری رہتی ہے۔
البتہ قومی اسمبلی یا سینیٹ سے پارلیمانی امور کا ذیلی محکمہ متعلقہ بل کو پہلے پرائم منسٹر ہاؤس بھیجتا ہے جہاں سے یہ بل صدر کو بھیجا جاتا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 75 میں کسی بھی بل پر صدر کے دستخط ہونے اور نہ ہونے کی صورت میں لائحہ عمل درج ہے۔ آئین کے اس آرٹیکل کے مطابق صدر کے پاس جب بھی کوئی بل جاتا ہے تو ان کے پاس دو راستے ہیں، ایک تو یہ کہ وہ اس بل کو منظور کرتے ہوئے اس پر دستخط کر دیں اور یوں یہ ایکٹ ایک قانون بن جاتا ہے۔
دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ اس پر دستخط نہ کریں اور اسے ترامیم کی درخواست کے ساتھ واپس پارلیمان بھیج دیں۔
خیال رہے کہ یہ سب کرنے کے لیے صدر کے پاس 10 دن کا وقت ہوتا ہے۔ اور مَنی بل کے علاوہ کوئی بھی بل واپس بھجوایا جا سکتا ہے۔
اسی شق میں آگے چل کر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب صدر یہ بل دستخط کے بغیر واپس بھیج دیں تو یہ بل اب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا جہاں اس پر مزید بحث ہوگی۔
اکثریتی ووٹ سے منظور ہونے کے بعد اب یہ بل ایک بار پھر وزیراعظم ہاؤس سے ہوتا ہوا ایوان صدر پہنچے گا۔ مشترکہ اجلاس سے آنے والے اس بل پر صدر کو دس دن کے اندر دستخط کرنا ہوتے ہیں اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں 10 دن کے بعد یہ بل خودبخود ہی قانون میں تبدیل ہوجاتا ہے اور صدر کے دستخط کی ضرورت نہیں رہتی۔
کیا صدر کے دستخط کے بغیر کوئی بل قانون بن جاتا ہے؟
اس وقت یہی وہ اہم نقطہ ہے جس پر بحث کی جارہی ہے۔
پارلیمانی امور پر نظر رکھنے والی سینیئر صحافی نوشین یوسف کہتی ہیں کہ اس معاملے پر آئین خاموش ہے کہ مشترکہ اجلاس میں بل واپس نہ جانے کی صورت میں آیا یہ قانون بن جائے گا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہاں آئین میں کچھ کنفیوژن ہے۔ جب صدر بل پر دستخط کریں یا واپس بھیجیں تو دس دن میں مشترکہ اجلاس بلانا لازم ہے۔
’آئین اس پر تو واضح ہے کہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد یہ بل صدر کے دستخط نہ ہونے کی صورت میں بھی خود بخود قانون بن جائے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ ایسا صرف مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد ہوگا۔ لیکن اگر مشترکہ اجلاس میں یہ بل پیش ہی نہیں ہوا تو کیا تب بھی یہ قانون کی شکل اختیار کر سکتا ہے، اس پر آئین خاموش ہے۔‘
واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 75 کی شق دو دراصل شق اول کے سب کلاز بی سے متعلق ہے جو صدر کی جانب سے بل کی واپسی اور اس کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش ہونے کے بارے میں ہے۔
نگراں وزیر قانون احمد عرفان اسلم کے مطابق صدر مملکت کی طرف سے دونوں بلز پر کوئی قانونی راستہ اختیار نہ کرنے کی وجہ سے اب یہ دونوں ترمیمی بلز قانون بن گئے ہیں۔
تاہم سابق وفاقی وزیر قانون علی ظفر نگراں وزیر قانون کی رائے سے متفق نہیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر صدر غلطی سے بھی کوئی قانونی راستہ اختیار نہ کریں تو بھی یہ بل قانون نہیں بن جاتا جب تک کہ اسے دوبارہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے سامنے پیش نہ کیا جائے۔
ان کے مطابق مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد اگر صدر 10 دن تک کوئی بھی قانونی رستہ اختیار نہ کریں تو پھر ایسی صورت میں وہ بل قانون بن جاتا ہے۔
آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹس ایکٹ میں ترامیم قانون بن گئیں یا نہیں؟
نگراں وزیر قانون احمد عرفان اسلم نے کہا ہے کہ صدر عارف علوی نے دونوں ایوانوں سے منظور آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹس ایکٹ میں ترامیم پر ’کوئی راستہ اختیار نہیں کیا‘ لہذا دونوں بلز اب قانون بن چکے ہیں۔
تاہم علی ظفر کے مطابق ابھی نگراں حکومت ان بلز کو قانون نہیں بنا سکتی۔ ان کے مطابق عام انتخابات کے بعد جو پارلیمنٹ معرض وجود میں آئے گی اب یہ بلز اس پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے سامنے پیش کیے جا سکیں گے اور پھر اگر صدر دستخط نہ بھی کریں تو یہ پارلیمانی منظوری کے بعد 10 دن بعد قانون بن جائے گا۔
آئینی اور انتخابی امور کے ماہر احمد بلال محبوب نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ایوان صدر کے عملے نے بل دستخط کر کے بھیج دیے ہیں یا ویسے ہی وقت پورا ہونے پر یہ فرض کر لیا گیا کہ منظوری ہوچکی ہے۔
ان کے مطابق ابھی یہ وضاحت باقی ہے کہ کیا یہ صدر کی حکم عدولی ہوئی ہے یا عملے نے غیر قانونی طور پر دستخط کر کے جعل سازی کی ہے۔ ان کے مطابق اگر جعل سازی ہوئی ہے تو پھر صدر کو ’خدا سے معافی مانگنے کے بجائے قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔‘
رواں سال کے آغاز میں سلمان اکرم راجہ نے اس بارے میں نامہ نگار اعظم خان سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ویسے تو خیال یہی کیا جاتا ہے کہ صدر کا عہدہ محض ایک ’ڈاکخانہ‘ ہے مگر ان کو حاصل آئینی اختیارات پر اگر نظر دوڑائی جاتے تو وہ حکومت کے کئی ضروری معاملات کو مختصر مدت کے لیے لٹکا سکتے ہیں اور اہم فیصلوں میں تاخیر کا سبب بن سکتے ہیں۔
سلمان اکرم راجہ کے مطابق آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت جب صدر کے پاس منظوری کے لیے کوئی بل بھیجا جاتا ہے تو وہ دس دن تک اس پر اپنی رائے دینے کا اختیار رکھتے ہیں، اور منی بل (بجٹ) کے علاوہ 10 دن بعد بھی صدر پاکستان اس بل کو واپس بھیج سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں قانون سازی کی منظوری کے لیے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانا ضروری ہو جاتا ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے یہ مثال دی کہ کسی بل کی منظوری میں تحریک انصاف کے سینیٹ میں ارکان مشترکہ اجلاس میں مزید تاخیر کا سبب بن سکتے ہیں۔ ’اگر مشترکہ اجلاس منعقد ہو بھی جائے تو ایسی صورت میں بل کی سادہ اکثریت سے منظوری سے قبل وہ طویل تقریروں کے ذریعے ایسے اجلاس کو مزید طوالت دے سکتے ہیں۔‘
ان کے مطابق اگر حکومت کسی اور جماعت کی ہی ہو تو پھر صدر کا عہدہ مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر زلفی بخاری نے کہا ہے کہ تحریک انصاف اب اس معاملے پر سپریم کورٹ کا رُخ کرے گی۔