کیا شہزاد اکبر کی درخواست پر جہانگیر ترین گروپ کے نذیر چوہان کے خلاف ہتکِ عزت کا مقدمہ مصالحت کی کوششوں کو دھچکہ ہے؟
پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے احتساب اور مشیرِ داخلہ شہزاد اکبر کی درخواست پر جہانگیر ترین گروپ کے ممبر صوبائی اسمبلی پنجاب نذیر چوہان کے خلاف لاہور میں ہتکِ عزت مقدمہ درج ہو چکا ہے۔
شہزاد اکبر نے 20 مئی کو تھانہ ریس کورس میں درخواست دائر کی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ نذیر چوہان نے ایک نیوزچینل کے پروگرام کے دوران ان پر بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں۔
شہزاد اکبر کی جانب سے یہ مقدمہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب دونوں اطراف سے مصالحت کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ یہ معاملہ اتنی آسانی سے حل ہونے والا نہیں ہے اور اس میں وقتاً فوقتاً پیش رفت سامنے آتی رہیں گی۔
رکنِ صوبائی اسمبلی نذیر چوہان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ شہزاد اکبر نے ان کے الزامات کا جواب نہیں دیا اور وہ گرفتاری دینے کے لیے تیار ہیں۔ نذیر چوہان نے الزام عائد کیا کہ شہزاد اکبر پارٹی کے معاملات کو خراب کر رہے ہیں۔
تحریکِ انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے حامی ارکانِ اسمبلی کے گروپ کی جانب سے اسمبلیوں میں الگ پارلیمانی نمائندوں کی نامزدگی کے بعد سے جماعت کے اندر دھڑے بندی کی باتیں کئی روز زیرِ بحث رہی لیکن ان خبروں کے بعد یہ بھی سننے میں آیا کہ دونوں دھڑوں کے درمیان صلح صفائی کرانے اور اختلافات کو دور کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔
تو پھر اس صلح کا کیا بنا؟
پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت دونوں گروپوں کو مزید اختلافات کی طرف بڑھنے سے روکنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔
جبکہ وزیرِ اعظم عمران خان کی طرف سے بھی ترین گروپ کی جوڑ توڑ ہونے سے پہلے ہونے والی ملاقاتوں کا بھی کوئی معنی خیز نتیجہ نہیں نکل پایا۔
پی ٹی آئی اور ترین گروپ کے درمیان مصالحت کے بارے میں عارف نظامی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ مصالحت تو آرمی چیف ہی کروا سکتے ہیں یا پھر عارف علوی صاحب کیونکہ ان کے علاوہ کوئی اور نام ذہن میں نہیں آتا۔‘
اس سے پہلے بھی سیاسی حلقوں میں یہ کہا جا رہا تھا کہ بات بگڑنے نہ دی جائے لیکن لاہور کے کیس کی ہی اگر مثال لیں تو اب فواد چوہدری اورتحریکِ انصاف کے دیگر رہنما بھی اس جھگڑے میں بڑھ چڑھ کر اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
دوسری جانب عارف نظامی نے سوال کیا کہ ’شہزاد اکبر کیسے کسی پر ہتکِ عزت کا دعویٰ کرسکتے ہیں؟ ایسے تو ان کے اپنے اوپر کتنے پرچے صرف مسلم لیگ نواز کی جانب سے ہو سکتے ہیں۔‘
عارف نظامی نے کہا کہ سینیٹر بیرسٹر علی ظفر کا ایف آئی اے کیس کا تحقیقاتی جائزہ، جس میں انھوں نے جہانگیر ترین کو چینی کی قیمتوں پر سٹہ لگانے کے الزامات سے بری الزماں قرار دیا ہے، یہ معاملہ بھی متنازعہ بن چکا ہے۔
واضح رہے کہ بیرسٹر علی ظفر نے حال ہی میں مشیرِ داخلہ شہزاد اکبر اور جہانگیر ترین کو چینی کی تحقیقات پر مکمل بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ایف آئی اے لاہور کی جانب سے جہانگیر ترین پر لگائے گئے الزامات ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔
اس کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے ممبر قومی اسمبلی راجہ ریاض نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ بیرسٹر ظفر نے معاملہ سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے حوالے کرنے کی تجویز دی ہے۔
عارف نظامی نے کہا کہ ’یہ معاملہ بھی آگے جا کر دبا دیا جائے گا اور مصالحت کی باتیں صرف باتیں ہی رہ جایئں گی۔