کیا بنگلہ دیش میں ہونے والے عام انتخابات ’ون وومین شو‘ بن گئے ہیں؟
بنگلہ دیش میں 7 جنوری کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں جن کے نتائج پہلے ہی ناگزیر دکھائی دینے لگے ہیں۔
حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں کی جانب سے انتخابات کا بائیکاٹ اور ان کے کئی رہنماؤں کو جیل بھیجنے کے بعد حکمراں جماعت عوامی لیگ مسلسل چوتھی بار پارلیمانی مدت کے لیے دوبارہ انتخاب لڑنے اور ان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے تیاری مکمل کیے ہوئے ہے۔
حزب اختلاف کی ان جماعتوں میں سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اس کے اتحادیوں کا یہ کہنا ہے کہ انھیں اس بات کا یقین ہے کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات نہیں ہونے دیں گی۔
بی این پی کی جانب سے وزیر اعظم شیخ حسینہ سے استعفیٰ دینے اور غیر جانبدار عبوری حکومت کے تحت انتخابات کروانے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا لیکن انھوں نے اس مطالبے کو مسترد کردیا۔
بی این پی کے سینیئر رہنما عبدالمعین خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بنگلہ دیش میں جمہوریت مر چکی ہے۔ ہم جنوری میں جو کچھ دیکھنے جا رہے ہیں وہ جعلی انتخابات ہیں۔‘
انھوں نے آنے والے دنوں میں مُلک میں ہونے والے انتخابات سے متعلط اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مُلک کی موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے حکومت چلانے کا انداز گزشتہ برسوں کے دوران تیزی سے آمرانہ سوچ کی جانب جاتے دیکھائی دے رہا ہے۔
ناقدین سوال کرتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری ان کی انتظامیہ کو جوابدہ بنانے کے لیے مزید اقدامات کیوں نہیں کر رہی تاہم شیخ حسینہ کی حکومت ان الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے کہ اُن کا کام کرنے کا انداز غیر جمہوری ہے۔
بنگلہ دیش کے موجودہ وزیرِ قانون انیس الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انتخابات کا تعین عوام کی شرکت سے ہوتا ہے۔ ان انتخابات میں بی این پی کے علاوہ کئی اور سیاسی جماعتیں بھی حصہ لے رہی ہیں۔‘
بنگلہ دیش میں معاشی ترقی
شیخ حسینہ کی قیادت میں مسلم اکثریت کے حامل اس ملک نے، جو کبھی دنیا کے غریب ترین ممالک کی فہرست میں شامل تھا، نے 2009 سے قابل اعتماد معاشی کامیابی حاصل کی اور ایک مستحکم معیشت کے طور پر سامنے آیا ہے۔
تاہم اب تو یہ بھی کہا اور مانا جاتا ہے کہ یہ اب اس خطے میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک ہے، یہاں تک کہ بنگلہ دیش نے تو اب اپنے بڑے ہمسایہ ملک انڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
گزشتہ دہائی میں اس کی فی کس آمدنی میں تین گنا اضافہ ہوا اور عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ گزشتہ 20 سال میں 25 ملین سے زیادہ افراد کو غربت سے نکالا گیا۔
ملک کے اپنے فنڈز، قرضوں اور ترقیاتی امداد کا استعمال کرتے ہوئے، حسینہ واجد کی حکومت نے بڑے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے شروع کیے ہیں، جن میں 2.9 ارب ڈالر کا اہم پدما پل بھی شامل ہے۔ صرف اس پل سے جی ڈی پی میں 1.23 فیصد اضافہ متوقع ہے۔
لیکن وبائی مرض کے پیش نظر، بنگلہ دیش میں بھی اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے حکومت کو مُشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا رہا ہے کہ گزشتہ سال (2023) نومبر میں افراط زر کی شرح تقریبا 9.5 فیصد تھی۔
بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر اگست 2021 میں ریکارڈ 48 ارب ڈالر سے کم ہو کر اب تقریبا 20 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جو تین ماہ کی درآمدات کے لیے ناکافی ہیں۔ 2016 کے بعد سے بنگلہ دیش کا غیر ملکی قرضہ بھی دوگنا ہو چُکا ہے۔
ناقدین کا الزام ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت میں ان کے سیاسی مخالفین، ناقدین اور میڈیا کے خلاف جابرانہ اور آمرانہ اقدامات کیے گئے ہیں۔
اگست میں سابق امریکی صدر براک اوباما، ورجن گروپ کے بانی رچرڈ برینسن اور یو ٹو کے معروف گلوکار بونو سمیت 170 سے زائد عالمی شخصیات نے حسینہ واجد کو ایک کھلا خط لکھا تھا جس میں انھوں نے نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو ’مسلسل عدالتی کارروائیوں میں ملوث اور ہراساں‘ کرنے سے روکنے پر زور دیا تھا۔
اور حالیہ مہینوں میں، حکومت مخالف مظاہروں کے بعد بی این پی کے کئی سینیئر رہنماؤں کو ہزاروں حامیوں کے ساتھ گرفتار بھی کیا گیا۔
عبد المعین خان، جو بی این پی کے ان چند سینیئر رہنماؤں میں سے ایک ہیں، جنھیں گرفتار نہیں کیا گیا، نے الزام عائد کیا ہے کہ پارٹی کے 20 ہزار سے زائد حامیوں کو ’فرضی اور من گھڑت الزامات‘ کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا جبکہ پارٹی کے لاکھوں کارکنوں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں۔
تاہم شیخ حسینہ واجد کی حکومت ان الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے۔
بی این پی کی جانب سے حراست میں لیے گئے اپنے حامیوں کی تعداد کا حوالہ دیتے ہوئے وزیرِ قانون کا کہنا ہے کہ ’میں نے ان الزامات کی تحقیقات کروائی ہیں اور ہمارے سامنے یہ بات آئی ہے کہ حزبِ مخالف کی جانب سے بتائی جانے والی یہ تعداد نصف سے بھی کم ہے۔ ان میں سے کچھ واقعات 2001 اور 2014 کے انتخابات کے دوران ہونے والے پرتشدد واقعات سے متعلق ہیں۔‘
تاہم، اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ حسینہ واجد کے دور میں سیاسی محرکات پر مبنی گرفتاریوں، گمشدگیوں، قتل اور دیگر زیادتیوں میں اضافہ ہوا۔ ہیومن رائٹس واچ نے حال ہی میں حزب اختلاف کے حامیوں کی گرفتاریوں کو حکومت کی طرف سے ’پرتشدد آمرانہ کریک ڈاؤن‘ قرار دیا تھا۔
یہ ایک ایسے رہنما کے لیے ایک قابلِ ذکر تبدیلی ہے جنھوں نے کبھی مُلک میں حقیقی جمہوریت کے لیے جدوجہد کی تھی۔
1980 کی دہائی میں شیخ حسینہ نے جنرل حسین محمد ارشاد کے دورِ حکومت میں جمہوریت کے حق میں سڑکوں پر احتجاج کرنے کے لیے اپنی سخت حریف بیگم خالدہ ضیا سمیت دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ ہاتھ ملایا۔
ملک کے بانی رہنما شیخ مجیب الرحمٰن کی سب سے بڑی بیٹی حسینہ واجد 1996 میں ہونے والے کثیر الجماعتی انتخابات میں پہلی بار اقتدار میں آئی تھیں۔ اس کے بعد انھیں 2001 کے انتخابات میں خالدہ ضیا کی زیرِ قیادت بی این پی سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
مقامی طور پر ان دونوں خواتین کو ’مقابلہ کرتی بیگمات‘ کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ ’بیگم‘ سے مراد ایک اعلیٰ عہدے کی مسلمان خاتون ہے۔
بیگم ضیا اب بدعنوانی کے الزامات میں نظر بند ہیں اور طبی طور پر انھیں متعدد پیچیدگیوں کا سامنا ہے اور بی این پی کی متحرک قیادت کے نہ ہونے کی وجہ سے پارٹی کو مشکلات کا سامنا ہے۔
حزب اختلاف کے رہنماؤں اور حامیوں کی منظم گرفتاری اور سزا سے اس میں مزید اضافہ ہوا۔ بہت سے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ عوامی لیگ نے انتخابات سے قبل بی این پی کو اپاہج یا مفلوج کرنے کے لیے جان بوجھ کر ایسی حکمتِ عملی اپنائی۔
سید میاں کی طرح بی این پی کے بہت سے حامی ظلم و ستم سے بچنے کے لیے رو پوش ہو گئے ہیں۔ 28 سالہ نوجوان، جن کا نام ہم نے شناخت کی حفاظت کے لیے بدل دیا، نے ستمبر میں ایک سیاسی احتجاج میں حصہ لینے کی وجہ سے ایک مہینہ جیل میں گزارا تھا۔
سید میاں سے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ فی الحال ایک نامعلوم مقام پر اپنی پارٹی کے تین ساتھیوں کے ساتھ ایک خیمے میں رہتے ہیں۔ وہ سبھی تشدد اور دیگر جرائم میں مطلوب ہیں جن پر ایک ریلی کے دوران لوگوں کو تشدد پر اُکسانے کا الزام ہے۔
سید میاں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں روپوش ہوئے ایک مہینے سے زیادہ کا وقت گُزر چُکا ہے اور ہم گرفتاری کے ڈر سے اپنے ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں۔ ہم پر لگائے جانے والے الزامات اور ہم پر بنائے جانے والے تمام تر مقدمات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔‘
بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی موجودہ بگڑتی ہوئی صورتحال نے بین الاقوامی اداروں میں تشویش پیدا کردی ہے۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر میں ایشیا بحرالکاہل کے سربراہ روری منگوون نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں اور اُن کے رہنماؤں کے خلاف بنائے جانے والے مقدمات اور اُن پر لگائے جانے والے الزامات کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مُشکل نہیں کہ مُلک میں حالات کس جانب جا رہے ہیں۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’بنگلہ دیش کے حالات کو دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی بھی پُر تشدد واقعے کے خلاف کارووائی نہیں بلکہ حزب اختلاف کو دباؤ میں لانے کی ایک منظم کوشش ہے۔‘
نومبر میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں کے ایک گروپ نے بھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں پر حملوں کے لیے عدالتی نظام کو ہتھیار بنانا عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرتا ہے اور بنیادی انسانی حقوق کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔‘
لیکن وزیر قانون حق کا کہنا ہے کہ ’حکومت کا عدالتوں سے کوئی لینا دینا نہیں، ملک میں عدلیہ بالکل آزاد ہے۔‘
یہ صرف گرفتاریوں اور سزاؤں کی حیرت انگیز تعداد نہیں جو انسانی حقوق کے گروہوں کو پریشان کرتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انھوں نے سنہ 2009 سے اب تک سکیورٹی فورسز کی جانب سے جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے سینکڑوں واقعات کو دستاویزی شکل دی ہے۔
حکومت ان دعووں کی سختی سے تردید کرتی ہے کہ اس طرح کی زیادتیوں کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے، لیکن وہ غیر ملکی صحافیوں کے دوروں پر بھی سختی سے پابندی عائد کرتی ہے جو اس طرح کے الزامات کی تحقیقات کرنا چاہتے ہیں۔ زیادہ تر مقامی صحافیوں نے اپنی حفاظت کے خوف سے اس طرح کے معاملات کو دیکھنا بند کر دیا ہے اور اب وہ ان کارروائیوں سے متعلق حقائق رپورٹ بھی نہیں کرتے۔
2021 کے بعد سے ماورائے عدالت ہلاکتوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے جب امریکہ نے ایک بدنام زمانہ نیم فوجی فورس ریپڈ ایکشن بٹالین اور اس کے سات موجودہ اور سابق افسران پر پابندیاں عائد کی تھیں۔
لیکن امریکہ کی جانب سے محدود پابندیوں سے بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی مجموعی صورت حال میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ سیاستدان مغربی ممالک کی جانب سے سخت کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
سفارتی توازن قائم کرنے کا عمل
یورپی پارلیمنٹ کی رکن کیرن میلچیور نے کہا ہے کہ ’یورپی کمیشن کو بنگلہ دیش میں موجودہ جمہوری صورتحال سے متعلق جوابدہ بنانا چاہیے، بنگلہ دیش کی مصنوعات کو دی جانے والی ٹیرف فری رسائی واپس لینے پر بھی اور اس سب کے بعد غور کرنا چاہئے۔‘
بنگلہ دیش چین کے بعد دنیا کا ایسا دوسرا سب سے بڑا مُلاًک ہے کہ جو دُنیا بھر میں کپڑوں کی برآمدات میں ایک نام رکھتا ہے۔ گزشتہ سال بنگلہ دیش نے 45 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے تیار ملبوسات یورپ اور امریکہ بھیجے تھے۔
بہت سے لوگ یہ سوال پوچھنے لگے ہیں کہ مغربی ممالک، جن کے پاس اتنا بڑا معاشی اثر و رسوخ ہے، وہ جمہوری اداروں کو منظم طریقے سے ختم کرنے والی بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کو یہ کام کرنے کی اجازت کیوں دے رہے ہیں اور انھیں کیوں ایسا کرنے سے روکنے کی لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
اس وقت بنگلہ دیش کے لیے سب سے بڑا چیلنج انڈیا ہے جسے بہت سے معاملات میں نظر انداز کیا جا رہا ہے، یہ وہی پڑوسی ملک ہے جو یہ سب دیکھنے کے باوجود بنگلہ دیش کے راستے اپنی سات شمال مشرقی ریاستوں تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہے۔
انڈیا کو نیپال، بنگلہ دیش اور بھوٹان کے درمیان 20 کلومیٹر طویل زمینی راہداری ’چکنز نیک‘ پر بھی تشویش ہے جو اس کی شمال مشرقی ریاستوں کو انڈیا کے باقی حصوں سے جوڑتی ہے۔ دلی کے عہدیداروں کو ڈر ہے کہ انڈیا کے حریف چین کے ساتھ کسی بھی ممکنہ تصادم میں وہ سٹریٹجک طور پر کمزور ہو سکتا ہے۔
سنہ 2009 میں اقتدار میں آنے کے فورا بعد حسینہ واجد نے انڈیا کے شمال مشرقی علاقوں میں نسلی باغی گروہوں کے خلاف کارروائی کر کے دلی کی حمایت بھی حاصل کر لی تھی۔
ایسے خدشات بھی موجود ہیں کہ بنگلہ دیش پر ضرورت سے زیادہ دباؤ انڈیا کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ڈھاکہ دلی کی بجائے چین کی جانب جا سکتا ہے۔
بیجنگ پہلے ہی بنگلہ دیش میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا خواہاں ہے کیونکہ وہ انڈیا کے ساتھ علاقائی بالادستی کے لئے لڑ رہا ہے۔