کور کمانڈر ہاؤس، جی ایچ کیو اور کنٹونمنٹ علاقوں

کور کمانڈر ہاؤس، جی ایچ کیو اور کنٹونمنٹ علاقوں

کور کمانڈر ہاؤس، جی ایچ کیو اور کنٹونمنٹ علاقوں میں توڑ پھوڑ کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہو سکتی ہے؟

پاکستان تحریک انصاف نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی تک ملک بھر میں ’پرامن‘ احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے جبکہ اس گرفتاری کے فوراً بعد گذشتہ روز ہونے والے احتجاج کے دوران جلاؤ گھیراؤ اور اہم عمارتوں میں توڑ پھوڑ جیسے مناظر دیکھنے کو ملے۔

گذشتہ روز صورتحال اس وقت کشیدہ ہوتی محسوس ہوئی جب مشتعل مظاہرین نے فوجی املاک، جیسا کہ پاکستانی فوج کے ہیڈکوارٹرز یعنی جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاؤس لاہور کی عمارتوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔

مشتعل مظاہرین نے راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر ایک کے باہر نعرے بازی اور توڑ پھوڑ کی اور چند مظاہرین جی ایچ کیو کی عمارت کی حدود میں داخل ہو گئے۔

اگرچہ یہاں متعدد چیک پوسٹس قائم ہیں اور جی ایچ کیو کے دفاتر گیٹ سے کئی کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں تاہم عام طور پر جی ایچ کیو کے گیٹس اور اردگرد کے علاقوں میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں اور یہاں عوامی اجتماعات کی اجازت نہیں دی جاتی۔

یہی صورتحال ملک بھر کے کنٹونمنٹ علاقوں میں بھی تھی جنھیں عام طور پر فوجی چھاؤنیاں کہا جاتا ہے۔

گذشتہ روز مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے حامیوں نے لاہور کنٹونمنٹ میں شدید ہنگامہ آرائی کی جبکہ پشاور سمیت ملک کے کئی حصوں میں کنٹونمنٹ علاقوں میں مظاہرے اور توڑ پھوڑ کی ویڈیوز منظر عام پر آئیں۔

لاہور کنٹونمنٹ میں کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ کو آگ لگا دی گئی جبکہ دیگر کئی علاقوں میں فوجی چھاؤنیوں میں بھی جلاو گھراؤ کیا گیا۔

فوجی املاک اور تنصیبات کو نقصان پہنچانے اور ان علاقوں میں ہنگامہ آرائی کے خلاف قوانین سخت نوعیت کے ہیں جن کے تحت سزائیں بھی سخت ہو سکتی ہیں۔

بی بی سی نے کنٹونمنٹ علاقوں میں ہنگامہ آرائی، فوجی ہیڈکوارٹرز میں زبردستی داخلے اور فوجی املاک کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے قوانین سمجھنے کے لیے ماہرین سے بات کی۔

لیکن سب سے پہلے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ کنٹونمنٹ علاقوں کی قانونی حیثیت کیا ہے اور فوجی املاک سے کیا مراد ہے۔

Khalid Chaudhary
پی ٹی آئی کارکن راولپنڈی میں فوج کے ہیڈ کوارٹر جی ایچ کیو کے باہر موجود

کنٹونمنٹ، فوجی املاک اور چھاؤنی سے کیا مراد ہے؟

کنٹونمنٹ یا فوجی چھاؤنی کی ایک آئینی حیثیت ہے، پاکستان میں فوجی چھاؤنی وفاقی علاقے ہیں اور یہ کنٹونمنٹ ایکٹ 1924 کے تحت قائم ہیں۔

اس ایکٹ کے تحت کسی بھی علاقے کو مسلح افواج کی تربیت یا دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور اسے اس ایکٹ کے تحت جاری حکمنامے کے ذریعے ’فوجی چھاؤنی‘ ڈیکلیئر کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں کنٹونمنٹ یا فوجی چھاؤنی سے مراد وہ علاقے ہیں جہاں فوجی اہلکار اور ان کے اہلخانہ رہائش پذیر ہوں، اور یہاں فوجی تربیت اور سکیورٹی سے متعلق دیگر امور سرانجام دیے جاتے ہوں۔

ان علاقوں میں عام طور پر سویلین شہریوں کی رسائی مطلوبہ کاغذی کارروائی کے بغیر نہیں ہوتی، یا بہت محدود ہوتی ہے اور یہاں فوجی قواعد و ضوابط اور قوانین کا اطلاق کیا جاتا ہے۔

کنٹونمنٹ ایریا میں فوجی بیرکس، تربیتی میدان اور تنصیبات، ایڈمنسٹریٹو عمارتیں، ہسپتال، سکول اور دیگر عمارتیں اور تنصیبات شامل ہیں۔ اسی طرح ہر فوجی چھاؤنی میں ایک پولیس سٹیشن بھی ہوتا ہے جو ملک کے دیگر حصوں میں موجود کسی بھی پولیس سٹیشن کی طرح کام کرتا ہے۔

اسی طرح ’فوجی املاک‘ میں وہ تمام اشیا، تنصیبات، علاقے شامل ہیں جو مسلح افواج کے زیرِ استعمال یا ملکیت میں ہوں یا فوجی چھاؤنی کی حدود میں ہوں۔

bbc
دیر تیمرگرہ بلامبٹ چھاؤنی کی اندر مشتعل افراد کی جانب سے آگ لگائی گئی

فوجی املاک کو نقصان پہنچائے جانے پر قانونی کارروائی کیسے ہو سکتی ہے؟

پاکستان میں مسلح افواج (بحری، بری، فضائی) کی تنصیبات، ڈسپلن یا کسی بھی جرم پر پاکستان آرمی، نیول اور ایئرفورس ایکٹ کے تحت افواج کے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ تاہم سویلین کے معاملے میں بھی بعض اوقات فوجی قوانین کے تحت ہی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔

فوجی چھاؤنی یا کنٹونمنٹ ایریا یا ملک کے کسی بھی حصے میں خلاف قانون کارروائی کرنے کی صورت میں اگر ملزم فوجی ہے تو ان کے خلاف کارروائی پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت کی جاتی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جی ایچ کیو کی ایجوٹنٹ جنرل برانچ کے ایک سابق اہلکار نے بتایا کہ ’فوجی شخص کے خلاف کارروائی یا تحقیقات کا اختیار اگر فوج خود پولیس کو دینا چاہے تو ایسا ممکن ہے، تاہم یہ کارروائی عام طور پر فوج میں کورٹ مارشل کے ذریعے کی جاتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’تاہم اگر کنٹونمنٹ ایریا میں ایک سویلین شہری کسی جرم کا مرتکب پایا گیا ہو تو اس کے خلاف ایف آئی آر چھاؤنی کے پولیس سٹیشن میں پاکستان پینل کوڈ کے تحت درج ہوتی ہے اور اسے حراست میں بھی پولیس ہی لیتی ہے۔‘

تاہم قانونی ماہرین کے مطابق ’آپریشنل فوجی تنصیبات‘ کو نقصان پہنچانے کی صورت میں انسداد دہشت گردی کے قوانین سمیت فوج خود فوجی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں کارروائی کا اختیار استعمال کر سکتی ہے۔

ایجوٹنٹ جنرل برانچ کے سابق فوجی افسر کے مطابق ’جاسوسی، فوج میں بغاوت پر اکسانا اور کسی فوجی اہلکار پر حملہ آور ہونا اور اس جیسے بعض دیگر سنگین نوعیت کے جرائم ایسے ہیں جن کے خلاف کارروائی فوجی قوانین کے تحت کی جاتی ہے۔‘

لیکن ’سول جرائم اس زمرے میں نہیں آتے ہیں۔ مثلاً کنٹونمنٹ ایریا میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر حملہ، یا وہاں چوری کرنا یا آگ لگانا ایک سول جرم ہے کیونکہ یہ سرکاری عمارت اور رہائش گاہ تو ہے لیکن فوجی افسر کا دفتر نہیں۔‘

لیکن ان کا کہنا ہے کہ ’اگر یہی جرم ان کے دفتر یا کسی اور فوجی تنصیب پر کیا گیا ہو تو ایسے ملزم کے خلاف مقدمہ اور کارروائی پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت ہو گی اور اس شخص کا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کیا جائے گا۔‘

ان کے مطابق جی ایچ کیو بھی آپریشنل فوجی تنصیبات میں شامل ہے، اس لیے اس عمارت پر ہونے والا کسی بھی قسم کا حملہ پاکستان آرمی ایکٹ کے تناظر میں دیکھا جائے گا اور حملے میں ملوث سویلینز کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے تحت کارروائی کا ہی امکان ہے۔

پاکستان ایئرفورس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گذشتہ روز ہونے والے احتجاج کے دوران ’پاکستانی فضائیہ کی حدود میں مظاہرہ کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں گرفتار افراد کےخلاف فوجی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہ فوجی چھاؤنیوں میں کیے گئے جرم کی نوعیت پر منحصر ہے کہ فوج اپنے قوانین کے تحت کارروائی کرتی ہے یا پولیس سول قوانین کے تحت۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’فوج کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ اپنی تنصیبات میں کیے گئے جرائم کی تحقیقات اور ٹرائل خود کرنے کی درخواست کر سکتی ہے۔‘

فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کیا ہے؟

bbc
لاہور کنٹونمنٹ میں مشتعل مظاہرین کی جانب سے جلاؤ گھیراؤ کے مناظر

پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں ان جرائم کا حوالہ دیا گیا ہے جن کا ٹرائل اس ایکٹ کے تحت اس صورت میں ہوتا ہے جب ان جرائم کا ارتکاب فوجی اہلکار کریں۔ تاہم اسی ایکٹ کے اطلاق کے حوالے سے کچھ شقوں میں یہ قانون بعض صورتوں میں عام شہریوں پر بھی نافذ ہوتا ہے۔

فوجی ایکٹ کے تحت کارروائی کی صورت میں ملزم کے خلاف ہونے والی عدالتی کاروائی کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کہا جاتا ہے جبکہ یہ فوجی عدالت جی ایچ کیو ایجوٹنٹ جنرل برانچ کے زیر نگرانی کام کرتی ہے۔

اس عدالت کا صدر ایک حاضر سروس (عموماً لفٹیننٹ کرنل رینک) فوجی افسر ہوتا ہے، استغاثہ کے وکیل بھی فوجی افسر ہوتے ہیں۔

خیال رہے کہ ایجوٹنٹ جنرل برانچ میں قانونی ڈگری رکھنے والے افسران ان عدالتی کارروائیوں کا حصہ بنتے ہیں۔ یہاں ملزمان کو وکیل رکھنے کا حق دیا جاتا ہے۔

اگر کوئی ملزم پرائیویٹ وکیل رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو فوجی افسر ان کی وکالت کرتے ہیں، انھیں ’فرینڈ آف دی ایکیوزڈ‘ کہا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ یہاں ہونے والی کارروائی کے بعد ملزم اپیل کا حق رکھتا ہے۔ تاہم فوجی عدالتوں کے بارے میں عام رائے یہ پائی جاتی ہے کہ یہ عدالتیں اگرچہ ’سپیڈی جسٹس‘ کے نظام کے تحت چلتی ہیں تاہم یہاں ملزم کو اپنے ہی کیس کی پیروی کی مکمل آزادی حاصل نہیں ہوتی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ مبینہ طور پر پاکستان تحریک انصاف کے وہ کارکنان جنھوں نے فوجی املاک کو نقصان پہنچایا، ان کے خلاف کس قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی اور کی بھی جائے گی یا نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *