کوئٹہ میں اساتذہ کا مظاہرہ گود میں بچے اٹھائے احتجاج کرتی خواتین، جن کا سردی اور لاٹھی چارج بھی کچھ نہیں بگاڑ سکے
کوئٹہ میں سرد موسم اور بارش کے ساتھ پریس کلب کے باہر ایک عجب کیفیت محسوس کی جاسکتی ہے۔ روایتی ملبوسات میں خواتین اپنے شیرخوار بچوں کے ہمراہ مظاہرہ کر رہی ہیں اور یہیں سیاہ وردیوں میں خواتین و مرد پولیس اہلکاروں کی ایک بھاری نفری انھیں ایسا کرنے سے روک رہی ہے۔
گذشتہ روز دونوں فریقین کے درمیان تصادم ہوا اور مظاہرین کے مطابق پولیس اہلکاروں نے ان سے بدسلوکی کی۔
تشدد کے باعث جب مظاہرین میں سے ایک خاتون بےہوش ہوئیں تو مظاہرین میں غم و غصہ بڑھ گیا اور انھوں نے روتے ہوئے پولیس کے خلاف نعرے بلند کر دیے۔
اس مظاہرے میں بچے بھی برابر حصہ لے رہے ہیں۔ اپنی ماؤں کے رونے پر ان شیرخوار بچوں میں سے بیک وقت کئی بچے ایک ساتھ روتے سنائی دیتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ بھی اپنے والدین کے ساتھ ساتھ احتجاج میں شریک ہیں۔
تاہم پیر کے روز تو ان بچوں کو اس وقت بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے اپنے والدین کے سامنے اور ارد گرد پولیس کی بھاری نفری دیکھی۔ پولیس نے اس دوران لاٹھی چارج بھی کیا جس سے کچھ خواتین کے زخمی ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں۔
‘آٹھ ماہ سے تنخواہ بند ہے، اس مہنگائی میں ٹیچر کا گزارا کیسے ممکن ہے؟ ہم لوگ مضبوط ہو کر گھروں سے نکلے ہیں اور مطالبات کی منظوری تک واپس نہیں جائیں گے۔ حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی کہ ہماری ماں بیٹیاں اتنے وقت سے سڑکوں پر بیٹھی ہوئی ہیں۔’
یہ مظاہرین دراصل اساتذہ ہیں جو بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے ایک مرتبہ پھر کوئٹہ آئی ہیں۔
ان کا تعلق ورلڈ بینک کے گلوبل پارٹنر شپ فار ایجوکیشن پراجیکٹ سے ہے اور ان میں سے زیادہ تر بلوچستان کے دور دراز کے علاقوں میں پڑھاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت ان کو معاہدے کے مطابق مستقل نوکری نہیں دے رہی ہے۔
تاہم محکمہ تعلیم کے حکام کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے حکومت کو بھیج دی گئی ہے، منظوری ہوتے ہی حکومت ان اساتذہ کو مستقل کر دے گی۔
چار ماہ بعد دوبارہ کوئٹہ آنے پر مجبور
بچوں کی بڑی تعداد اور پھر موسمی حالات کے باعث یہ اساتذہ جن مشکلات سے دوچار ہیں، ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے خضدار سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ٹیچر فضیلہ بی بی نے جذباتی ہو کر پوچھا ‘ان حالات میں کسی بڑے کے لیے کھلے آسمان تلے سڑکوں پر کھڑا ہونا مشکل ہے، ہم اپنے شیرخوار بچوں کو کیسے سنبھالیں؟’
ان کا کہنا تھا کہ ‘جب ہمارے مطالبات جائز ہیں تو پھر ہمیں سڑکوں پر کیوں خوار کیا جا رہا ہے؟’
نوشکی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ٹیچر نے بتایا وہ اس بات پر خوش تھیں کہ تعلیم حاصل کرنے اور ملازمت ملنے کے بعد ان کی زندگی کی مشکلات میں کمی آئے گی لیکن عملاً ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ اب بھی اپنے گھروں سے دور سڑکوں پر رل رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘دیگر مشکلات کے ساتھ تنخواہوں کی بندش کے باعث ہم اس مشکل میں ہیں کہ کوئٹہ میں رہائش کے اخراجات کہاں سے پورے کریں اور کھائیں کہاں سے۔’
مطالبات تسلیم نہ ہونے پر یہ اساتذہ چار ماہ بعد دوبارہ بلوچستان کے دوردراز کے علاقوں سے کوئٹہ میں جمع ہوئے۔ ان اساتذہ نے 18 مارچ کو پہلے سول سیکریٹریٹ کے قریب دھرنا دیا اور اس کے بعد سے وہ پریس کلب کے باہر روزانہ کی بنیاد پر دھرنا دے رہے ہیں۔
چونکہ اس پراجیکٹ کے مجموعی 1493 اساتذہ میں سے 13 سو سے زائد خواتین ہیں اس لیے ان کی اکثریت کی وجہ سے کوئٹہ میں یہ احتجاج عملاً خواتین کا احتجاج لگتا ہے۔
احتجاج ویسے ہی ایک مشکل کام ہے لیکن بچوں بالخصوص شیر خوار بچوں نے خواتین اساتذہ کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔
جہاں ان خواتین اساتذہ کے لیے پورا دن کھلے آسمان تلے سڑک پر بچوں کو سنبھالنا ایک مشکل کام ہے وہاں تین چار روز سے بارشوں اور سردی میں اضافے نے ان کی پریشانی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ بارش تیز ہونے کی صورت میں ان کو متعدد بار دیواروں کی اوٹھ میں پناہ لینا پڑتی ہے۔
پیر کے روز جہاں ایک طرف زیادہ بارش ہوئی وہیں دوسری جانب ان اساتذہ نے صوبائی اسمبلی تک مارچ بھی کیا۔ اسمبلی تک نہ صرف ان کی پولیس والوں کے ساتھ مڈ بھیڑ ہوتی رہی بلکہ شدید سردی میں ان کو کئی گھنٹے اسمبلی کے باہر دھرنا بھی دینا پڑا۔
رہائش اور کھانے پینے کے حوالے سے مشکلات
احتجاج میں شریک گلوبل پارٹنر شپ ٹیچرز ایکشن کمیٹی کی صدر الماس قادر کا کہنا تھا کہ تنخواہوں کی بندش کی وجہ سے کوئٹہ شہر میں کھانے پینے اور رہائش کے حوالے سے بھی ان کو مشکلات کا سامنا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ہوٹلوں میں رہائش کے لیے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے بعض لوگ کوئٹہ میں محکمہ تعلیم کے دفاتر وغیرہ میں رہائش پر مجبور ہیں۔
‘چونکہ صبح سویرے لوگوں نے دفاتر اور سکول آنا ہوتا ہے اس لیے ان کو صبح سویرے وہاں سے نکلنا پڑتا ہے۔’
احتجاج میں شریک قلات سے تعلق رکھنے والی سعیدہ بی بی نے بتایا کہ ‘گزشتہ احتجاج پر ہمیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ آپ لوگ جب گھر پہنچیں گے تو آپ لوگوں کا مسئلہ حل ہو گا جس کی وجہ سے ہم خوش ہو کر چلے گئے لیکن چار ماہ بعد ہم ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر احتجاج پر مجبور ہیں۔’
انھوں نے اپنی گود میں اپنے شیر خوار بچے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ مجبوراً اس بچے کے ساتھ دوردراز علاقے سے آئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ نہ صرف دوردراز کے علاقوں میں بچوں کو پڑھا رہی بلکہ بعض خواتین ایسی بھی جن کے پورے خاندانوں کے معاش کا انحصار انہی پر ہے لیکن تنخواہوں کی بندش سے ان کے خاندانوں کو بھی پریشانی کا سامنا ہے۔
خضدار سے تعلق رکھنے والی ٹیچر فضیلہ کا کہنا تھا کہ ‘ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انھیں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا مگر اس کے برعکس وہ اپنے گھروں سے دور احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ کم ازکم خواتین اساتذہ کو سڑکوں پرخوار نہیں کیا جانا چاہیے۔’
اپنے دو ماہ کے بچے کے ساتھ اس احتجاج میں شریک نوشکی سے تعلق رکھنے والی خاتون ٹیچر نے بتایا کہ ان کو بچے کو اس لیے لانا پڑا کہ وہاں گھر میں اسے کوئی سنبھالنے والا نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ انھیں نہ صرف مستقل نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ جو تنخواہ دی جاتی ہے وہ بھی بہت کم ہے جس کا ایک بڑا حصہ سکول تک آنے جانے کے کرائے پر صرف ہوتا ہے۔
خاتون ٹیچر کا کہنا تھا کہ ‘گاڑیوں میں سفر کرنے کا کرایہ تو روزانہ یا ماہانہ کی بنیاد پر مانگا جاتا ہے لیکن تنخواہیں ہیں جو کئی کئی ماہ تک ملتی ہی نہیں۔’
احتجاج کرنے والے اساتذہ کا کہنا ہے کہ وہ اس مرتبہ مطالبات تسلیم کروانے پر ہی اپنا احتجاج ختم کریں گے۔
گلوبل پارٹنر شپ فار ایجوکیسشن پراجیکٹ
بلوچستان میں اساتذہ بالخصوص خواتین اساتذہ کی بہت کمی ہے۔ الماس قادر نے بتایا کہ بلوچستان میں اساتذہ کی کمی کو دور کرنے کے لیے ورلڈ بینک کے گلوبل پارٹنرشپ فار ایجوکیشن پراجیکٹ کے تحت 1500 اساتذہ کی تعیناتی کی گئی تھی۔
ان میں سے چند اساتذہ نے استعفیٰ دیا تھا لیکن ان میں سے 1493 اساتذہ اب بھی کام کر رہے جن میں سے 1300 سے زائد خواتین ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پراجیکٹ کے تحت بلوچستان کے ان علاقوں میں 725 سکول بنائے گئے جہاں اس سے قبل کسی سکول کا نام و نشان تک نہیں تھا۔
انھوں نے کہا کہ میرٹ کی بنیاد پر اس پراجیکٹ کے تحت دو قسم کے ٹیچر تعینات کیے گئے جن میں جے وی ٹیچرز اور ایلیمنٹری سکول ٹیچرز شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے زیادہ تر اساتذہ دور دراز اور دشوار گزار علاقوں میں پڑھاتی ہیں اور ان اساتذہ کی تنخواہ بھی ماہانہ ساڑھے 18 ہزار سے لے کر 23 ہزار روپے تک ہے جو کہ محکمہ تعلیم کے مستقل اساتذہ کے مقابلے میں کم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے تحت کنٹریکٹ پر بھرتی کے ایک دو سال بعد ان اساتذہ کو مستقل کیا جانا تھا لیکن پانچ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ان کو مستقل نہیں کیا گیا۔
ان اساتذہ کے احتجاج کے تناظر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے سیکریٹری تعلیم شیرخان بازئی نے بتایا کہ گلوبل پارٹنرشپ کے 1493 اساتذہ کی سمری تین چار ماہ قبل حکومت بلوچستان کو منظوری کے لیے بھیج دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ورلڈ بینک اور حکومت بلوچستان کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا کہ جونہی یہ پراجیکٹ مکمل ہو گا تو حکومت بلوچستان ان اساتذہ کو اپنائے گی۔ انھوں نے کہا کہ اس بنیاد پر ہم نے سمری بھیج دی ہے جونہی اس کی منظوری ہو گی تو ان اساتذہ کو سرکاری نظام کے تحت لیا جائے گا اور جون سے ان کی جو تنخواہیں بند ہیں وہ جاری ہو جائیں گی۔
الماس قادر نے بتایا کہ پراجیکٹ کے تحت جو 725 سکول قائم کیے گئے ہیں ان میں سوا لاکھ کے لگ بھگ بچے زیر تعلیم ہیں۔
پراجیکٹ کے اساتذہ کے احتجاج اور ان کی ایک بڑی تعداد کی کوئٹہ میں موجودگی کے باعث ان سکولوں کے بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔
الماس قادرکا کہنا ہے کہ اگر اس پراجیکٹ کے اساتذہ کا مسئلہ حل نہیں ہوا تو دوردراز کے علاقوں میں مزید بچے تعلیم سے محروم ہوسکتے ہیں۔
غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق بلوچستان میں پہلے ہی نہ صرف تعلیم کا معیار کمزور ہے بلکہ سکول جانے کی عمر کے بچوں کی بہت بڑی تعداد سکولوں سے باہر ہے۔
بلوچستان کے سیکریٹری تعلیم شیرخان بازئی کا کہنا ہے کہ ایسے بچوں کے بارے میں کوئی باقاعدہ سروے تو نہیں ہوا ہے لیکن کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے جو سروے کیے ہیں ان کے مطابق سکول سے باہر بچوں کی تعداد 12 لاکھ کے لگ بھگ ہے