کرتارپور راہداری نے ’امید‘ سے زیادہ تنازعات کو کیوں جنم دیا؟
جو کل کھلنا ہے، آج کھل جائے، ہمارے کرتارپور صاحب کے درشن ہو جائیں۔ اور ہم اس دنیا میں لینے کیا آئے ہیں۔۔۔ اسے کھولیں تو ہم گناہ گاروں کے بھی درشن ہو جائیں۔۔۔ یہ راہداری کچھ عرصے کے لیے ہی کھل پائی، یہ راستہ سارا سال، رات دن کھلا رہنا چاہیے۔‘
یہ کہنا تھا انڈیا کی سرحد پر کھڑے ہو کر پاکستانی علاقے میں کرتارپور صاحب کو دور سے دیکھ کر دعا کرنے کے لیے آنے والی جسبیر کور اور وریام سنگھ کا۔
کرتارپور راہداری کا افتتاح نو نومبر 2019 کو کیا گیا تھا، اور یہ مقدس مقام انڈین سکھ زائرین کے لیے صرف پانچ ماہ کے لیے کھلا رہ سکا۔
کورونا کی وبا کے باعث اسے 16 مارچ 2020 کو بند کر دیا گیا تھا۔ اب جبکہ عالمی سطح پر مخلف ممالک کے درمیان سفر کی پابندیاں بہت حد تک نرم کر دی گئی ہیں لیکن اس راہداری کو ابھی تک نہیں کھولا گیا ہے۔
دونوں ممالک میں عبادت کے لیے مذہبی مقامات اور یہاں تک کہ اٹاری واہگہ بین الاقوامی سرحد پر روزانہ منعقد ہونے والی پریڈ کی تقریب کو عوام کے لیے کھولا جا چکا ہے۔
چاہے پاکستان اور انڈیا کے درمیان اس وقت دو طرفہ مذاکرات کا عمل معطل ہے لیکن اس کے باوجود کرتارپور راہداری کھولنے کا مطالبہ کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ سکھوں کی نمایاں تنظیم شرومنی گرودوارہ پربھندک کمیٹی نے وزیراعظم نریندر مودی سے درخواست کی ہے کہ اس راہداری کو جل از جلد کھولا جائے۔ اس کے علاوہ پنجاب کے وزیراعلیٰ چرنجیت سنگھ چنی کو بھی اس حوالے سے درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔
پاکستان وقف املاک بورڈ کے چیئرمین ڈاکر عامر احمد کا کہنا ہے کہ کرتاپور راہداری سے متعلق ان کی تیاریں مکمل ہیں اور یہ کہ ان کی جانب سے کرتارپور گرودوارہ کھلا ہے اور گذشتہ ماہ وہاں دو تقاریب بھی ہو چکی ہیں۔
کرتارپور راہداری کو ’امید کی راہداری‘ کہا گیا اور نو نومبر 2019 کو اس کا افتتاح انڈیا اور پاکستان کے وزرائے اعظموں نے اپنے اپنے ملک میں کیا تھا۔
اس موقع پر انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے انڈین پنجاب کے ضلع گروداس پور سے سکھ یاتریوں کے ایک گروپ کو ڈیرہ بابا نانک کے بین الاقوامی سرحد کے اس پار ساڑھے چار کلومیٹر کے فاصلے پر سکھوں کے مقدس مقام گرودوارہ دربار صاحب کرتارپور صاحب جانے کی اجازت دی تھی۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے سکھ یاتریوں کا استقبال کیا تھا۔
کرتارپور راہداری کے افتتاح کے وقت بہت زیادہ امیدوں اور تشہیر کے باوجود اس نے بہت سے تنازعات کو جنم دیا۔ جہاں توقع کی جا رہی تھی کہ یومیہ پانچ ہزار سکھ یاتری عبادت کے لیے جائیں گے، یہ تعداد کم ہو کر 300 تک آ گئی تھی جس کی کچھ وجوہات ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کرتارپور میں گرودوارہ دربار صاحب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے پاس سکھوں کا مکہ اور مدینہ ہے۔
اس پر ردعمل دیتے ہوئے سکھوں کی اعلیٰ مذہبی شرومانی گرودوارہ پربھاندک کمیٹی کی رکن بی بی کرن جوت کور کا کہنا تھا کہ سکھ مذہب میں اسلام کی طرح مکہ اور مدینہ کا تصور نہیں ہے اور سکھ مذہب میں ہندو مذہب کی طرح مذہبی یاترا لازمی نہیں ہے۔
تاہم سکھوں کی اکثریت مختلف گوردواروں میں یاترا کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔
کرن جوت کور کا کہنا تھا ’تقسیم سے پہلے پاکستان میں ننکانہ صاحب سکھوں کی پہلی پسندیدہ زیارت گاہ تھی لیکن انڈیا اور پاکستان کی تقسیم کے بعد سکھوں کی ایک بڑی تعداد نے دربار صاحب میں، جسے امرتسر میں گولڈن ٹیمپل بھی کہا جاتا ہے، سجدہ کرنے کو ترجیح دی۔‘
انڈیا میں گورو نانک لنگر انٹرنیشنل سوسائٹی کے سربراہ بلویندر سنگھ پکھوکے کا کہنا ہے کہ کرتارپور راہداری سکھوں کو خوش کرنے کے لیے پاکستان کے ہاتھ میں ’سیاسی ہتھیار بن گئی تھی۔‘
سیاسی تنازعات
یاد رہے کہ پاکستانی سیاستدان اور موجودہ وزیر داخلہ شیخ رشید، جو کہ اپنے بیانات کے باعث جانے جاتے ہیں، نے کہا تھا کہ کرتار پور راہداری پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا خیال تھا۔ ’انڈیا پاکستان کے آرمی چیف کے لگائے ہوئے اس زخم کو ہمیشہ یاد رکھے گا۔‘
یہ 18 اگست 2018 کی بات ہے جب پنجاب پردیش کانگریس کمیٹی کے سربراہ نوجوت سنگھ سدھو اپنے کرکٹ دور کے دوست پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے پاکستان گئے تھے اور اس وقت پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ نے سدھو کو اس بارے میں آگاہ کیا تھا کہ پاکستان کی حکومت گرو نانک دیو کے 550 ویں یوم پیدائش کے موقع پر کرتارپور راہداری کھولنا چاہتی ہے۔
اسی موقع پر نوجوت سنگھ سدھو نے پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل باجوہ سے بغل گیر ہوئے تھے جس پر ایک بڑا تنازع پیدا ہوا اور انڈیا میں حزب اختلاف کی جماعتوں کو تنقید کرنے کا ایسا موقع مل گیا تھا جس کی انھیں تلاش تھی۔ مگر کانگرس جماعت میں نوجوت سنگھ سدھو کے اس دوستانہ اقدام پر ملا جلا ردعمل تھا۔
20 ڈالر
ایک اور مسئلہ جو سامنے آیا وہ یہ تھا کہ حکومت پاکستان نے کرتارپور راہداری کے ذریعے کرتارپور صاحب آنے والے ہر یاتری پر 20 امریکی ڈالر کی سروس فیس بھی عائد کی۔ انڈیا کی سیاسی جماعتوں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اس ‘سروس ٹیکس’ کو ’جزیہ‘ قرار دیا۔
انڈیا میں بعض سکھ تنظیمیں اس سروس ٹیکس کی چھوٹ کا مطالبہ کرتی آئی ہیں لیکن جب گذشتہ سال مارچ میں یہ راہداری کورونا کی وبا کے باعث بند ہوئی تب تک تو پاکستان یہ ٹیکس وصول کر رہا تھا۔
انڈیا کی سرحد سے کرتارپور صاحب کو دور سے دیکھ کر دعا کرنے کے لیے آنے والے وریام سنگھ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اس راہداری پر پیسے لگائے ہیں اور جب پاکستان کی ’پوزیشن ٹھیک ہو گی‘ تو ہٹا دے گا۔
انتظامیہ پر سوالیہ نشان؟
اس سے بھی بڑھ کر انڈیا میں سکھوں کی مذہبی قیادت کے لیے اچھنبے کی بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے گوردوارہ دربار صاحب، کرتاپور صاحب کے اندر اور باہر کے انتظام کا مکمل اختیار ایک غیر سکھ سربراہی مینیجمنٹ باڈی ‘پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ کرتار پور کوریڈور’ کو دے دیا ہے۔
ان کا اعتراض ہے کہ پاکستان میں بھی پاکستان سکھ گوردوارہ پربھندک کمیٹی ہے لیکن ’پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ کرتار پور کوریڈور‘ میں ان کا ایک بھی سکھ رکن نہیں ہے۔
جنھوں نے انڈیا کی جانب سے دربار صاحب کرتارپور کا دورہ کیا ہے انھوں نے کرتار پور منصوبوں کی انتظامیہ پر بھی کچھ اعتراضات اٹھائے ہیں۔
کرتارپور صاحب کا دورہ کرنے والے کلجیت سنگھ نے سوال اٹھایا کہ اگر اسے امن کا اشارہ سمجھا جاتا ہے تو پاکستان نے انڈیا کے خلاف گوردوارہ کرتارپور صاحب میں نفرت انگیز پراپیگنڈے کو کیوں زندہ رکھا ہوا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ حکومت پاکستان نے گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور صاحب کے احاطے میں ایک شو کیس میں ایک بم کا شیل رکھا ہوا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ ‘سنہ 1971 کی جنگ میں انڈین فضائیہ نے یہ بم گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور صاحب میں گرایا تھا تاکہ اسے تباہ کیا جائے، مذکورہ بم سری کھو صاحب میں گرا تھا۔‘
پاسپورٹ پر سٹیمپ
سکھجندر سنگھ کی خواہش ہے کہ وہ اپنی دو بیٹیوں اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ کرتارپور میں دربار صاحب کی زیارت کریں۔ لیکن ان کی بیٹیاں اعلیٰ تعلیم کے لیے کینیڈا جانا چاہتی ہیں اور انھیں خدشہ ہے کہ پاسپورٹ پر پاکستان کی مہر لگنے سے ایسا نہ ہو کہ اُن کا کینیڈا کے ویزے کی درخواست مسترد ہو جائے۔
یاد رہے کہ انڈیا کی ریاست پنجاب میں روزگار کی غرض سے بیرون ملک جانے کا رحجان بھی زیادہ ہے لیکن ان میں پاکستان کے متعلق ایسے خدشات کی وجہ افواہیں ہیں جن کی وجہ سے پاکستان جانے والے سکھوں خاص کر نوجوان سکھوں کی سب سے زیادہ حوصلہ شکنی ہو رہی ہے کہ انٹری پرمٹ کے ذریعے بھی پاکستان میں داخلہ ان کے مغربی ممالک کے لیے ویزے کی درخواستوں کے مسترد ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔
اسی طرح وہ سکھ بزرگ جو مغربی ممالک میں آباد اپنے بچوں کے پاس جانا چاہتے ہیں، ان پر ان افواہوں کی وجہ سے یہ تاثر ہے کہ کیوں کہ پاکستان انڈیا مخالف پراپیگنڈے کے لیے جانا جاتا ہے اس لیے ایسا نہ ہو کہ پاکستان کے دورے کے باعث ان کی مغربی ممالک کے ویزے کی درخواستیں مسترد ہو جائیں۔
یاد رہے کہ اس راہداری کے ذریعے پاکستان جانے والوں کو ایک دن کا پرمٹ دیا جاتا ہے اور زیارت کے لیے جانے والوں کے پاسپورٹ پر صرف پاکستان میں داخلے اور اخراج کی مہریں لگتی ہیں۔
سینیئر صحافی جسویندر سنگھ جاس کا خیال ہے کہ اگر پاکستان داخلے کے نظام کو آسان بنا دیتا یا سرے سے ہی ویزا سسٹم کو ختم کر دیتا تو وہ یہ توقع کر سکتا تھا کہ سکھ عقیدت مندوں کی بڑی تعداد کرتارپور راہداری کے ذریعے پاکستان میں گوردوارے کی زیارت کرے گی۔
گذشتہ دو برس میں کرتاہور راہداری چاہے چند ماہ کے لیے ہی کھل پائی اور بعض تنازعات بھی پیدا ہوئے لیکن پیر کو جب انڈیا کی جانب راہداری کی چیک پوسٹ پر گیا تو دیکھا کہ انتظامیہ اپنی تیاریاں پوری رکھ رہی ہے اور سٹاف اس امید کے ساتھ صفائیاں کرتا نظر آیا کہ اسے جلد ہی کھول دیا جائے گا، لیکن کب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
کرتاپور کی اہمیت کیا ہے؟
تاریخ کے مطابق سکھوں کے پہلے گرو نانک دیو نے اپنی زندگی کے تقریباً 18 برس کرتارپور گاؤں میں بسر کیے تھے۔ یہ گاؤں دریائے راوی کے مغربی حصے پر واقع ہے۔
ان کی وفات کے بعد بابا نانک کے ہندو اور مسلم پیروکار انھیں اپنے اپنے مذاہب کے مطابق دفنانا اور ان کی چتا جلانا چاہتے تھے۔
لوک داستانوں کے مطابق اس وقت بابا نانک کی میت پراسرار طور پر غائب ہو گئی اور اس کی جگہ پھولوں کی ایک ڈھیری بن گئی تھی جسے ہندو اور مسلمان پیروکاروں میں برابر تقسیم کر دیا گیا تھا۔ جس پر دونوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے پیروکاروں نے بابا نانک کی آخری رسومات اپنے اپنے مذہب کے مطابق ادا کی تھیں جس کے بعد ڈیرہ بابا نانک میں ایک سمادھی اور قبر بنائی گئی۔