کراچی ٹیسٹ کا دوسرا دن آسٹریلیا کے 505 رن اور بابر اعظم کی ناقابل فہم کپتانی
آسٹریلوی کرکٹ ٹیم اپنی میزبان ٹیم پر دباؤ بڑھاتے ہوئے کراچی ٹیسٹ میں مضبوط پوزیشن میں آچکی ہے۔ دوسرے دن کھیل کے اختتام پر اس نے 505 رنز بنا لیے تھے اور اس کی آٹھ وکٹیں گری تھیں۔ وکٹ کیپر الیکس کیری صرف سات رنز کی کمی سے اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری مکمل نہ کرسکے۔
آسٹریلوی ٹیم اس اننگز میں ابتک 180 اوورز کھیل چکی ہے جو 14 سال بعد ایشیا میں کسی ایک ٹیسٹ اننگز میں اس کے سب سے زیادہ اوورز ہیں۔ اس سے قبل آسٹریلیا نے 2008 میں انڈیا کے خلاف دہلی ٹیسٹ کی ایک اننگز میں 179 اعشاریہ 3 اوورز کھیلے تھے۔
سست رفتار بیٹنگ
آسٹریلوی ٹیم نے پورے دن کے کھیل میں صرف 2.82 رنز فی اوور کے حساب سے 254 رنز سکور کیے۔
بابراعظم اگر دیانت داری سے اپنی کپتانی کا تجزیہ کریں تو انھیں خود کو ہی مورد الزام ٹھہرانا پڑے گا۔ پہلے دن انھوں نے اپنے دونوں سپنرز سے لیگ سائیڈ پر منفی بولنگ کرا کر 22 اوورز صرف اس لیے ضائع کر دیے کہ انھیں نئی گیند چاہیے تھی۔
حالانکہ اس وقت تیز بولرز گیند کو ریورس سوئنگ کر رہے تھے۔ جب نئی گیند لی گئی تو صرف اسٹیو اسمتھ کی وکٹ ہاتھ آسکی۔
فرسٹریشن بڑھتی گئی
کراچی ٹیسٹ کے دوسرے دن کا پہلا سیشن بھی پاکستانی ٹیم کے لیے فرسٹریشن لیے ہوئے تھا۔ ایک جانب عثمان خواجہ خود کو دفاعی خول میں بند کرتے ہوئے اپنی وکٹ کو محفوظ رکھے ہوئے تھے تو دوسری جانب نائٹ واچ مین نیتھن لائن بھی آسانی سے ہاتھ آنے کو تیار نہیں تھے۔
پہلے سیشن کے 27 اوورز میں آسٹریلیا نے 81 رنز کا اضافہ کیا جن میں زیادہ حصہ نیتھن لائن کا رہا۔ عثمان خواجہ نے اس سیشن میں صرف 28 رنز سکور کیے۔
نیتھن لائن کی وکٹ حاصل کرنے کے لیے پاکستانی ٹیم کو 16 اوورز انتظار کرنا پڑا۔ وہ 38 رنز بناکر فہیم اشرف کی گیند پر بولڈ ہوئے تو اس وقت تک وہ عثمان خواجہ کے ساتھ 54 رنز کا اضافہ کرچکے تھے۔ 31 کے سکور پر فہیم اشرف اپنی ہی گیند پر ان کا کیچ لینے میں ناکام رہے تھے۔
پاکستان نے نیتھن لائن اور عثمان خواجہ کی وکٹیں حاصل کرنے کی کوشش میں دو ریویو بھی ضائع کیے۔ کھانے کے وقفے کے بعد پاکستانی ٹیم کو پہلی کامیابی ٹریوس ہیڈ کی وکٹ کی صورت میں ملی جو پانچ چوکوں کی مدد سے23 رنز بنا کر ساجد خان کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے۔
یاد رہے کہ ٹریوس ہیڈ گزشتہ ایشیز سیریز میں دو سنچریاں اور ایک نصف سنچری بناکر مین آف دی سیریز رہے تھے لیکن موجودہ سیریز میں وہ ابتک بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے ہیں۔
پاکستانی ٹیم شدت کے ساتھ جس وکٹ کے انتظار میں تھی وہ اسے طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد ملی جب عثمان خواجہ 160 رنز کی اہم اننگز کھیلنے کے بعد ساجد خان کی گیند پر بولڈ ہو گئے۔ نو گھنٹے 12 منٹ کی اس اننگز میں پندرہ چوکے اور ایک چھکا شامل تھا۔ یہ ان کا ٹیسٹ کرکٹ میں تیسرا بڑا سکور ہے۔
405 کے مجموعی سکور پر آسٹریلیا کی ساتویں وکٹ گری جب نعمان علی نے کیمرون گرین کو 28 رنز پر بولڈ کر دیا۔
آسٹریلیا نے کھیل کے دوسرے سیشن میں تین وکٹیں گنوا کر 75رنز کا اضافہ کیا تاہم اس سیشن میں اس کی رنز بنانے کی رفتار محض 2.58 رنز فی اوور رہی۔
تیسرے سیشن میں پاکستانی ٹیم نے مچل اسٹارک کو تین رنز پر آؤٹ کرنے کا موقع اس وقت گنوا دیا جب نعمان علی اپنی ہی گیند پر ان کا کیچ لینے میں ناکام رہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ 28 رنز بنا گئے اور ساتھ ہی وکٹ کیپر الیکس کیری کے ساتھ آٹھویں وکٹ کی شراکت میں 98 رنز کا اضافہ کیا۔
یہ مچل اسٹارک کی ٹیسٹ کرکٹ میں 100 ویں اننگز ہے۔
الیکس کیری نے اپنی دوسری نصف سنچری تین چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے مکمل کی لیکن اسے وہ اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری میں تبدیل نہ کرسکے اور 93 رنز بنا کر بابراعظم کی گیند کو سوئپ کرنے کی کوشش میں بولڈ ہوگئے۔ ان کی اننگز میں سات چوکے اور دو چھکے شامل تھے۔
بابر اعظم نے تیسرے سیشن میں تیسری نئی گیند لی لیکن فاسٹ بولرز کے صرف پانچ اوورز کے بعد وہ سپنرز کو لے آئے۔
پنڈی کی پچ اور رمیز راجہ
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کے پنڈی ٹیسٹ کی پچ کے بارے میں بیان کی بازگشت ابھی تک جاری ہے۔
اتوار کے روز نیشنل سٹیڈیم میں میڈیا سے گفتگو کے دوران ان سے یہی سوال کیا گیا کہ عام خیال یہی ہے کہ آپ کو یہ بیان نہیں دینا چاہیے تھا جس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ پی سی بی کے چیئرمین بعد میں ہیں، کرکٹر پہلے ہیں، لہذا وہ ہر چیز کو کرکٹ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو شائقین کی فرسٹریشن ہے وہ ان کی بھی فرسٹریشن ہے۔ وہ اپنے بیان کے ذریعے اس بات کو واضح کرنا ضروری سمجھتے تھے کہ پنڈی کی پچ کیسے تیار ہوئی تھی۔
ٹکٹ سستا، کھانا پینا مہنگا
اتوار کے روز کراچی میں درجہ حرارت 34 ڈگری رہا اس کے باوجود تماشائیوں کی بڑی تعداد نیشنل سٹیڈیم میں موجود تھی تاہم یہ تماشائی سٹیڈیم میں دی گئی سہولتوں کے بارے میں شکایت کرتے ہوئے پائے گئے۔
جن لوگوں سے بات ہوئی ان کا کہنا تھا کہ میچ ٹکٹ سستا ہے لیکن فراہم کیا جانے والا کھانا پینا عام قیمتوں کے مقابلے میں کافی مہنگا ہے۔
باہر سے آپ کھانے پینے کی کوئی چیز سٹیڈیم میں نہیں لاسکتے۔ ایک طالبعلم کا کہنا تھا کہ وہ پانی کی بوتلیں لائے تھے لیکن انھیں اندر لے جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔