کراچی مشتعل ہجوم نے ٹیلی کام کمپنی کے دو ملازمین کو ہلاک کر دیا
کراچی کے علاقے مچھر کالونی میں ایک مشتعل ہجوم نے ٹیلی کام انجینیئر اور ان کو ڈرائیور کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا ہے۔ پولیس کے مطابق مقامی لوگوں نے اُنھیں بچوں کے اغواکار سمجھ کر تشدد کا نشانہ بنایا۔ دونوں افراد کی لاشیں کئی گھنٹے سڑک پر پڑی رہیں۔
یہ پرتشدد واقعہ ڈاکس تھانے کی حدود میں مچھر کالونی بنگالی محلہ میں پیش آیا ہے۔ ایس ایس پی کیماڑی فدا حسین جانوری کا کہنا ہے کہ دونوں ٹیلی کام کمپنی کے ملازم تھے اور یہاں سگنلز چیک کرنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔
’یہ پسماندہ علاقہ ہے۔ یہاں اچانک یہ افواہ پھیلائی گئی کہ یہ بچوں کو اغوا کر رہے تھے اور ایک ہجوم نے ان پر حملہ کر دیا۔ پولیس واقعے کی مختلف زاویوں سے تحیقات کر رہی ہے۔‘
ایس ایچ او ڈاکس پرویز سولنگی کا کہنا ہے کہ مقتولین نے دو تین لوگوں سے راستہ پوچھا تھا جس کے بعد علاقے میں یہ مشہور کردیا گیا کہ یہ بچے اغوا کرنے والے ہیں۔
کراچی کی بندرگاہ سے آنے والے ماڑی پور روڈ سے جب ہم اس علاقے میں پہنچے تو تنگ گلیوں میں سے ایک گلی میں سیمنٹ کے بھاری بلاک موجود تھے جو خون آلودہ تھے، علاقے میں معمولی چہل پہل تھی جس گھر کے باہر یہ بلاک موجود تھے میں نے اس کے ایک رہائشی سے پوچھا کہ واقعہ کیسے پیش آیا تو اس شخص نے بتایا کہ اسے معلوم نہیں وہ تو ابھی آیا ہے تو میں نے کہا کہ گھر والوں نے کیا بتایا تو اس نے کہا کہ وہ الٹی سیدھی بات کر رہے ہیں۔
ایک مقامی شخص نے اشارے سے بتایا کہ دوسری لاش کو گھیسٹ کر یہاں لایا گیا تھا۔ اسی جگہ پر کرسیوں پر دو لوگ بیٹھے ہوئے تھے جنھوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔
ایک نوجوان نے بتایا کہ دونوں شخص سامنے کھڑے ہوئے تھے لوگوں نے اُنھیں کہا کہ اپنا آئی ڈی کارڈ دکھاؤ تو وہ اڑ گئے۔ ان کے پاس گاڑی میں تین بیگ بھی تھے اُنھوں نے وہ بھی چیک نہیں کروائے جس پر عوام کو غصہ آ گیا۔
لاشیں سڑک پر پڑی رہیں
جہاں دونوں افراد کو ہلاک کیا گیا وہاں ایک مسجد و مدرسہ اور اس سے آگے ٹی سی ایف کا سکول واقع ہے۔ اس علاقے کے ایک شخص نے بتایا کہ 11 بجے اس نے گلی میں دونوں لاشیں پڑی ہوئی دیکھیں اور پولیس ایک بجے کے قریب پہنچی۔
ایک دوسرے نوجوان نے بتایا کہ یہاں پولیو ٹیم کے ساتھ موجود پولیس اہلکار آئے اور اُنھوں نے لوگوں کو زخمی ان کے حوالے کرنے کے لیے کہا لیکن لوگ نہیں مانے جس پر پولیس اہلکاروں نے فائرنگ بھی کی جس کے بعد لوگ مشتعل ہو گئے اور اُنھوں نے پولیس پر بھی حملہ کر دیا۔
مقامی لوگوں کے مطابق ایک بجے کے قریب بھاری تعداد میں پولیس اور رینجرز پہنچے جس کے بعد وہاں سے لاشیں اٹھائی گئی ہیں۔
فلاحی تنظیم ایدھی اور چھیپا فاؤنڈیشن نے یہ لاشیں سول ہسپتال منتقل کیں۔ چھیپا فاؤنڈیشن کے ترجمان شاہد چھیپا کے مطابق 11 بج کر 35 منٹ پر اُنھیں کسی شہری نے فون کال کر کے بتایا کہ عوام نے دو ڈاکو مار دیے ہیں، اس اطلاع پر ان کی ایمبولینس پہنچ گئیں لیکن لوگ مشتعل تھے گاڑی جل رہی تھی۔ جب پولیس پہنچی اور لاش اٹھانے کو کہا تو اس کے بعد لاش کی منتقلی کی گئی۔
دونوں افراد ایک الٹو کار میں سوار تھے جس کو جائے وقوعہ سے تھوڑا دور جا کر نذر آتش کردیا گیا۔ ایک شہری نے بتایا کہ بچے گاڑی کو دھکیل کر اس کھلی جگہ پر لے گئے جہاں اسے جلایا گیا۔
ہلاک ہونے والوں کی شاخت انجینیئر ایمن جاوید اور ڈرائیور اسحاق پنھور کے نام سے ہوئی ہے۔ اس واقعے کی کئی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں 12 سے لے کر 70 سال تک کے عمر کے افراد اور یہاں تک کہ برقع پوش خواتین بھی ان پر پتھر برساتے ہوئے اور تشدد کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔
ایک ویڈیو میں ایک نوجوان کی آواز آتی ہے: ’ان کی وجہ سے محلے والے سکون سے سو نہیں سکتے۔ صحیح ہے صحیح ہے، دوبارہ اب ایسا کوئی نہیں سوچے گا۔‘ ایک اور آواز آتی ہے ’مارو، جلاؤ جلاؤ تاکہ انھیں پتہ چلے بنگالی پاڑے میں آنے کا نتیجہ۔‘
پولیس کی بے بسی
ویڈیوز میں کئی ہاتھ نظر آتے ہیں جو ویڈیوز بنا رہے ہیں اور مسلسل سنگ باری جاری رہتی ہے۔ ایک ویڈیو میں نظر آتا ہے کہ دو پولیس اہلکار موجود ہیں لیکن ہجوم بغیر کسی خوف کے پتھر برسا رہا ہے، اہلکار انھیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو لڑکے ان کو پکڑ لیتے ہیں۔ اس وقت قمیض شلوار پہنا شخص کھڑا ہو جاتا ہے لیکن اسے لاٹھیوں سے مارا جاتا ہے اور سر پر پتھر مارنے سے وہ گر جاتا ہے۔
ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ موٹر سائیکل پر سوار اہلکار پہلے پہنچے اس وقت ایک شخص کی سانس چل رہی تھی لوگ اسے ٹانگ سے پکڑ کر کھڑے تھے اور کہا کہ جب تک مرے گا نہیں وہ چھوڑیں گے نہیں۔ انھوں نے چھڑوانے کی کوشش کی لیکن ان پر پتھروں سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں چار اہلکار زخمی ہو گئے۔
کراچی پولیس ترجمان کے مطابق ڈاکس پولیس نے قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے جبکہ ویڈیوز کی مدد سے نو افراد کی نشاندہی کی ہے جن میں سے تین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ہلاک ہونے والے انجینیئر ایمن جاوید کے کزن عارف غوری نے بی بی سی کو بتایا کہ 27 سالہ جاوید ٹیلی کام میں انجینیئر تھے، وہ سائٹ ٹو سائٹ جاتے تھے اور سگنلز کی شکایات دور کرتے تھے، صبح کو بھی کمپنی کی گاڑی میں شکایت پر مچھر کالونی پہنچے تھے جہاں انھوں نے راستہ پوچھا جس پر ان پر حملہ کر دیا گیا اور وہ ہلاک ہو گئے۔
پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی مرکز حالیہ دنوں میں دوبارہ سٹریٹ کرائم کا سامنا کر رہا ہے۔ چند سال قبل آپریشن کے بعد اس میں نمایاں کمی واقع ہوئی تھی مگر اب اس میں دوبارہ تیزی آ گئی ہے۔
اس کرائم کی وجہ سے رات کو 10 بجے سے پہلے کئی علاقوں میں کاروبار بھی بند کر دیا جاتا ہے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم پلس نے کراچی میں سٹریٹ کرائم پر ایک تحقیق کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان جرائم سے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔
پلس کے کنسلٹنٹ کاشف حفیظ کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے کراچی کے ساتوں اضلاع میں ایک مطالعہ کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ سٹریٹ کرائمز میں اضافہ کراچی والوں کو مزید خوفزدہ کر رہا ہے اور انھیں مزید غیر محفوظ محسوس کر رہا ہے۔
اس سروے کے جواب دہندگان میں ہر 10 میں سے سات لوگ ایسے ہیں جو خود یا ان کا کوئی قریبی رشتے دار یا جاننے والا سٹریٹ کرائم کا شکار ہوا ہے۔