کانگریس کے پوسٹر سے مولانا آزاد کی تصویر غائب یہ شو بوائے سے نو بوائے تک کا سفر ہے
انڈیا کی سیاسی جماعت کانگریس نے اپنے 85 ویں سالانہ اجلاس کے اشتہار سے مسلم رہنما مولانا ابوالکلام آزاد کی تصویر کی عدم موجودگی پر معافی مانگی ہے۔
کانگریس نے اپنی جماعت کے چند لیڈروں اور مسلم رہنماؤں کی جانب سے اعتراض کے بعد اس بھول کے لیے معافی مانگی ہے۔ سینیئر کانگریس رہنما جے رام رمیش نے ایک ٹویٹ میں اسے ’ناقابل معافی بھول‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ذمہ داران کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر جہاں ایک جانب احتجاج نظر آ رہا ہے وہیں بی جے پی رہنما کانگریس کے ’ووٹ بینک‘ کی سیاست کو طنز کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ مولانا آزاد انڈیا کی جدوجہد آزادی اور کانگریس کی سیاست میں کلیدی کردار کی حامل شخصیت رہے ہیں۔
انھوں نے برطانوی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں دس سال جیل میں گزارے جبکہ کانگریس کے دو بار صدر بھی رہے۔ اس کے علاوہ وہ انڈیا کے پہلے وزیر تعلیم بھی تھے۔
واقعہ کیا ہے؟
کانگریس نے اتوار کو انڈیا بھر کے معروف اخبارات میں اپنے 85ویں سالانہ اجلاس کا اشتہار دیا جس میں کانگریس کے دس معروف رہنماؤں کی تصویریں تھی۔
ان میں مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل، بی آر امبیڈکر، سبھاش چندر بوس، سروجنی نائیڈو، لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور پی وی نرسمہا راو شامل ہیں۔
اگرچہ مولانا آزاد کی تصویر اخباروں سے غائب تھی لیکن کانگریس کے اجلاس میں لگائے گئے ڈائس کے پیچھے ان کی تصویر خاصی نمایاں نظر آتی ہے۔
یہ اجلاس چھتیس گڑھ کے دارالحکومت رائے پور میں منعقد ہوا۔ اس میں ملک بھر سے کانگریس کے تقریباً 15 ہزار اراکین نے شرکت کی۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اکیڈمی آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں استاد پروفیسر محمد سہراب نے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ مسلمانوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے کہ کانگریس نے لگاتار اپنے عمل سے اس بات کو ثابت کیا، جس کا الزام آزادی سے قبل مسلمان کانگریس پر لگاتے رہے ہیں۔‘
انھوں نے اس پس منظر میں مولانا آزاد کی کانگریس میں حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے ’کانگریس کے شو بوائے سے نو بوائے‘ تک کا سفر ہے۔
یاد رہے کہ ابوالکلام آزاد جب کانگریس کے صدر منتخب ہوئے تو جناح نے انھیں کانگریس کے ’شو بوائے‘ کا خطاب دیا تھا۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
کانگریس رہنما منیش تیواری نے لکھا کہ ’انڈین نیشنل کانگریس کے پاس مسلم رہنماؤں کا ایک یادگار سلسلہ ہے جنھوں نے خاص طور پر اپنی برادری کے اندر فرقہ وارانہ رجحانات کے خلاف جدوجہد کی جس کی وجہ سے پاکستان کی تخلیق ہوئی تھی اور خود کو انڈیا کے جامع خیال کے لیے وقف کر دیا۔ کوئی تاریخ کے صفحات سے ان کی شراکت کو مٹانا چاہتا ہے۔‘
مصنف سودھیندر نے اس اشتہار کو شیئر کرتے ہوئے دو سوالات پوچھے۔ انھوں نے لکھا کہ کیا کانگریس اس کی وضاحت کر سکتی ہے؟ (1) اوپر والے رہنماؤں میں سے ایک تو کبھی کانگریس میں تھے ہی نہیں۔ در حقیقت وہ اس کے سخت ترین ناقد تھے، آزادی سے پہلے بھی اور آزادی کے بعد بھی۔ انھیں کیوں شامل کیا گيا؟ (2) پارٹی نے ابوالکلام آزاد تمام مسلم رہنماؤں کو کیوں شامل نہیں کیا؟‘
ان کے جواب میں ایک صارف نے لکھا کہا کہ بی آر امبیڈکر کو اس لیے شامل کیا گیا کیونکہ نہرو نے انھیں ناقد ہونے کے باوجود آئین ہند کی ڈرافٹنگ کمیٹی کا چیئرمین بنایا تھا۔
جبکہ کچھ صارفین نے سبھاش چندر بوس کی تصویر پر بھی تنقید کی کیونکہ انھوں نے کانگریس سے رشتہ توڑ لیا تھا۔
ایک صارف نے فیس بک پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ نہرو خاندان کے علاوہ پٹیل، شاستری، سروجنی نائیڈو اور نرسمہا راؤ کی تصویریں معنی خیز ہیں مگر اس سے زیادہ معنی خیز اور افسوسناک ایک ایسی تصویر( مولانا ابوالکلام آزاد) کا اس میں نہ ہونا ہے، جس کے بغیر کانگریس، کانگریس نہیں ہو سکتی۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’مولانا نہ صرف سخت مشکل وقت میں دو بار اس کے صدر رہے بلکہ کانگریس کی فکری ساخت اور جمہوریت کو نظریاتی اساس فراہم کرنے بلکہ آزاد ہندوستان کی تشکیلِ نو میں ان کا کردار قوم کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس معاملے پر بی جے پی بھی کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔
بی جے پی کے آئی ٹی انچارج امت مالویہ نے لکھا کہ ’یہ ایک ناقابل فہم غلطی کے سوا کچھ بھی ہے۔ یہ مولانا آزاد کی کانگریس کے لیے مسلم ووٹ حاصل کرنے کی کم ہوتی حیثیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے سوا اور کوئی وضاحت نہیں۔ کانگریس کو ٹیپو سلطان اور اورنگزیب جیسے متعصبوں میں نئے آئیکن مل گئے ہیں۔ کانگریس ووٹ بینک کی سیاست کے لیے مسلم شبیہیں استعمال کرتی ہے۔‘
مولانا آزاد کون تھے؟
مولانا ابوالکلام آزاد 11 نومبر 1888 کو سعودی عرب کے شہر مکہ میں ایک ہندوستانی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
ہندوستان میں سنہ 1857 کی ناکام بغاوت کے بعد ان کا خاندان مکہ چلا گیا تھا لیکن ان کے والد مولانا خیرالدین سنہ 1898 کے دوران اپنے خاندان سمیت ہندوستان لوٹے آئے اور کلکتہ میں سکونت اختیار کی۔
آزاد کو بچپن سے ہی کتابوں کا شوق تھا۔ جب وہ 12 سال کے تھے تو انھوں نے بچوں کے رسالوں میں مضامین لکھنا شروع کر دیے تھے۔
سنہ 1912 میں آزاد نے ’الہلال‘ کے نام سے ایک رسالہ شروع کیا۔ اس کے بعد انھوں نے ‘البلاغ’ کے نام سے بھی ایک رسالہ نکلا۔
الہلال میں شائع مضامین کے لیے آزاد کو سنہ 1916 تک بنگال چھوڑنے کا حکم دیا گیا اور انھیں اس وقت کے معروف شہر رانچی میں نظر بند کر دیا گیا۔
وہ دو قومی نظریے کے مخالف اور قومی یکجہتی کے حامی تھے انھوں نے مسلم ليگ کی کھل کر مخالفت کی تھی۔
سیاسی منظرنامے میں ابھرنے کے بعد آزاد نے قومی اتحاد کو آزادی کا سب سے اہم ہتھیار قرار دیا تھا۔
وہ دو بار کانگریس کے صدر منتخب ہوئے اور تقریبا سات سال تک صدر رہے۔ وہ کئی بار جیل گئے اور دوران صدارت بھی جیل میں رہے۔ مجموعی طور پر انھوں نے دس سال جیل میں گزارے۔
آزادی کے بعد وہ انڈیا کے پہلے وزیر تعلیم مقرر ہوئے۔ جواہر لعل نہرو نے انھیں انڈیا کی ثقاقت کا فنشڈ پروڈکٹ قرار دیا تھا۔
مولانا آزاد نے کئی کتابیں تحریر کی ہیں۔ اس کے ساتھ قرآن مجید کی تفسیر بھی لکھی ہے۔ ان کی کتاب ‘غبار خاطر’ خطوط کا مجموعہ ہے جسے اردو ادب کی بہترین تحریر قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی ایک کتاب ’انڈیا ونز فریڈم‘ بھی قابل ذکر ہے جس کا کچھ حصہ ان کی وصیت کے مطابق کتاب کی اشاعت کے 30 سال بعد شائع ہوا۔
ان کا انتقال 22 فروی سنہ 1958 کو دہلی میں ہوا اور دہلی کی تاریخی جامع مسجد کی سیڑھیوں کے قریب مدفون ہیں اور اس سے متصل ایک مسجد بھی ہے۔