ژاؤ جیانہوا چینی ارب پتی کو ’غبن، رشوت ستانی‘ کے جرم میں 13 برس قید کی سزا
ایک چینی نژاد کینیڈین ارب پتی شخصیت، جو پانچ سال قبل ہانگ کانگ سے لاپتہ ہو گئے تھے، کو چین میں 13 سال قید کی سزا اور ان کی کمپنی پر آٹھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔
ژاؤ جیانہوا اور ان کی کمپنی ٹومارو ہولڈنگز پر شنگھائی کی عدالت میں غبن اور رشوت کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
چین کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک ژاؤ کو سنہ 2017 میں آخری مرتبہ ہانگ کانگ کے ایک لگژری ہوٹل سے کہیں لے جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
ان کی جانب سے اس کے بعد سے کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا تھا تاہم جولائی میں کینیڈین سفارت خانے نے کہا تھا کہ انھیں مقدمے کا سامنا کرنا ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق یہ مقدمہ چار جولائی کو شروع ہونا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے شنگھائی کی عدالت کی جانب سے جاری اعلامیے کا حوالے دیتے ہوئے لکھا کہ ژاؤ اور ان کی کمپنی پر ‘غیرقانونی طریقوں سے عام لوگوں کا پیسہ ہتھیانے، فنڈز کے غیر قانونی استعمال اور متعلقہ اراضی کے استعمال سے متعلق ضابطے کی خلاف ورزی’ جیسے الزامات ثابت ہوئے ہیں۔
اس اعلامیے می یہ بھی کہا گیا ہے کہ ٹومارو ہولڈنگز پر ‘رشوت ستانی’ کا جرم بھی ثابت ہوا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ژاؤ اور ان کی کمپنی نے ‘فنانشل مینجمنٹ آرڈر کی صریحاً خلاف ورزی کی ہے’ اور ‘سرکاری مالی سکیورٹی کو نقصان’ پہنچایا ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ژاؤ اور ان کی کمپنی نے ان جرائم کا اعتراف کیا ہے اور اس دوران انھوں نے حکام کی معاونت بھی کی، اس لیے ان کی سزا میں تخفیف کی گئی۔
جولائی میں کینیڈین سفارت خانے کا کہنا تھا کہ ان کے سفیروں کو مقدمے تک رسائی نہیں دی جا رہی ہے۔
جمعے کو جب چین کی وزارتِ خارجہ سے پوچھا گیا کہ کیا کینیڈین شہری ہونے کی وجہ سے ژاؤ کینیڈین قونصلر رسائی کے حق دار نہیں ہیں تو چین کی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ چین دہری شہریت کو نہیں مانتا، اس لیے ژاؤ کو یہ رسائی نہیں مل سکتی۔
اطلاعات کے مطابق ژاؤ کے کمیونسٹ جماعت کے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ قریبی روابط تھے اور ان میں صدر شی کی فیملی بھی شامل تھی۔
چین کی امیر ترین شخصیات کی درجہ بندی کرنے والی ہورون رپورٹ کے مطابق سنہ 2016 تک ان کی کل دولت چھ ارب ڈالر تک جا پہنچی تھی۔
ژاؤ جیانہوا کے ساتھ کیا ہوا؟
سنہ 2017 میں ژاؤ کو ہانگ کانگ کے فور سیزنز ہوٹل سے اٹھا کر لے جایا گیا تھا جہاں وہ اس وقت رہ رہے تھے۔
ان کی فیملی نے ان کے لاپتہ ہونے کے بعد ہانگ کانگ کے حکام کو ایک رپورٹ درج کروائی تھی تاہم ایک روز بعد اسے واپس لے لیا تھا اور کہا تھا کہ ان کا ژاؤ کے ساتھ ‘رابطہ بحال ہو چکا ہے۔’
ہانگ کانگ پولیس کا کہنا تھا کہ موقع سے ملنے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ژاؤ ہوٹل سے کسی قسم کے دباؤ میں نہیں نکلے تاہم پولیس نے یہ فوٹیج ریلیز کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ژاؤ نے بعد میں ایک بیان جاری کیا جسے ایک مقبول اخبار کے پہلے صفحے پر شائع کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ انھیں بیرونِ ملک علاج فراہم کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے چین میں ‘نظامِ قانون’ کی تعریف کی اور کہا کہ انھیں اغوا کر کے چین نہیں لے جایا گیا۔
ان کی کمپنی نے ژاؤ کی طرف سے بیانات جاری کیے اور بتایا کہ وہ ٹھیک ہیں۔ تاہم بعد میں انھیں ہٹا دیا گیا۔