ڈووین ’دی راک‘ جانسن جیسے ریسلر ہالی وڈ کے کامیاب سٹارز کیسے بن جاتے ہیں؟
کہا جاتا ہے کہ فلم سٹارز کا دور ختم ہو گیا ہے۔ کم از کم باکس آفس کا رجحان آپ کو یہی بتاتا ہے۔ ماضی کے برعکس ہالی وڈ کے فلم سٹوڈیوز اب ستاروں کے بجائے معروف برانڈز کو فلموں کی مقبولیت کا مرکزی نقطہ مانتے ہیں۔
2010 کی دہائی میں سب سے زیادہ بین الاقوامی کاروبار کرنے والی فلموں میں سے تقریباً ساری یا تو کسی فرینچائز کا حصہ تھیں یا کسی پرانی فلم کو دوبارہ بنایا گیا تھا۔ یہ 1990 کی دہائی کے بالکل برعکس ہے جب دہائی کہ دس سب سے مقبول فلموں نئے خیالات یا پھر بروس ولس، ٹام ہینکس اور وِل سمتھ جیسے ستاروں کے زور پر چلتی تھیں۔ اب وہ دن چلے گئے ہیں کہ آپ کسی سٹار کو فلم کے پوسٹر پر ڈالیں تو منافع یقینی تھا۔
مگر اس سب میں ایک شخص ہے جو اس رجحان کے برعکس چلتا ہے۔ اور وہ ڈووین ’دی راک‘ جانسن۔
اپنے کیریئر کا آغاز ڈبلیو ڈبلیو ای میں بطور ریسلر کرنے کے بعد وہ تقریباً سنہ 2000 کے آس پاس فلموں کی دنیا میں آگئے تھے۔ 2002 میں انھوں نے پہلی مرتبہ بطور مرکزی کردار دی سکورپیئن کنگ میں کام کیا جس کے لیے انھیں 55 لاکھ ڈالر دیے گئے جو کہ کسی بھی اداکار کے لیے اپنے پہلے اہم کردار کے لیے ایک ریکارڈ ہے۔
دی راک اب ایک مستند فلم سٹار بن چکے ہیں اور ان کی فلموں نے دنیا بھر میں 10 ارب ڈالر سے زیادہ کمائے ہیں۔
باکس آفس کے ماہر چارلز گرانٹ کہتے ہیں کہ ’بہت تھوڑے سٹارز پر اب تکیہ کیا جا سکتا ہے اور ڈووین جانسن ان چند ستاروں کی فہرست پر سب سے اوپر ہیں۔‘
حال میں جس تازہ ترین بلاک بسٹر کا انحصار ڈووین جانسن پر ہے وہ ڈزنی کی فلم جنگل کروز ہے جو کہ اس ہفتے دنیا بھر میں ریلیز ہو رہی ہے۔
ڈزنی لینڈ میں اسی نام کے ایک جھولے سے متاثر ہو کر بنائی گئی اس فلم میں جانسن فرینک والف کا کردار ادا کر رہے ہیں وہ کہ 20 ویں صدی میں ایک سٹیم کشتی کا ضدی مگر ایماندار کپتان ہے اور اسے ایک برطانوی سائنسدان کو ایمازون کے دریا میں ایک ’زندگی کے درخت‘ کی تلاش میں لے کر جانا ہے۔
ادھر ڈووین جانسن نے جہاں ہالی وڈ میں چلتے ایک رجحان کو توڑا ہے وہیں انھوں نے ایک اور شروع بھی کیا ہے۔ اس وقت وہ واحد ڈبلیو ڈبلیو ای سٹار نہیں ہیں جو ہالی وڈ میں مقبول ہیں۔ بلکہ اس وقت ہالی وڈ کے تین بڑے ستارے کشتی کے رنگز سے آئے ہیں۔
اس سال کی دو بڑی فلموں میں اہم کردار ادا کرنے والوں میں ڈووین جانسن کے ڈبلیو ڈبلیو ای میں مقابل جان سینا ہے جو کہ فاسٹ اینڈ فیریئس میں ون ڈیزل کے بھائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جان سینا اسی ہفتے ڈی سی کامکس کی دی سوئسائڈ سکواڈ میں خونی اینٹی ہیرو پیس میکر کا کردار بھی ادا کرتے نظر آئیں گے۔
ان کے علاوہ ڈیو باٹسٹا وہ تیسرے پہلوان ہیں جو فلم سٹار بن کر ہمارے آج سامنے ہیں۔ حال ہی میں وہ نیٹ فلکس کی آرمی آف ڈیڈ میں نظر آئے اور جلد ہی فرینک ہربرٹ کی مشہور فلم ڈیون کے نئے ایڈیشن میں بھی پردے پر ہوں گے۔
تو کیا بات ہے کہ ڈبلیو ڈبلیو ای کے کشتی کرنے والے پہلوان 21 ویں صدی میں سینما پر چھائے ہوئے ہیں۔
ریسلنگ کے صحافی اور فگر فور نامی جریدے کے ایڈیٹر برائن الوارز کہتے ہیں کہ جان سینا اور ڈووین جانسن دونوں میں کچھ ایسی خصوصیات تھیں کہ وہ پہلے دن سے ہی ہالی وڈ کے لیے بہترین امیدوار تھے اور پہلے دن سے ہی وہ ایسے لوگ تھے جو کہ سپر سٹار بن سکتے تھے۔
ڈووین جانسن کی کامیابی کی وجہ
ماضی میں ڈووین جانسن دی راک کے نام سے جانے جاتے تھے اور وہ اپنے والد راکی جانسن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کشتی میں آئے۔ راکی جانسن ڈبلیو ڈبلیو ای کے پہلے سیاہ فام چیمپیئن بھی بنے جب 1983 میں انھوں نے ٹونی ایٹلس کے ستھ ایک ٹیگ ٹیم بنائی تھی۔ ان کے بیٹے نے 1996 میں ریسلنگ شروع کی اور 2004 میں انھوں نے ریسلنگ کو خیرآباد کہہ دیا کیونکہ ان کا فلمی کیریئر پروان چڑھ رہا تھا۔
مگر وہ کبھی کبھی اکھاڑے میں واپس ضرور لوٹتے تھے۔ ان کا آخری اہم میچ جان سینا کے خلاف ریسل مینیا 29 میں ہوا جس کے بعد انھوں نے 2019 میں اس کھیل سے باقاعدہ ریٹائرمنٹ لے لی۔
یہ ڈبلیو ڈبلیو ای کا اکھاڑا ہی تھا جہاں سے جانسن کے عالمی سپر سٹار بننے کا سفر شروع ہوا۔ اپنے ریسلنگ کیریئر کے آغاز میں تو انھیں مداحوں کے دل جیتنے میں مشکل ہوئی میں اس کے بعد سے وہ ہمیشہ لوگوں کے فیوریٹ رہے اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ ریسلنگ کی تاریخ کے مقبول ترین کھلاڑی کے طور پر ابھرے اور کامیاب ترین میچز میں شرکت کی۔
ریسلنگ کی دنیا میں ان کے جملے انتہائی مقبول ہوئے، ان کا بھنویں ہلانے کا مخصوص انداز، اور اتنے بڑے حجم والے شخص میں اتنی پھرتی نے انھیں ریسلنگ کی دنیا میں مقبول ترین بنایا تھا۔ 2001 میں 20 سال کی عمر میں جب ان کا ریسلنگ کیریئر اپنے عروج پر تھا تو ریسل مینیا 17 میں ان کا میچ تاریخ کا سب سے زیادہ دیکھا گیا پےپر ویو میچ تھا اور چند ہفتے بعد ہی انھوں نے اپنے فلمی کیریئر کا پہلا بڑا کردار سکورپیئن کنگ میں شوٹ کرنا شروع کر دیا تھا۔
جانسن جلد ہی ڈبلیو ڈبلیو ای کی روشنیوں سے ہٹ کر ہالی وڈ کے کیمروں کے سامنے سٹار بن رہے تھے۔ مگر وہ ایسا کرنے والے پہلے شخص نہیں تھے۔
1980 کی دہائی کے مقبول ترین ریسلر ہلک ہوگن 1982 میں راکی تھری فلم میں آئے۔ اس کے علاوہ اس دہائی کے آخری میں مختلف سکینڈلز اور اپنے ریسلنگ کیریئر میں زوال کی وجہ سے انھوں نے فلمی دنیا کا پھر رخ کیا تھا۔ مگر ہلک ہوگن کا فلمی کیریئر کچھ زیادہ یادگار نہیں تھا۔ ان کا پبلک امیج ایک اچھے شخص کا بنا ہوا تھا اور اسی لیے انھیں جو کردار دیے جاتے تھے وہ بھی ایک مثبت شخص کے جو آپ کو نصیحتیں کرتا ہو اور اچھی باتیں بتاتا ہو۔
ہلک ہوگن کی پہلے فلم جس میں وہ مرکزی کردار ادا کر رہے ہوں 1989 کی ایکن فلم نو ہولڈز بارڈ تھی اور یہ شاید فلمی دنیا میں آنے کی ان کی واحد سنجیدہ کوشش تھی۔
مگر یہ اس قدر ناکام رہی کہ ڈبلیو ڈبلیو ای کے باس ونس مکمیحن جنھوں نے اس فلم پر پیسے لگائے تھے، بعد میں مذاق کرنے لگے تھے کہ ہلک ہوگن نے اس فلم کی ناکامی کے انھیں پیسے دینے ہیں۔
اس کے بعد انھوں نے کامیڈی کی کوشش کی اور 1991 میں سبئربن کمانڈ کی جس میں وہ خلائی مخلوق ہوتے ہیں جو زمین پر آ کر ایک امریکن فیملی میں پھنس جاتی ہے، کا کردار ادا کرتے ہیں اور 1993 میں مسٹر نینی میں ایک امیر آدمی کے بچوں کے باڈی گارڈ کا کردار ادا کرتے ہیں۔
مگر یہ فلم آرنلڈ سواٹسنیگر کی 1990 کی کنڈر گارڈن کوپ کے مقابلے میں بالکل پھیکی تھی۔
ان کے علاوہ جن ریسلرز نے ہالی وڈ میں آنے کی کوشش کی ہے ان میں جیسی ونچورا، اور سٹیو آسٹن ہیں۔ 1987 میں دی پرنسز برائڈ کے مداحوں کو آنڈرے دی جائنٹ کا چھوٹا سا کردار بھی یاد ہوگا جو کہ ایک اطالوی مافیا کے کام کرتا ہے۔ اگرچہ اس قدر میں وہ کافی چمکے مگر سٹار بننا شاید ان کی قسمت میں نہیں تھا۔
بعد میں انھوں نے راب رائنر کی ایک فلم یں کام کیا مگر کشتی کے کئی سالوں کی وجہ سے ان کے گھٹنوں میں شدید تکلیف تھی اور وہ 46 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔
موجودہ تینوں سٹارز کو جو چیز منفرد بناتی ہیں وہ یہ ہے کہ سکرین پر ان کے پاس دیکھانے کو طاقت کے علاوہ بھی کئی صلاحیتیں ہیں۔ بظاہر وہ وہ باڈی بلڈرز کی طرح آرنلڈ یا سلوسٹر سٹالون لگتے ہیں مگر وہ صرف بڑے بڑے مرد جو بدمعاشوں کے کردار کرتے ہوں نہیں بلکہ مزاح کے بھی ماہر ہیں۔ جانسن کی خاص بات یہ ہے کہ انھیں آپ مسلز والا سینٹا کلاز کہہ سکتے ہیں۔
جان سینا ہالی وڈ میں بیوقوفوں کے بادشاہ بننے ہوئے ہیں اور بٹیسٹا اپنے کرداروں میں اپنی جسمات کو اس طرح اس استعمال کرتے ہیں کہ انھیں صرف ریسلنگ کے مداح ہی نہیں سبھی چاہنے لگتے ہیں۔
مردانگی کو ایک طرف رکھیں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ ریسلنگ کا اکھاڑا ہالی وڈ میں شہرت حاصل کرنے کے لیے ایک زبردست جگہ ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں آپ عوام کو خوش کرنے کے لیے پرفارمنس دکھا سکتے ہیں جو بیک وقت زبردست بھی ہو سکتی ہے اور مضحکہ خیز بھی۔
کشتی کا اکھاڑا، فنکاری کی ایک جگہ
مردانگی کے مظاہروں کے علاوہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کشتی کا اکھاڑا ہالی وڈ سٹار بننے کی پریکٹس کے لیے بہترین جگہ ہے۔ یہ وہ جگہ ہے کہاں پر آپ کئی قسم کی مداحوں کی پسند کی پرفارمنسز دے سکتے ہیں۔
الواریز کہتے ہیں کہ ’بنیادی طور پر کشتی میں تو لوگ کردار ہی نبھا رہے ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ڈبلیو ڈبلیو ای میں جہاں پہلوانوں کو سکریپ دیے جاتے ہیں، جو انھیں کیمروں کے آگے بولنے ہوتے ہیں۔ وہ ایسے کردار نبھاتے ہیں جو کئی بار ان کی ذات سے بہت مختلف ہوتے ہیں اور انھیں خیالی صورتحال کی ایکٹنگ کرنی ہوتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’جانسن نے ریسلنگ کا ایک مخصوص فائدہ اٹھایا اور مداحوں سے تعلق بنانے کا ایک نایاب طریقہ پکا کیا۔ ’انھوں نے اپنی مسکراہت، اپنی آنکھوں کے اور بھنووں کو ہلانا سیکھا۔ انھیں ہر رات یہ پتا چلتا تھا کہ کیا چیز مداحوں میں کامیاب ہوتی ہے اور کیا نہیں۔‘
ادھر بٹیسٹا نے اپنے ریسلنگ کے کردار کو بالکل الٹا کر کے رکھ دیا ہے۔ ریسلنگ میں انتہائی سنجیدہ کردار دیکھاتے ہیں جبکہ اب وہ مزاح کے ماہر ہیں۔
اور جان سینا کو ایک پسندیدہ ہیرو بن گئے ہیں جیسے کہ کیپٹن امریکہ مگر جینز کی شارٹس پہننے ہوں۔
ان تینوں کی کامیابی کے بعد کیا ریسلنگ کی دنیا سے ہالی وڈ تک ٹیلنٹ کی پائپ لائن قائم کی جا سکتی ہے۔ بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ بہت سے انھی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے آگے آ سکتے ہیں۔