ڈونلڈ ٹرمپ سینیٹ میں سابق امریکی صدر کے مواخذے کی کارروائی کا ممکنہ نتیجہ کیا ہو سکتا ہے؟
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے مواخذے کی باقاعدہ کارروائی آج سے (منگل) سینیٹ میں ہونے جا رہی ہے۔ اُن پر اپنے سپورٹرز کو تشدد پر اُکسانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
ڈیموکریٹ پارٹی سمجھتی ہے کہ ٹرمپ کے خلاف کافی شواہد ہیں جبکہ سابق صدر کا دفاع کرنے والے وکلا کا کہنا ہے کہ ان مظاہرین نے کسی کے اکسانے پر نہیں بلکہ اپنے طور پر کیپیٹل ہل پر حملہ کیا تھا۔ سینیٹ کے ممبران نے یہ کارروائی جلد از جلد نمٹانے کے طریقہ کار پر اتفاق کیا ہے۔
گذشتہ ماہ ٹرمپ وہ پہلے امریکی صدر بن گئے تھے جن کا مواخذہ نامناسب رویے کی بنا پر دوسری مرتبہ کانگریس نے منظور کیا تھا۔
کانگریس میں ڈیموکریٹ اور کچھ رپبلکن اراکین نے اکثریتی ووٹ کے ساتھ ٹرمپ کو کیپیٹل ہل میں ہونے والے تشدد کا ذمہ دار قرار دیا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے اپنے حامیوں کو تشدد پر اُکسایا۔
اس آرٹیکل میں کہا گیا کہ ٹرمپ نے انتخابی دھاندلی کی بنیاد پر بے بنیاد الزامات عائد کیے اور انھوں نے چھ جنوری کو اپنے حامیوں کو مائل کیا کہ وہ کانگریس پر حملہ کریں۔ ٹرمپ اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔
اب اس مواخذے کی کارروائی سینیٹ میں چلائی جائے گی جس میں اراکین فیصلہ کریں گے کہ آیا ٹرمپ پر یہ الزام ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔ امریکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایک سابق صدر کے مواخذے کی کارروائی ان کے عہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی چلائی جا رہی ہے۔
سینیٹ سے مواخذے کی کارروائی منظور ہو گئی تو ٹرمپ دوبارہ کبھی امریکی صدرارت کا الیکشن نہیں لڑ سکیں گے یعنی وہ صدارت کے عہدے کے لیے نااہل ہو جائیں گے۔
اکثر ہم فلم انڈسٹری میں دیکھتے ہیں کہ کسی سیریز کی پہلی فلم بعد میں بننے والے سیکول سے بہتر ثابت ہوتی ہے۔ لیکن بعض فلموں میں ایسا نہیں ہوتا، جیسے ’بیٹ مین‘ کی ’دی ڈارک نائٹ‘ یا ’گاڈ فادر ٹو‘۔ تو اب مواخذہ نمبر دو سے متعلق ہماری کیا توقع ہونی چاہیے؟
اس مواخذے کی کہانی بھی کچھ ویسی ہی لگ رہی ہے جیسا کہ مواخذے کی پہلی کارروائی میں ہوا تھا۔
پہلے مواخذے میں صدر ٹرمپ پر الزام لگا کہ انھوں نے یوکرین میں اپنے ہم منصب سے فون پر بات کی اور ان سے جو بائیڈن کے بیٹے کی انرجی کمپنی سے متعلق دریافت کیا جو وہاں ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے تھے۔ کہا گیا کہ یہ طاقت کا غلط استعمال تھا۔
یہ چھ جنوری کو ہونے والے واقعے سے مختلف تھا جس میں ٹرمپ کے حامیوں نے ان کی ایک تقریر سننے کے بعد کانگریس پر حملہ کیا۔
یہ زیر بحث نہیں کہ اس مشتعل گروہ نے سنہ 2020 کے صدارتی انتخاب کے نتائج کی منظوری کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ اس واقعے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے اور شاید ہی کوئی ایسا امریکی شہری ہو جس نے اس واقعے پر رائے زنی نہ کی ہو۔
جس چیمبر میں یہ مقدمہ چلایا جائے گا وہ ایک کرائم سین بھی ہے کیونکہ یہی وہ مرکز ہے جہاں امریکی جمہوریت پر حملہ ہوا تھا۔ جو ممبران سابق صدر کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے وہ اس حملے کے دوران خود کو متاثرہ افراد سمجھ رہے ہوں گے۔
تو ایسے میں کیا اس بات کے امکانات ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا مقدمہ منصفانہ ہو گا؟
سینیٹ میں مواخذے کی کارروائی میں 100 سینیٹرز کی جیوری (پنچائیت) ہو گی جن میں رپبلکن اور ڈیموکریٹ جماعت کے اراکین شامل ہیں۔ یہ کارروائی بھی سیاسی نوعیت کی ہو سکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف جب شواہد فراہم کیے جائیں گے تو کتنے اراکین اپنے ووٹ تبدیل کریں گے؟ یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ کوئی بھی ایسا کرے گا۔
ڈیموکریٹ اراکین ٹرمپ پر فرد جرم عائد کرنے کے حق میں ووٹ ڈالیں گے جبکہ رپبلکن جماعت میں تین بنیادوں پر گروہ بندی ہو سکتی ہے۔ خیال ہے کہ یہ تقسیم سیاسی نوعیت کی ہو گی۔
ایسے رپبلکن اراکین بھی ہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں اور کبھی انھیں ’تشدد پر اُکسانے‘ کا مرتکب قرار نہیں دیں گے۔ اور یہی وہ تین لفظ ہیں مواخذے کے آرٹیکل میں لکھے ہوں گے۔
لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جو چاہتے ہیں کہ سابق صدر ٹرمپ قوم کے ذہن سے نکل جائیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ نے امریکی جمہوری اقدار کو نقصان پہنچایا۔ لیکن وہ اپنے اس موقف کی بنیاد پر کسی جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہتے۔ کسی رپبلکن رہنما کے لیے یہ بُرا خواب ہو گا کہ اگر ٹرمپ کسی انتخاب میں ان کے مخالف امیدوار کے حق میں مہم شروع کر دیں۔
رپبلکن جماعت میں ایسے بہت کم رہنما ہیں جو سب کے سامنے کہہ سکتے ہیں کہ پارٹی کو ٹرمپ سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ ایک ایسا اقدام ہو گا جو سیاسی سوجھ بوجھ سے اٹھایا جائے گا۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ سینیٹرز اپنے ووٹروں کو اپنا فیصلہ کیسے سمجھائیں گے۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ مواخذے کی کارروائی کا نتیجہ کیا ہو گا؟
ڈیموکریٹ جماعت چھ جنوری کے واقعے اور اس کے اثرات پر بات کرے گی۔ کچھ رہنما اپنے اندر موجود خوف کا ذکر کریں گے۔ وہ کہیں گے کہ انھیں اس دن اپنی زندگی کو لاحق ایک خطرہ محسوس ہوا۔ مظاہرین ان کے دفاتر اور ہر کمرے میں گھس چکے تھے۔ اس سب کی ذمہ داری ٹرمپ پر عائد کی جائے گی۔
ٹرمپ کا دفاع کرنے والے وکلا دو دلائل پیش کریں گے۔
وکلا کہیں گے کہ امریکی آئین میں پہلی ترمیم کے مطابق اظہار رائے کی آزادی ہے۔ وہ تشدد پر اکسانے کے الزام کو یہ کہہ کر رد کریں گے۔ وہ یہ بھی کہیں گے کہ ٹرمپ نے چھ جنوری کو اپنے خطاب میں حامیوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ پُرامن اور حب الوطنی کے ساتھ کانگریس کی طرف مارچ کریں۔
لیکن یہ تقریر اس لیے اہم ہے کہ اس میں کہا گیا تھا کہ ’ہم بُری طرح لڑیں گے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہمارا ملک نہیں بچے گا۔‘ انھوں نے اپنے حامیوں سے یہ بھی کہا تھا کہ انھیں سخت لہجہ اپنانا ہو گا تاکہ وہ کمزور نہ لگیں۔
ان کے مقدمے پر ان کے ٹویٹ اور پیغامات بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے اپنے حامیوں سے مطالبہ کیا تھا کہ چھ جنوری کو واشنگٹن آئیں کیونکہ صورتحال خراب ہو گی۔
مظاہروں کے بعد ایک ویڈیو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے مظاہرین سے کہا تھا کہ وہ ان سے محبت کرتے ہیں اور یہ خاص لوگ ہیں۔ یہی وہ لوگ تھے جنھوں نے کانگریس پر دھاوا بولا تھا۔
انھوں نے ٹویٹ میں مظاہرین کے اقدام کا دفاع کیا تھا اور کہا تھا کہ ایسا تب ہوتا ہے جب آپ ’الیکشن کے نتائج چُراتے ہیں۔‘
انھوں نے بارہا یہ دعویٰ کیا کہ وہ بڑے فرق سے صدارتی انتخاب جیت گئے تھے لیکن اس بات کا کوئی ثبوت انھوں نے فراہم نہیں کیا۔
انھوں نے کہا تھا کہ الیکشن چرایا گیا لیکن ٹرمپ کے ہی دور میں تعینات کردہ ہر جج نے قانونی کارروائیوں کے دوران اس کی تردید کی۔ یہ مقدمات ان کی انتخابی مہم کے وکیل لڑ رہے تھے۔
الیکشن فراڈ کے الزامات ان کے اپنے تعینات کردہ اٹارنی جنرل ویلیم بار نے بھی مسترد کیے تھے۔ انھی کے نامزد کردہ انتخابی سکیورٹی کے سربراہ نے کہا تھا کہ الیکشن منصفانہ ہوئے ہیں۔
تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ٹرمپ کے اپنے الفاظ ان کا دفاع کامیابی سے کر سکیں گے۔
یہاں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ آئینی طور پر آیا ایک صدر کا مواخذہ اس کا عہدہ ختم ہونے کے بعد ہو سکتا ہے۔ وکلا کہیں گے کہ مواخذے کی کارروائی صرف ایک متحرک سیاستدان کے خلاف ہو سکتی ہے، نہ کہ ایک عام شہری (جو اب ٹرمپ ہیں) کے خلاف۔
وہ پوچھیں گے کہ آپ کسی پر کیسے پابندی لگا سکتے ہیں کہ وہ اب ایک عہدے پر نہیں رہ سکتا جبکہ وہ پہلے ہی یہ عہدہ چھوڑ چکا ہے؟ خیال ہے کہ یہ دلیل ہو گی جس کی بنیاد پر رپبلکن رہنما ٹرمپ کو بری الذمہ قرار دیں گے۔
ڈیموکریٹ رہنما کہیں گے کہ صدر کی حیثیت سے ٹرمپ نے کئی غلط کام کیے اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ عہدہ ختم ہونے کے بعد آپ ان الزامات سے بری ہو جائیں۔
ٹاک شو ہوسٹ جیمز کورڈن کے مطابق یہ ایسا ہے جیسے حد رفتار سے تجاوز کرنے پر ٹریفک پولیس آپ کو روکے اور اس کے جواب میں آپ کہیں کہ ’میں شاید پہلے گاڑی تیز چلا رہا ہوں گا لیکن اب تو میں رُکا ہوا ہوں۔ آپ مجھ پر یہ جرم عائد نہیں کر سکتے۔‘
مواخذہ نمبر دو کی کارروائی کے دوران کافی لوگ ٹی وی پر اپنی نظریں مرکوز رکھیں گے۔ لیکن زیادہ بہتر ہوتا اگر کارروائی کے دوران ٹرمپ سے سوال جواب ہوتا، جیسا کہ ڈیموکریٹ رہنما چاہتے تھے۔
لیکن خیال ہے کہ اس کا نتیجہ وہی ہو گا جو مواخذہ نمبر ایک میں ہوا تھا: ممکنہ طور پر انھیں بری الذمہ قرار دیا جائے گا۔