ڈاکٹر سلیمہ رحمان تمام تر مشکلات کے باوجود ڈاکٹر بننے اور پھر نانسن ایوارڈ جیتنے والی افغان مہاجر لڑکی
’میرے والد اور والدہ نے میری پیدائش کے دوران پہنچنے والی تکالیف پر فیصلہ کر لیا تھا کہ بیٹا ہو یا بیٹی اس کو ڈاکٹر بنائیں گے تاکہ وہ افغان مہاجرین کے علاوہ غریب لوگوں کی مدد کر سکے اور جن تکالیف کا سامنا ان کو کرنا پڑا کسی اور کو نہ کرنا پڑے۔‘
صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک میں رہائش پذیر افغان مہاجر ڈاکٹر سلیمہ رحمان کو اس سال اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین یو این ایچ سی آر نے افغان مہاجرین اور مقامی لوگوں کی غیر معمولی مدد کرنے پر ایشیا میں نانسن ریفیوجی ایوارڈ سے نوازا ہے۔
نانسن ایوارڈ ہر سال مختلف خطوں میں موجود ایسے مہاجرین کو دیا جاتا ہے جو مشکلات کے باوجود مقامی لوگوں کے علاوہ مہاجرین کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیتے ہیں۔
ڈاکٹر سلیمہ رحمان کو یہ ایوارڈ کورونا کی وبا کے دوران ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی اور افغان مہاجرین کے لیے غیر معمولی خدمات فراہم کرنے پر دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر سلیمہ رحمان کو پاکستان میں پہلی افغان مہاجر خاتون ڈاکٹر بھی قرار دیا جا رہا ہے جنھوں نے پاکستان میں مشکل حالات کے اندر تعلیم حاصل کی تھی۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کی پیدائش 1991 میں اس وقت ہوئی جب ان کے والدین صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے مہاجر کیمپ میں مقیم تھے۔ پیدائش کے وقت اُن کی والدہ کی طبیعت کچھ خراب ہوئی تو اُن کے والد اُنھیں لے کر مردان چلے گئے۔ جہاں پر زبان کا بھی بہت بڑا مسئلہ تھا۔
ہم لوگ ترکمان زبان بولتے تھے۔ والدین ڈاکٹر کے پاس جاتے تو مسئلہ بھی نہیں سمجھا پاتے تھے۔ پیسے خرچ کرنے کے لیے تھے نہیں۔ میر ے والد عبدالرحمان اور والدہ نے اسی وقت عہد کیا کہ دوسروں کی تکالیف کم کرنے کے لیے مجھے ڈاکٹر بنائیں گے۔‘
مشکلات میں گھرا ہوا بچپن
ڈاکٹر سلیمہ رحمان کا کہنا تھا کہ اُن کا بچپن مشکلات میں گھرا ہوا تھا۔ ’ہم چار بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ میرا نمبر دوسرا ہے۔ میں دو سال کی تھی جب والد صاحب ہمیں لے کر اٹک منتقل ہو گئے تھے۔ مجھے اٹک میں افغان مہاجرین کے ایک سکول میں داخل کیا گیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے ابھی مقامی سکول میں داخلہ بھی نہیں لیا تھا کہ اُن کے والدین نے اُنھیں کہنا شروع کر دیا کہ ہماری بچی بڑی ہو کر ڈاکٹر بن کر اپنے لوگوں کی خدمت کرے گی، اپنے لوگوں کا مفت علاج کرے گی، جس وجہ سے جب وہ سکول داخل ہوئی تو اس وقت ہی سے اُنھوں نے محنت کرنی شروع کر دی تھی۔
ڈاکٹر سلیمہ رحمان کا کہنا تھا کہ ’مجھے اچھے سے یاد ہے کہ میرے بچپن میں میرے والدین نے بہت زیادہ محنت کی تھی۔ والد صاحب نے اٹک میں کھالوں کا کام شروع کیا تھا جبکہ والدہ گھر میں قالین بناتی تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اُن کے والدین بہت محنت کرتے تھے۔ ’یہی وجہ ہے کہ جب ہم بہن بھائیوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو اس وقت ہمارے حالات بہتر ہو گئے تھے۔ بہت زیادہ پیسے کی ریل پیل تو نہیں مگر اب غربت کا بھی سامنا نہیں تھا۔‘
والدین کے جانب سے وسائل فراہم کرنے کے باوجود بھی اُن کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا بلکہ ہر مقام پر اُنھیں رکاوٹوں کا سامنا رہا۔
تعلیم میں مشکلات
ڈاکٹر سلیمہ رحمان کا کہنا تھا کہ تعلیم حاصل کرنے میں پہلی مشکل کا تو اس وقت سامنا کرنا پڑا جب اُنھیں مہاجر کیمپ کے سکول میں تعلیم حاصل کرنے بعد ہائی سکول میں داخلہ لینا تھا۔ جب وہ سکول داخلے کے لیے گئیں تو اُنھیں قانونی تقاضے پورے کرنے نہیں آتے تھے۔
’مجھ سے پہلے کسی بھی افغان مہاجر لڑکی نے ہائی سکول میں داخلہ نہیں لیا تھا۔ میں پہلی لڑکی تھی جو ہائی سکول میں داخلہ لینا چاہتی تھی۔ سکول انتظامیہ کو بھی پتا نہیں تھا کہ وہ یہ معاملہ کس طرح حل کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال کے اندر افغان مہاجر سکول میں اُن کی استاد میڈیم سمیرا سحر مدد کو آگے بڑھیں۔
’اُن کی والدہ گرلز ہائی سکول نمبر دو اٹک کی پرنسپل تھیں۔ انھوں نے اپنی والدہ کو میرے بارے میں بتایا کہ سلیمہ لائق فائق اور محنتی طالبہ ہے۔ داخلہ نہ ملا تو مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ جس پر پرنسپل صاحبہ نے خصوصی دلچسپی لی۔ قوانین کا جائزہ لیا اور پھر اس کے نتیجے میں مجھے ریفیوجی کارڈ پر داخلہ دیا گیا۔ ایف ایس سی کا مرحلہ بھی اسی طرح آسان ہو گیا تھا۔‘
ڈاکٹر سلیمہ رحمان کا کہنا تھا کہ میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے اُن کی ہر طرح تیاری پوری تھی۔ ’ہم لوگ بہت پرجوش تھے مگر جب انٹری ٹیسٹ کی نوبت آئی تو پتا چلا کہ افغان مہاجر کے لیے میڈیکل کالج میں داخلہ آسان نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد اُن کے والد کی جدوجہد شروع ہو گئی تھی۔ انھوں نے معلومات حاصل کرنی شروع کر دیں۔ انھیں کسی نے بتایا کہ کمشنر افغان مہاجر اس سلسلے میں مدد کر سکتے ہیں۔
’انھوں نے والد صاحب کی مدد کی اور سمجھایا کہ پنجاب کے میڈیکل کالجوں میں افغان مہاجر کے لیے صرف ایک سیٹ ہے۔‘
’ہم نے اس سیٹ کے لیے درخواست دے دی۔ دو سال انتظار کے بعد 2009 میں راولپنڈی میڈیکل کالج سے جب ہمیں فون آیا تو یقین کریں کہ اس سے زیادہ خوشی کا دن ہم نے اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔‘
امتحان ابھی اور بھی تھے
ڈاکٹر سلیمہ رحمان کہتی ہیں کہ ابھی اُن کا اور اُن کے والدین کا امتحان ختم نہیں ہوا تھا۔ اُن کی رہائش اٹک میں تھی جبکہ میڈیکل کالج راولپنڈی میں تھا۔
’جب ہمارے رشتہ داروں اور برادری کو پتا چلا کہ سلیمہ میڈیکل کالج میں پڑھنے کے لیے راولپنڈی جائے گی اور وہاں پر ہاسٹل میں رہے گی تو طوفان کھڑا ہو گیا تھا۔‘
’ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سلیمہ ہاسٹل میں رہے اور راولپنڈی جائے۔ ایسا تو ہمارے خاندان میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے۔ ایسے نہیں ہونے دیا جائے گا۔‘
ڈاکٹر سلیمہ رحمان کا کہنا تھا کہ ایک بار پھر اُن کے والدین بالخصوص اُن کے والد صاحب ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔
انھوں نے سب کو سمجھایا کہ یہ وقت کی ضرورت ہے افغان مہاجرین خواتین کا علاج کرنے کے لیے کوئی ڈاکٹر نہیں ہے، سلیمہ ڈاکٹر بنے گی تو سب کو آسانیاں ہوں گی۔
’کوئی سمجھے یا نہ سمجھے مگر مجھے میرے والدین نے راولپنڈی کے ہاسٹل میں تعلیم کے لیے چھوڑ دیا۔ میں نے ایک ایک سیکنڈ سے فائدہ اٹھایا اور خوب محنت کر کے 2014 میں ڈگری حاصل کر کے ڈاکٹر بن گئی۔‘
’ہر مریض میں مجھے اپنی کہانی نظر آتی‘
ڈاکٹر سلیمہ رحمان نے ہولی فیملی ہسپتال ہی میں ہاؤس جاب کی اور اس کے بعد گائنا کولوجسٹ بننے کے لیے وہاں ہی سے چار سالہ تربیت حاصل کی۔ اس میں بھی قانونی تقاضوں کی وجہ سے اُنھیں مشکلات آئیں مگر اُنھیں مواقع ملتے چلے گئے تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہولی فیملی ہسپتال کو ملک کا مایہ ناز ہسپتال سمجھا جاتا ہے۔ جہاں پر تقریباً ہر علاقے سے پچیدہ مریضوں کو ہولی فیملی میں ریفر کیا جاتا ہے۔ ’میری تربیت کے دوران 2020 میں ہولی فیملی ہسپتال کو بھی کورونا کے علاج کا مرکز قرار دیا گیا تھا۔‘
ڈاکٹر سلیمہ رحمان کے مطابق اس دوران طبی عملے کے بہت زیادہ ارکان کورونا سے متاثر ہو چکے تھے اور عملہ بہت کم ہوتا تھا جس کے باعث ہسپتال پر بہت زیادہ بوجھ ہوتا تھا۔ ان میں حاملہ خواتین کی بھی بڑی تعداد ہسپتال آتی تھی۔ لیکن اُن کے مطابق اُنھوں نے اس دوران ہر خوف و خطر کو چھوڑ کر کئی کئی گھنٹے کام کیا تھا۔
اُن کے مطابق اس دوران اُنھوں نے اپنے جونیئرز کی رہنمائی کے ساتھ پچیدہ زچگی کے معاملات میں مبتلا اور کوورنا سے متاثرہ خواتین کی بھی مدد کی۔
’ہر مریض خاتون میں بس مجھے اپنی ہی کہانی نظر آتی تھی۔‘
مستحق مریضوں کے لیے مفت علاج
ڈاکٹر سلیمہ رحمان کا کہنا تھا کہ اب اُن سے بہت سی افغان لڑکیاں اور ان کے والدین بات کرتے ہیں۔ ’میں اُن کو سمجھاتی ہوں کہ پاکستان میں بہت مواقع ہیں۔ اگر افغان مہاجر لڑکیاں ہمت کریں اور ان کے والدین مدد دیں تو وہ اپنا مستقبل اچھا بنا سکتی ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اُنھیں دیکھ کر کئی لڑکیوں نے تعلیم حاصل کرنی شروع کر دی ہیں اور جسے بھی مدد کی ضرورت ہو وہ کرتی ہیں۔
ڈاکٹر سلیمہ رحمان کہتی ہیں کہ اب وہ پریکٹس کر رہی ہیں مگر ایک افغان مہاجر کے لیے اتنا آسان نہیں تھا۔
’کئی معاملات ہوئے جن کے قانونی تقاضے پورے کرنے کی ضرورت پڑتی تھی۔ حکام کے سامنے بھی کئی مرتبہ میرا معاملہ پہلی مرتبہ جاتا تھا۔ سب سوچ میں پڑ جاتے کہ افغان مہاجر کے لیے کیا قانونی راستہ ہوگا۔‘
ڈاکٹر سلیمہ رحمان کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے گائنا کولوجسٹ کی چار سالہ تربیت 2020 کے آخر میں مکمل کر لی تھی مگر پاکستان میں غیر ملکیوں اور افغان مہاجر ڈاکٹروں کے لیے ہسپتال میں نوکری کرنے اور پریکٹس کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
’اس وقت میں سوچ میں پڑ گئی کہ اب کیا ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اُنھیں تربیت سے فارغ ہوئے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا کہ طب کے شعبے سے وابستہ ادارے نے فیصلہ کیا کہ غیر ملکی ڈاکٹر اور افغان مہاجر ڈاکٹروں کو سرکاری ہسپتالوں میں تو ملازمت کی ابھی اجازت نہیں ہے مگر وہ نجی پریکٹس کر سکتے ہیں۔
’مجھے دو سال پریکٹس کا لائسنس ملا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اٹک ہی میں اپنا نجی کلینک شروع کر دیا۔ اس کلینک کے لیے وسائل ایک بار پھر مجھے والد صاحب نے مہیا کیے ہیں۔‘
ڈاکٹر سلیمہ رحمان کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے ابھی گائنا کولوجسٹ کا تحریری امتحان دینا ہے۔
’اس لیے میں کلینک میں صبح کے وقت روزانہ چھ گھنٹے پریکٹس کرتی ہوں۔ شام کا وقت پڑھائی کو دیتی ہوں۔ کلینک میں اوسطاً 20 خواتین مریض ہوتی ہیں۔ جس میں زیادہ تعداد افغان مہاجر خواتین کی ہوتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ افغان مہاجر خواتین سے وہ فیس نہیں لیتیں اور اس کے ساتھ مقامی مستحق خواتین کو بھی مفت سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔
’ابھی کلینک میں میرے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ پیچیدہ آپریشن وغیرہ کر سکوں مگر ارادہ ہے کہ میں ایسا ضرور کروں گی۔‘
’جب میں گھر تھکی ہاری آتی ہوں اور میرے والدین مسکرا کر میرا استقبال کرتے ہیں تو ان کی مسکراہٹ یہ بتا رہی ہوتی ہے کہ میں ان کی امیدوں پر پورا اتر رہی ہوں اس کی مجھے اتنی خوشی ہوتی ہے جو میں بیان نہیں کرسکتی۔