چی گویرا جب استعمار کے خلاف مزاحمت کا استعارہ سمجھے جانے والے رہنما پاکستان اور انڈیا آئے
پاکستان میں پہلا ملک گیر مارشل لا نافذ ہوئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے جب کیوبا میں انقلاب برپا کرنے والے فیدل کاسترو کے دست راست اور استعمار کے خلاف مزاحمت کا استعارہ سمجھے جانے والے رہنما چی گویرا ایک نو رکنی خیر سگالی وفد کے ہمراہ کیوبا کی انقلابی حکومت کا تعارف اور پیغام اقوام عالم تک پہنچانے کے سلسلے میں پاکستان پہنچے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل ایوب خان دس ماہ پہلے ہی امریکہ کی مدد سے پاکستان میں پہلا ملک گیر مارشل لا نافذ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے اور وہ بائیں بازو کی سرگرمیوں کے مخالف سمجھے جاتے تھے۔
مگر دوسری طرف جب چی 10 اگست 1959 کو وفد کے ہمراہ دورے پر کراچی پہنچے تو کراچی ایئر پورٹ کے وی آئی پی لاؤنج میں ان کی ایک مختصر ملاقات اُس وقت کے صدر پاکستان جنرل ایوب خان کے ساتھ ہوئی۔ اس ملاقات میں پاکستان کے وزیرخارجہ منظور قادر بھی موجود تھے۔
اس موقع پر لی گئی ایک تصویر بھی اخبارات کی فائلوں میں محفوظ ہے جس میں چی، جنرل ایوب خان اور وزیر خارجہ منظور قادر کے ساتھ کھڑے ہیں۔
چی کے دورہ پاکستان کے حوالے سے زیادہ تفصیلات معلوم نہیں ہیں مگر یہ ضرور واضح ہے کہ اس دورے کے اغراض و مقاصد کیا تھے۔
یہ فروری 1959 کی بات ہے جب کیوبا میں فیدل کاسترو کی قیادت میں انقلاب برپا ہوا۔ امریکہ نے بادل نخواستہ اس حکومت کو تسلیم تو کر لیا تھا مگر اس کے باوجود کاسترو کی سربراہی میں کیوبا کی انقلابی حکومت عالمی تنہائی کا شکار تھی۔
ایسے میں فیصلہ ہوا کہ فیدل کاسترو کے دست راست اور استعمار کے خلاف مزاحمت کا استعارہ سمجھے جانے والے رہنما چی گویرا ایک وفد کے ساتھ اس انقلابی حکومت کا تعارف اور پیغام اقوام عالم تک پہنچانے کے لیے تیسری دنیا کے ممالک کا دورہ کریں۔
چی گویرا کا یہ دورہ تین ماہ طویل تھا۔ انھوں نے ان تین ماہ میں 17 ممالک کا دورہ کیا جن میں برما، سری لنکا، انڈونیشیا، انڈیا، یوگوسلاویہ، مصر، مراکش، شام، یونان اور جاپان کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی شامل تھا۔
چی گویرا اس زمانے میں کیوبا کے قومی بینک کے سربراہ تھے۔ انھوں نے اپنے دورے کے دوران بیشتر ممالک کے ساتھ باہمی دفاعی تعاون پر اتفاق کیا اور دو طرفہ تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے۔
چی گویرا کے تیسری دنیا کے ممالک کے اس دورے کی تفصیلات خاص کر ان کے دورہ پاکستان سے متعلق معلومات بہت کم دستیاب ہیں۔ تاہم اس دورے کے تقریباً نصف صدی بعد سنہ 2007 میں انڈیا کے ہندی روزنامے ’جن ستہ‘ کے مدیر اوم تھنوی نے اس سلسلے میں تحقیق کا بیڑا اٹھایا۔
انھوں نے نہ صرف چی کے دورہ انڈیا کی تفصیلات حاصل کیں بلکہ اس موقع پر ہندوستان ٹائمز میں شائع ہونے والی فوٹو ڈویژن، گورنمنٹ آف انڈیا کی کھینچی گئی سرکاری تصاویر بھی حاصل کیں اور انھیں اپنے اخبار میں شائع کیا۔
اوم تھنوی کے مطابق پاکستان جانے سے قبل چی گویرا 30 جون 1959 کو انڈیا پہنچے تھے۔
اس دورے میں انھوں نے نہ صرف پلاننگ کمیشن آف انڈیا کی میٹنگ میں شرکت کی بلکہ وزیر دفاع کرشنا مینن اور وزیراعظم جواہر لال نہرو سے بھی ملاقاتیں کیں۔
انھوں نے دہلی کے قرب و جوار میں کئی مقامات کے علاوہ لکھنؤ کا بھی دورہ کیا جہاں اُن کا مقامی افراد نے خیرمقدم کیا۔ وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے علاوہ انڈیا کی وزارت تجارت اور وزارت زراعت نے بھی چی گویرا کو تحائف سے نوازا۔
اس موقع پر انڈین اخبارات اور آل انڈیا ریڈیو نے چی گویرا کے انٹرویوز کیے جو اس زمانے کے اخبارات میں محفوظ ہیں۔ چی گویرا کا انڈیا کا یہ دورہ جولائی کے دوسرے ہفتے تک جاری رہا۔
یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انڈیا کے اس دورے کے بعد چی گویرا نے کن کن ممالک کا دورہ کیا تاہم یہ بات یقینی ہے کہ اس دوران وہ تیسری دنیا کے ممالک میں ہی مصروف عمل رہے۔
چی گویرا کہا کرتے تھے کہ دنیا کے کسی گوشے میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ہمارا بھی مسئلہ ہے۔ سامراج کے خلاف کسی بھی ملک کی فتح ہماری فتح ہے اور کسی بھی ملک کی شکست ہماری شکست ہے۔
پاکستان اور انڈیا سمیت دیگر ممالک کے دورے کے بعد آٹھ ستمبر 1959 کو چی گویرا کیوبا کے دارالحکومت ہوانا واپس پہنچ گئے۔ فیدل کاسترو نے چی کی خدمات سے متاثر ہو کر انھیں کئی اور ذمہ داریاں سونپی مگر چی گویرا ایک عملی انسان تھے۔
دفتری ماحول میں ان کا دم گھٹتا تھا چنانچہ بہت جلد وہ ان ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو کر واپس جنگلوں میں چلے گئے جہاں انھوں نے اپنی انقلابی جدوجہد جاری رکھی۔
چی گویرا 14 جون 1928 کو ارجنٹائن میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک کثیر المطالعہ شخص تھے۔ عملی طور پر وہ ڈاکٹری کے پیشے سے وابستہ تھے۔ سنہ 1954 میں میکسیکو میں ان کی ملاقات کیوبا کے انقلابی رہنما فیدل کاسترو سے ہوئی۔
اس ملاقات کے بعد انھوں نے کیوبا کی جدوجہد میں عملی طور پر حصہ لینا شروع کیا اور کیوبا کے آمر مطلق بتیستا کے خلاف گوریلا جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔ سنہ 1959 کے اوائل میں چی گویرا اور فیدل کاسترو کی یہ جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
سنہ 1965 میں چی گویرا اور فیدل کاسترو کا ساتھ ختم ہوگیا۔ اب چی گویرا بولیویا پہنچے جہاں بائیں بازو کی انقلابی جدوجہد جاری تھی۔ چی گویرا نے بولیویا کے عوام کی اس جدوجہد میں عملی حصہ لینا شروع کیا۔
وہ دو برس تک زیر زمین رہے، دنیا والوں کو اس کی زندگی یا موت کے بارے میں کچھ پتا نہ تھا۔ ایسے میں نو اکتوبر 1967 کا دن آیا جب بولیویا کے جنگلوں میں نامعلوم افراد نے انھیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ چی گویرا کی وفات سے لاطینی امریکہ میں انقلابی قوتوں کی کمر ٹوٹ گئی اور پوری دنیا ایک انقلابی شخصیت سے محروم ہوگئی۔
چی گویرا نے اپنی یادداشتیں بھی تحریر کی تھیں جن کا اردو ترجمہ ‘چی گویرا کی ڈائری’ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ اس ڈائری میں اس زمانے کا احوال تفصیل سے ملتا ہے جب 1950 کی دہائی میں انھوں نے پورے جنوبی امریکہ کی سیاحت کی تھی۔
انھوں نے جن ممالک کا دورہ کیا تھا ان میں چلی، پیرو، ایکواڈور، کولمبیا، وینزویلا، پانامہ، برازیل، بولیویا اور کیوبا شامل تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ تقریباً تمام جنوبی امریکہ کٹھ پتلی حکمرانوں کے زیر تسلط ہے۔ ان کی آڑ میں یہاں سرمایہ دارانہ نظام طاقت پکڑ رہا ہے اور اس کے پیچھے کوئی اور نہیں بلکہ خود امریکہ ہے۔
انھوں نے جنوبی امریکہ میں انقلابات کی قیادت کی، یہی سبب ہے کہ اپنی ہلاکت کے نصف صدی بعد بھی تیسری دنیا کے ممالک میں انھیں آج بھی ایک ہیرو کا مقام حاصل ہے۔ ان کی شخصیت آج بھی وہ بائیں بازو کی انقلابی طاقتوں خصوصاً نوجوانوں کی محبتوں کا مرکز ہے۔
ان کی تحریریں اور تصاویر دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ مخصوص ٹوپی اور منفرد داڑھی والی ان کی ایک تصویر جو ارجنٹینا کے ایک فوٹو گرافر البرٹو کورڈا نے کھینچی تھی جو آج بھی دنیا کی مقبول ترین تصویر ہے اور اس تصویر سے مزین ٹی شرٹس آج بھی بائیں بازو کے نوجوانوں کا سب سے پسندیدہ پہناوا ہیں۔