چیٹ جی پی ٹی تازہ ترین معلومات تک رسائی

چیٹ جی پی ٹی تازہ ترین معلومات تک رسائی

چیٹ جی پی ٹی تازہ ترین معلومات تک رسائی، صارفین سے گفتگو کرنے کی صلاحیت دو دھاری تلوار کیسے ثابت ہو سکتی ہے؟

چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی اوپن اے آئی نے تصدیق کی ہے کہ اب چیٹ باٹ کے ذریعے انٹرنیٹ پر موجود حالیہ معلومات تک رسائی حاصل کی جا سکے گی۔

اس سے قبل مصنوعی ذہانت کے ذریعے چلنے والے اس نظام کی ٹریننگ ستمبر 2021 سے پہلے والی معلومات پر کی گئی تھی۔

اس تبدیلی کے باعث کچھ پریمیم صارفین چیٹ باٹ سے حالاتِ حاضرہ سے متعلق سوالات پوچھ سکیں گے تاہم اوپن اے آئی کے مطابق یہ سہولت جلد عام صارفین تک بھی پہنچا دی جائے گی۔

اس ہفتے کے آغاز میں اوپن اے آئی نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کے چیٹ باٹ جلد صارفین سے گفتگو بھی کر پائے گا۔

چیٹ جی پی ٹی اور اس جیسے دیگر مصنوعی ذہانت پر چلنے والے نظام معلومات کے ذخائر کا استعمال کرتے ہوئے صارفین کے سوالات کا انسانوں جیسا ردِ عمل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ان کے باعث لوگوں کا آن لائن معلومات کو سرچ کرنے کا طریقہ کار تبدیل ہونے کا امکان ہے تاہم اب تک اس انتہائی مقبول چیٹ باٹ کی ’معلومات‘ ایک حد تک محدود تھیں۔

اس کا معلومات کا ذخیرہ یا ڈیٹابیس انٹرنیٹ پر موجود ستمبر 2021 سے پہلے کی معلومات کی بنیاد پر بنایا گیا تھا، یعنی یہ انٹرنیٹ کو موجودہ وقت میں سرچ کرنے کے صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔

مثال کے طور پر اگر آپ اس کے فری ورژن پر یہ سوال پوچھتے کہ ترکی میں آخری مرتبہ زلزلہ کب آیا تھا یا کیا ڈونلڈ ٹرمپ زندہ ہیں، تو اس کا جواب ہوتا ’میں معذرت خواہ ہوں لیکن میں آپ کو موجودہ وقت کی معلومات نہیں دے سکتا۔‘

چیٹ جی پی ٹی کی جانب سے حالیہ معلومات کو ملحوظِ خاطر رکھ کر جواب دینے سے معذوری نے چند صارفین کے لیے اس کی چمک ختم کر دی تھی۔

chatgpt

یونیورسٹی کالج لندن میں بزنس سائیکالوجی کے پروفیسر ٹامس چمارو پریموزک کا کہنا ہے کہ ’جب یہ فیچر نہیں تھا تو آپ کو خبروں کے لیے گوگل، ٹوئٹر یا کسی ڈیجیٹل نیوز ویب سائٹ کا رخ کرنا پڑتا تھا۔ اب آپ اسے خبروں کے تازہ ترین ذریعے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب یہ چیٹ باٹس ان سوالات اور سرچز کا جواب بھی دے سکیں گے جن کے لیے پہلے آپ کو گوگل یا کسی دوسری ویب سائٹ کا رخ کرنا پڑتا تھا۔‘

تاہم ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے سرچ کرنے کے مضر اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں یہ ایک اچھی پیشرفت ہے خاص طور پر اہم سوالات کا جلدی ردِعمل حاصل کرنے کے لیے‘ تاہم انھوں نے خبردار کیا کہ بغیر ذرائع کے معلومات فراہم کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔

’اگر یہ مستند ذرائع سے خبریں نہیں دے گا اور صرف جو معلومات انٹرنیٹ پر موجود ہیں اس کا ملا جلا کر معلومات فراہم کرے گا تو پھر خبر کے مستند ہونے پر سوالات اٹھیں گے اور لوگ یہ مان لیں گے کہ انھیں جو معلومات مل رہی ہے وہ ٹھیک ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہو گا۔‘

اوپن اے آئی پر امریکہ میں ریگولیٹرز کی نظریں ہیں کیونکہ یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی گمراہ کن معلومات کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

اس سال کے آغاز میں فیڈرل ٹریڈ کمیشن (ایف ٹی سی) اوپن اے آئی کو خط لکھا تھا کہ جس میں انھوں اس بارے میں معلومات مانگی تھیں کہ کمپنی لوگوں کی ساکھ کو موجود خطرے سے کیسے نمٹنے کی کوشش کرے گا۔

اس کے جواب میں اوپن اے آئی کے چیف ایگزیکٹو نے اس کے جواب میں کہا کہ کمپنی ایف ٹی سی کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

اس کی متعدد وجوہات ہیں کہ اب تک چیٹ جی پی ٹی انٹرنیٹ کو سرچ کرنے میں کامیاب کیوں نہیں ہو سکی تھی تاہم ایک اہم وجہ کمپیوٹنگ پر آنے والے اخراجات ہیں۔ یہ عموماً کہا جاتا ہے کہ ہر سوال کے اوپن اے آئی کو کچھ سینٹس دینے پڑتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ اس پر موجود محدود ڈیٹا تحفظ کی ضمانت بھی دیتا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی انٹرنیٹ پر موجود غیر قانونی یا خطرناک مواد کو کسی سوال کے جواب میں شائع نہیں کر سکتا۔

جب چیٹ جی پی ٹی سے پوچھا گیا کہ اسے صارفین کو تازہ ترین معلومات تک رسائی دینے میں اتنا وقت کیوں لگا تو اس نے تین جواب دیے۔

اس کا کہنا تھا کہ ’ایک تو یہ کہ لینگوج ماڈلز بنانے میں بہت وقت لگتا ہے اور اس کے لیے متعدد افراد کی ضرورت ہوتی ہے، تازہ ترین معلومات کا استعمال کرنے سے ممکنہ طور پر غیر مستند معلومات سامنے آ سکتی تھیں اور تازہ ترین معلومات تک رسائی حاصل کرنے میں پرائیویسی اور قواعد کے مسائل بھی درپیش تھے خاص طور پر ایسے مواد کو بغیر اجازت استعمال کرنا جس کے کاپی رائٹ موجود نہ ہوں۔‘

چیٹ جی پی ٹی نئے فیچر اے آئی سیکٹر کو درپیش بڑے مسائل کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اس کو اچھے طریقے سے استعمال کرنے کے لیے شاید تھوڑی نرمی کرنے کی ضرورت پڑے لیکن اس صورت میں یہ ٹیکنالوجی غلط استعمال کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ مزید خطرناک بھی ہو سکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *