چین کے خلائی سٹیشن کا پہلا موڈیول لانچ کیا اس سے امریکی خلائی اجارہ داری کو خطرہ ہے؟
چین نے ایک نیا خلائی سٹیشن قائم کرنے کی غرض سے اس سٹیشن کا پہلا موڈیول خلا میں روانہ کر دیا ہے۔
تیانے نامی یہ موڈیوئل وینچیا سپیس لانچ سینٹر سے ’مارچ 5 بی وائی 2 راکٹ‘ پر روانہ کیا گیا ہے۔
چین کو امید ہے کہ ان کا نیا خلائی سٹیشن سنہ 2022 تک فعال ہو جائے گا۔
یاد رہے کہ اس وقت خلا میں صرف ایک سپیس سٹیشن ’انٹرٹیشنل سپیس سٹیشن‘ موجود ہے جس میں چین کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
خلائی پروگرامز کے حوالے سے چین دیگر ممالک کے مقابلے میں قدرے پیچھے رہا ہے۔ چین نے پہلی مرتبہ کسی خلاباز کو سپیس میں سنہ 2003 میں بھیجا تھا۔
اس طرح چین وہ تیسرا ملک بن گیا تھا جس کے پاس خلابازوں کی سپیس میں بھیجنے کی صلاحیت تھی تاہم امریکہ اور روس کے مقابلے میں یہ ہدف چین نے کئی دہائیوں بعد حاصل کیا تھا۔
چین نے ماضی میں دو سپیس سٹیشن خلا میں بھیجے ہیں تاہم وہ انتہائی قلیل مدتی سٹیشن تھے جہاں خلاباز صرف تھوڑے وقت کے لیے رہ سکتے تھے۔ یہ نیا مذکورہ سپیس سٹیشن کم از کم دس سال تک خلا میں فعال رہے گا۔
خلا میں امریکی اجارہ داری کو خطرہ؟
چین خلائی پروگرام میں کئی بڑے اہداف کے حوالے سے انتہائی پُرعزم دکھائی دیتا ہے۔
چین نے نہ صرف چاند اور مریخ پر انسانی سفر کے پروگراموں کا اعلان کر رکھا ہے بلکہ چین دنیا کی سب سے بڑی ریڈیو دور بین بھی بنا رہا ہے۔
اس کے علاوہ حال ہی میں چین اور روس نے مل کر چاند پر ایک قمری سپیس سٹیشن بنانے کا اعلان بھی کیا تھا جو کہ ان کے مطابق دیگر ممالک کو تحقیقی مقاصد کے لیے مسیر ہو گا۔
اس قمری سٹیشن کے اعلان کے موقع پر چین اور روس نے کہا تھا کہ اس سٹیشن کا مقصد چاند پر تحقیق اور چاند کے استعمال کو جانچا جائے گا۔
چین کی خلائی تحقیق کے سفر میں ایک اہم کڑی یہ بھی تھی جب گذشتہ سال چینی خلائی جہاز چانجی 5 چاند سے نمونے لے کر لوٹا تھا۔
اس کے علاوہ گذشتہ سال ہی چین وہ دوسرا ملک بن گیا تھا جس نے اپنا جھنڈا چاند کی سطح پر گاڑا تھا۔
ادھر امریکہ میں خلائی سفر ایک دوسرا رخ اختیار کر رہا ہے جہاں امریکی حکومت نجی کمپنیوں کو اس صنعت میں داخل ہونے کے لیے حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔
ایلون مسک کی کمپنی سپیس ایکس بھی اس کی ایک مثال ہے اور اس کمپنی نے ایک ہی راکٹ کو زمین پر کامیابی سے لوٹا کر یہ ثابت کیا ہے کہ عام لوگوں کے لیے خلائی سفر جلد حقیقت بن سکتی ہے۔