چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ چین کے وہ قرضے جنھوں نے مشرقی یورپ کے بلقان ممالک تک کو جکڑ رکھا ہے
گذشتہ کچھ برسوں میں چین خطہ بلقان میں ایک اہم کردار بن کر ابھرا ہے۔ بلقان کا خطہ تاریخی طور پر یورپ اور امریکہ کے زیرِ اثر رہا ہے۔ ماضی میں اس پہاڑی خطے کے زیادہ تر ممالک نے مغربی یورپ تک چین کی نئی شاہراہِ ریشم کے دہانے کا کردار ادا کیا ہے۔
چین کا نیا شاہراہِ ریشم کا منصوبہ پانچ برِ اعظموں پر پھیلے انفراسٹرکچر پراجیکٹس کا ایک نہایت پرعزم منصوبہ ہے۔ مگر حال ہی میں دو کروڑ 80 لاکھ آبادی والے ملک لیتھوانیا نے چین پر کئی سنگین الزامات لگاتے ہوئے خود کو اس فورم سے علیحدہ کر لیا ہے۔
اب اس کے باعث عددی اعتبار سے یہ معاملہ 16+1 پر کھڑا ہے۔
لیتھوانیا کی دستبرداری کے بعد اس میں اب البانیہ، بوسنیا اینڈ ہرزیگوینا، بلغاریہ، کروشیا، جمہوریہ چیک، ایسٹونیا، یونان، ہنگری، لیٹویا، شمالی مقدونیہ، مونٹینیگرو، پولینڈ، رومانیہ، سربیا، سلوواکیہ اور سلووینیا شامل ہیں۔
یہ سنہ 2012 میں پولینڈ کے شہر وارسا میں قائم کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے اس کا سربراہی اجلاس ہر سال مختلف ملک میں منعقد کیا جاتا ہے۔
اس فورم کے قیام سے اب تک چین نے مغربی بلقان خطے میں اپنی سرمایہ کاری دگنی کر دی ہے۔
فی الوقت یہ سرمایہ کاری معیشت کے بڑے شعبوں میں ہو رہی ہے مگر اس سے کروڑوں ڈالر کے قرضے کے علاوہ کئی خدشات نے جنم لیا ہے۔
یورپین کونسل برائے بین الاقوامی تعلقات میں ایک محقق ولادیمیر شوپوف نے بی بی سی منڈو سروس کو بتایا کہ ’یہ اثرات بڑے پراجیکٹس کے ذریعے شروع ہوئے۔ مثال کے طور پر مونٹینیگرو یا شمالی مقدونیہ میں شاہراہوں کی تعمیر کو لے لیں۔‘
مونٹینیگرو کا معاملہ شاید سب سے زیادہ حیران کُن ہے۔ سنہ 2014 میں مونٹینیگرو اور چین کے ایگزم بینک نے نو کروڑ 40 لاکھ ڈالر کے ایک ترجیحی قرضے کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس قرض کا مقصد 41 کلومیٹر طویل شاہراہ کی تعمیر تھا۔
اس منصوبے کے ناقدین نے شروع ہی سے خبردار کیا تھا کہ اس منصوبے سے کوئی منافع حاصل نہیں ہو گا۔ اب سربیا کے ہفتہ وار اخبار وریم نے خبردار کیا ہے کہ اس پراجیکٹ نے اس چھوٹے سے ملک کی خود مختاری کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مونٹینیگرو کی آبادی چھ لاکھ 22 ہزار کے قریب ہے۔
اس اخبار میں میلوس ووکووچ نے لکھا: ‘اس قرضے کو ٹول ٹیکس کی مدد سے اتارنے کے لیے ضروری ہوگا کہ اگلے 14 سال تک ہفتے کے ساتوں دن تک ہر تین سیکنڈ میں ایک گاڑی اس پر سے گزرے۔’
جب مونٹینیگرو نے چین کے ایگزم بینک کے ساتھ یہ معاہدہ کیا تو اس وقت قرض کی رقم ملک کی مجموعی قومی پیداوار کے 30 فیصد کے برابر تھی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس معاہدے نے چین کو اس ملک کا مرکزی بینکر بنا دیا۔
آج مونٹینیگرو حکومت پر قرض کا بوجھ اس کی معاشی پیداوار کا 103 فیصد ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے اتنی تشویش پائی جا رہی ہے کہ رواں سال کے اوائل میں مونٹینیگرو کے حکام نے یورپی یونین سے اس قرض کی ادائیگی میں مدد کی درخواست کی تھی جسے یورپی یونین نے مسترد کر دیا۔
ولادیمیر شوپوف بلغاریہ کی صوفیہ یونیورسٹی میں ایشیائی اُمور کے پروفیسر بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘مونٹینیگرو دیوالیہ پن کی حد پر پہنچ چکا ہے۔ اسے چین سے دوبارہ اس قرض کے بارے میں بات کرنی ہوگی اور چین کو اس بات چیت میں بالادستی حاصل ہوگی۔ درحقیقت چین کے پاس اب مونٹینیگرو کی معاشی ترقی کی شرائط طے کرنے کا موقع اور طاقت دونوں ہی ہیں۔’
مشرقی یورپ کے بلقان ممالک میں چین کی دیگر متنازع سرمایہ کاریوں میں سربیا کے مرکزی سٹیل کارخانے زیلیزارا سمیدریوو کی خریداری، بڈاپسٹ سے بلغراد تک ایک ریلوے پراجیکٹ اور بوسنیا اینڈ ہرزیگووینا میں ایک بڑے تھرمل پاور پلانٹ کا قیام شامل ہے۔ ریل پراجیکٹ پر اقتصادی طور پر ممکن ہونے کے حوالے سے تحفظات ہیں تو ماہرینِ ماحولیات کو تھرمل پاور پلانٹ کے حوالے سے خدشات ہیں۔
اپریل میں یونی کریڈٹ کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق چین کو دیے گئے ٹھیکے بوسنیا اینڈ ہرزیگووینا کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے تین فیصد، سربیا کے سات فیصد، شمالی مقدونیہ کے آٹھ فیصد، اور مونٹینیگرو کی جی ڈی پی کے 21 فیصد کے برابر ہے۔
شوپوف کا کہنا ہے کہ ان ٹھیکوں کی کچھ شرائط کے حوالے سے بہت سے ابہام موجود ہیں۔
بلقان کے خطے میں چین کے بہت سے مفادات ہیں۔ شوپوف کے مطابق ان میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ چین یورپ کے گرد اپنی موجودگی بنانا چاہتا ہے۔ مغربی بلقان کے ممالک اہم سمندری راستوں کے وسط میں واقع ہیں جہاں سے مغربی یورپ، شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا قریب ہوجاتے ہیں۔
چین یہ جانتا ہے اور اسی لیے اس نے بحیرہِ ایڈریاٹک کے ارد گرد کئی بندرگاہوں میں اپنی دلچسپی ظاہر کی ہے۔
چین پہلے ہی یونان کی سب سے اہم بندرگاہ پیرائیس کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس کے علاوہ چین کا ترکی کی تیسری بڑی بندرگاہ کیوپورٹ پر بھی کنٹرول ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی چین کی کئی بندرگاہوں میں چین کے شیئرز ہیں۔
اور حال ہی میں چین نے کروشیا میں ریجیکا کی بندرگاہ میں رعایت دیے جانے کی تجویز دی تھی مگر کروشیا نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔
کروشیائی پریس میں شائع ہونے والی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق کروشیا پر امریکہ اور یورپی یونین کا زبردست دباؤ تھا۔ اسی وجہ سے چین نے 50 سالہ لائسنس کے لیے درخواست دی مگر کروشیا نے اسے مسترد کر دیا۔
درحقیقت اس معاملے میں سیاسی حقائق نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
یورپی یونین کے مستقبل کے ارکان
البانیہ، شمالی مقدونیہ، مونٹینیگرو اور سربیا یورپی یونین میں شمولیت کے باضابطہ امیدوار ہیں جبکہ بوسنیا اینڈ ہرزیگووینا اور کوسووو کا بھی طویل مدتی عزم اس تنظیم میں شامل ہونا ہے۔
اس نے مغربی بلقان خطے کو جغرافیائی اعتبار سے ایک زیادہ سٹریٹجک اہمیت کا حامل خطہ بنا دیا ہے۔ ان ممالک میں آج اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا مطلب کل دنیا میں اہم اقتصادی اور سیاسی معاملات کو کنٹرول میں رکھنا ہے۔
ولادیمیر شوپوف کہتے ہیں کہ ‘چین کی سرمایہ کاری اور مداخلت اس کی طویل المدتی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ یہ علاقائی پالیسیوں اور مستقبل میں یورپی یونین میں مداخلت کرنے کی پوزیشن حاصل کرنا چاہتا ہے۔’
درحقیقت چین کا خطہ بلقان میں اثر و رسوخ صرف معیشت تک محدود نہیں ہے۔
ثقافتی اثر و رسوخ
ثقافتی اور تعلیمی اداروں کے درمیان تعلق کے ذریعے چین اس خطے میں موجود ممالک کے ساتھ اپنے ثقافتی روابط بھی مضبوط کرنا چاہتا ہے۔
شوپوف کے مطابق ‘یہاں اب پہلے سے زیادہ طلبہ چینی یونیورسٹیوں میں جا رہے ہیں۔ یہ ممالک تحقیق کے شعبے میں چین کے ساتھ زیادہ تعاون کر رہے ہیں۔ اس سے چین کو اپنا تشخص بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے اور میڈیا میں جگہ ملتی ہے۔’
اس خطے میں چین کے ثقافتی اثر و رسوخ کی سب سے بڑی مثال کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کا پھیلاؤ ہے۔ یہ ادارہ چینی حکومت کے زیرِ انتظام ہے اور دنیا بھر میں ثقافتی اور لسانی پروگرام منعقد کرواتا ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ کنفیوشس انسٹیٹیوٹ چین اور دنیا کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے۔
مگر اس کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ دیگر عالمی معیشتوں میں پروپیگنڈا کو فروغ دیا ہے اور کئی یونیورسٹیوں میں آزادی اظہار کی راہ میں رکاوٹ بھی بنتا ہے۔
کچھ لوگوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ چینی حکومت اسے استعمال کرتے ہوئے طلبہ کی جاسوسی کرتی ہے چنانچہ دنیا کے کئی ممالک کی یونیورسٹیوں نے اس ادارے کے پروگرامز کو بند کر دیا ہے۔
کوسووو کے علاوہ بلقان خطے کے ہر ملک میں کنفیوشس انسٹیٹیوٹ قائم ہے۔ کوسووو نے سنہ 2008 میں آزادی کا اعلان کیا تھا تاہم چین نے اب تک اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔
شمالی مقدونیہ میں یہ انسٹیٹیوٹ سرکاری حکام کے لیے کئی کورسز کی پیشکش کرتا ہے جبکہ سربیا اور مونٹینیگرو میں کئی سکولز نے کنفیوشس کلاس رومز تک کھول لی ہیں۔
ویکسین ڈپلومیسی
حال ہی میں چین نے اس خطے کے کئی ممالک تک ماسکس اور ویکسینز تقسیم کر کے پہنچنے کی کوشش کی ہے۔
چین کے شہر ووہان سے یہ وبا شروع ہونے کے بعد سے چین نے دنیا بھر میں اپنا تشخص بہتر بنانے کے لیے لاتعداد ماسکس ارسال کیے ہیں۔
کئی اطللاعات ہیں کہ چینی حکام نے یورپی ممالک کے متعدد حکام پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس کا ایک مثبت تجزیہ پیش کریں۔
اپریل 2020 کے اواخر میں جرمنی نے تسلیم کیا کہ اس نے چینی سفارتکاروں سے رابطہ کیا تھا کیونکہ وہ چین جرمنی کو ماسکس دینے کے بعد اس کی جانب سے شکریے کا پیغام سننا چاہ رہا تھا۔
ویسے تو جرمنی میں اینگلا مرکل کی حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا میں سربیائی صدر الیگزینڈر ووئی تو اس شکریے کو ایک قدم اور آگے تک لے گئے۔
وہ چین سے آنے والی طبی امداد وصول کرنے کے لیے خود بلغراد ایئرپورٹ گئے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ جب چینی وفد طیارے سے اترا تو اُنھوں نے چینی پرچم چوما۔
ماسکس کے علاوہ چین نے رواں سال بڑی تعداد میں ممالک کو ویکسینز بھی فراہم کی ہیں۔
مارچ میں مونٹینیگرو کو چین میں تیار کی گئی سائنو فارم کی 30 ہزار خوراکیں فراہم کی گئی تھیں جبکہ بوسنیا اینڈ ہرزیگووینا کو اپریل میں ویکسین کی 50 ہزار خوراکیں دی گئیں۔ وزیر انکیکا گوڈیلیویج خود ویکسین وصول کرنے لیے گئے اور یقین دلایا کہ چین نے اس سخت وبا کے دوران حقیقی دوستی کا اظہار کیا ہے۔
شمالی مقدونیہ کو ایک لاکھ خوراکیں ملیں۔ شوپوف کا کہنا ہے کہ چین کو ماسک ڈپلومیسی سے تو زیادہ فائدہ نہیں ہوا لیکن ویکسین ڈپلومیسی سے اس کو بہت فائدہ ہوا ہے۔
اُنھوں نے کہا: ‘مغربی بلقان کے ممالک کو یورپی یونین کی جانب سے ویکسین کی فراہمی نہ ہونے کے باعث چین یہ خلا پر کر رہا ہے۔’
اس کے علاوہ مستقبل میں اس دوستی سے لگائی گئی امیدوں اور یورپ اور ان ممالک میں اٹھائے گئے اقدامات کے علاوہ چین کے بلقان ممالک پر اثر و رسوخ نے اسے سفارتی محاذ پر کامیابی دی ہے۔
سنہ 2019 میں 22 ممالک نے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو خط لکھا اور چین کی جانب سے اویغور برادری پر مبینہ تشدد کے الزامات عائد کیے، مگر اس خط پر بلقان خطے کے کسی رکن ملک نے دستخط نہیں کیے۔