چین میں افغان سفیر جاوید احمد قائم کا اپنے تفصیلی خط کے ساتھ ایک ٹویٹ میں عہدہ چھوڑنے کا اعلان
چین میں افغانستان کے سفیر جاوید احمد قائم نے نامزد کردہ نئے سفیر کے چین پہنچنے سے پہلے گزشتہ ہفتے اپنا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا اور چینی حکام کے مطابق وہ چین سے بھی جا چکے ہیں۔
جاوید احمد قائم نے ٹوئٹر پر اعلیٰ حکام کو لکھے گیا ایک تفصیلی خط شیئر کیا اور ساتھ ہی اپنی ٹویٹ میں عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا۔ ان کے خط سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نئے آنے والے سفیر کا نام سادات ہے اور ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا ان کی جانب پیر کو کی گئی ٹویٹ کے بعد نئے سفیر نے اپنا عہدہ سنبھال لیا ہے یا نہیں۔
تاہم منگل کو چینی وزارت خارجہ نے اپنی معمول کی پریس کانفرنس میں کہا کہ جاوید احمد قائم نے ذاتی وجوہات کی بنا پر چین چھوڑا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغانستان کی وزارت خارجہ نے ابھی تک اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
انھوں نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ شاید جب نئے سفیر بیجنگ پہنچیں تو وہاں انھیں سفارتخانے میں کوئی افغان سفارتکار نہ ملے کیوں کہ اس وقت تک سب چھوڑ کر جا چکے ہوں گے۔
جاوید احمد قائم کے مطابق جب سے افغانستان پر طالبان کا کنٹرول ہوا ہے انھییں اور بیجنگ میں افغان سفارتخانے کے باقی سفارت کاروں کو کوئی مالی مدد نہیں مل رہی ہے۔
جاوید احمد قائم نے پیر کو ٹوئٹر پر ایک ’ہینڈ اوور خط پوسٹ کیا۔ اس خط پر تاریخ یکم جنوری کی ہے۔
انہوں نے اس خط میں کہا کہ کئی سفارت کار پہلے ہی بیجنگ میں افغان سفارت خانہ چھوڑ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں گزشتہ اگست سے تنخواہ نہیں مل رہی ہے۔
انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا ‘اس استعفے کی ذاتی وجوہات کے ساتھ ساتھ بہت سی پیشہ ورانہ وجوہات ہیں لیکن میں یہاں ان کا ذکر نہیں کرنا چاہتا۔‘
چین کی سرحد کا ایک چھوٹا سا حصہ افغانستان سے جڑا ہوا ہے۔ اگست میں طالبان کی آمد کے بعد سے، چین نے انسانی امداد کی کئی کھیپیں افغانستان بھیجی ہیں۔
جاوید احمد قائم نے دو اعلیٰ حکام کے نام اپنے خط میں لکھا کہ ’ہماری کئی بار فون پر بات ہوئی ہے۔ میں 2 جنوری سے چھٹی پر جا رہا ہوں۔ حالات اور پابندیوں کو دیکھتے ہوئے پتہ نہیں کب دفتر آ سکوں گا۔ اسی لیے میں ہینڈ اوور خط پوسٹ کر رہا ہوں تاکہ کوئی دوسرا سفیر بغیر کسی پیچیدگی کے بیجنگ میں افغانستان کے سفارت خانے میں اپنا کام شروع کر سکے۔
‘زوم کالز پر دستیاب’
آنے والے سفیر کے لیے دفتری معاملات کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے مزید لکھا ‘ہم نے بیجنگ میں افغان مشن کو سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، تعلیمی، تجارتی، فوجی اور انتظامی حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ سفارت خانے میں تمام سیکشنز کے لیے الگ کمرے ہیں۔ پچھلے کام کے تمام کاغذات دفتر میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ حال ہی میں کیا ہوا اور اب کیا ہونا چاہیے اس سے متعلق دستاویزات بھی دفتر میں موجود ہیں۔ اس کے باوجود اگر کوئی الجھن ہے تو میں زوم کال پر دستیاب رہوں گا’۔
انھوں نے لکھا ہے کہ ‘اسلامی جمہوریہ افغانستان نے جن سفارت کاروں کو وہاں تعینات کیا تھا وہ 15 اگست 2021 کے بعد یہاں نہیں رہنا چاہتے تھے۔ اس لیے بہت سے لوگ پہلے ہی چین چھوڑ چکے تھے۔ میرے خیال میں جب نامزد کردہ نئے سفیر مسٹر سادات بیجنگ پہنچیں گے تو یہاں کوئی سفارت کار نہیں ہوگا’۔
ایک لاکھ ڈالر اور پانچ کاریں
انھوں نے لکھا کہ ‘ہمیں پچھلے چھ ماہ سے تنخواہ نہیں مل رہی تھی۔ اس دوران ہم نے اقتصادی بحران کے حل کے لیے سفارت کاروں کے درمیان ایک کمیٹی بنائی تھی۔ ہمارے پاس رہنے اور دیگر اخراجات کے لیے بینک میں رقم تھی۔ ہم نے اس دوران یہ رقم استعمال کی۔ ہم عملے کو تنخواہ نہیں دے سکتے تھے لیکن کچھ رقم دیتے تھے تاکہ وہ بیجنگ میں گزارہ کر سکیں’۔
جاوید احمد قائم نے اس خط میں لکھا ‘آج یکم جنوری 2022 ہے اور اکاؤنٹ میں تقریباً ایک لاکھ ڈالر باقی ہیں۔ کسی اور اکاؤنٹ میں بھی پیسے ہیں۔ میں ایک علیحدہ شیٹ بھیج رہا ہوں، جس میں اکاؤنٹ کی تمام تفصیلات موجود ہوں گی۔ سفارت خانے میں پانچ کاریں ہیں۔ تمام کاریں مرکزی عمارت کے سامنے پارکنگ میں ہیں۔ کار کی چابیاں دفتر میں ہیں۔ ان میں دو پرانی کاریں ہیں اور ان کی مرمت ضروری ہے۔‘
چین کی جانب سے تعریف
انہوں نے مزید لکھا کہ ‘میں نے اس ماہ 22 جنوری تک مقامی عملے کی تنخواہ ادا کر دی ہے اور اب ان کا کام ختم ہوچکا ہے۔
’میرے پاس رسیپشن پر صرف ایک عملہ ہے تاکہ مسٹر سادات جب آئیں تو وہاں کوئی موجود ہو۔ انہیں وہاں مس ژاؤ لی ملیں گی۔ میں نے سفارت خانے کے دفاتر اور مکانات کو تالے لگا دیے ہیں۔ صرف رسیپشن کھلا ہوا ہے۔ میں نے چابی بیجنگ میں قطر کے سفارتخانے کے پاس چھوڑ دی ہے۔ میں نے یہاں سات صفحات پر مشتمل اثاثوں کی فہرست بھی تیار کر لی ہے اور اسے کابل بھجوا دوں گا۔ میں نے اس بارے میں چینی وزارت خارجہ کو بھی آگاہ کر دیا ہے۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغانستان کی وزارت خارجہ نے ابھی تک اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
تاہم منگل کو چینی وزارت خارجہ نے اپنی معمول کی پریس کانفرنس میں کہا کہ جاوید احمد قائم نے ذاتی وجوہات کی بنا پر چین چھوڑا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے کہا کہ ’ہم دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔ چین ہمیشہ افغانستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو برقرار رکھنے کا حامی رہا ہے۔‘
چین سمیت کسی بھی ملک نے تاحال طالبان کو تسلیم نہیں کیا۔ طالبان کی آمد کے بعد سے افغانستان معاشی بحران کی وجہ سے انسانی بحران کا بھی شکار ہے۔
دہلی میں بھی افغانستان کے سفارت خانے کا برا حال
18 دسمبر کو انگریزی اخبار ‘دی ہندو’ کی ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ دہلی میں افغان سفارت خانہ کابل میں طالبان کی آمد کے بعد سے معاشی بحران کا شکار ہے اور یہاں کے سفیر اپنے مستقبل کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں۔
فرید ماموندزئی گزشتہ سال کے اوائل میں افغانستان کے سفیر کے طور پر نئی دہلی آئے تھے۔ اس وقت نئی دہلی میں افغانستان کے سفارت خانے میں کل 20 افغان سفارت کار موجود ہیں۔ لیکن معاشی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے انڈین عملے کی تعداد میں کمی کی گئی ہے۔
فرید ماموندزئی نے دی ہندو کو بتایا کہ وہ انڈین حکومت سے مایوس ہیں کیونکہ انڈیا آنے کے خواہشمند افغانوں کو مناسب ویزے نہیں دیے جا رہے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ افغانستان کے لوگوں کو امید ہے کہ مشکل وقت میں انڈیا وہاں مزید امداد بھیجے گا۔ فرید نے کہا تھا کہ دنیا کے 70 ممالک میں افغان مشن موجود ہیں اور کسی کو کابل سے کوئی مدد نہیں مل رہی۔