چیئرمین سینیٹ کا انتخاب سینیٹرز کو اپوزیشن کے امیدوار کو ووٹ نہ ڈالنے کا کہا گیا ہے، مریم نواز کا الزام
پاکستان مسلم لیگ نون کی رہنما مریم نواز نے الزام عائد کیا ہے کہ سینیٹ میں چیئرمین کے انتخاب کے لیے ان کے سینیٹرز کو اپوزیشن کے امیدوار کو ووٹ نہ ڈالنے کا کہا گیا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں مریم نواز نے لکھا: ’ہمارے کچھ سینیٹرز کو فون کر کے کہا گیا کہ وہ پی ڈی ایم کے امیدوار کو ووٹ نہ دیں۔ اس میں سے کچھ کالز بطور شواہد ریکارڈ کی گئی ہیں۔‘
مریم نواز نے اپنی ٹویٹ میں یہ تو واضح نہیں کیا کہ یہ کالز کس کی جانب سے کی گئیں تاہم حال ہی میں ان کے دو سینیٹرز کو اغوا کیے جانے والے الزامات کے تناظر میں سوشل میڈیا صارفین ریکارڈ کی جانے والی مبینہ کالز کو نشر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مریم نواز کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کل جمعرات کو سینیٹ کے چیئرمین کا انتخاب ہونے والا ہے اور وزیر اطلاعات شبلی فراز نے سینیٹ میں حکومت کے حمایتی سینیٹرز کی اقلیت کے ساتھ جیت کو ممکن بنانے سے متعلق سوال پر ایک نجی ٹیلی وژن پر کہا تھا کہ وہ جیت کے لیے ہر ہتھکنڈہ استمعال کریں گے اور پی ڈی ایم کو جیتنے نہیں دیں گے۔
نئے چیئرمین سینیٹ کی دوڑ
اس وقت سب سے اہم سیاسی سرگرمی نئے چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہے۔
حکومت نے 12 مارچ کو ہونے والے اس انتخاب کے لیے تین سال سے چیئرمین سینیٹ رہنے والے بلوچستان عوامی پارٹی کے صادق سنجرانی کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔
صادق سنجرانی کے خلاف بطور چیئرمین سینیٹ اپوزیشن نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی جو ناکام رہی تھی۔ اس وقت بھی سینیٹ میں اپوزیشن کو اکثریت حاصل تھی اور یہ بات اب تک معلوم نہیں ہو سکی کہ صادق سنجرانی اکثریت نہ رکھنے کے باوجود کن ارکان سے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
اس وقت سینیٹ میں اپوزیشن اتحاد کو اکثریت حاصل ہے مگر یہ انتخابات اس قدر دلچسپ ہوتے ہیں کہ یہاں اکثریت رکھنے کے باوجود شکست بھی مقدر بن جاتی ہے۔ شاید اس کی بڑی وجہ سینیٹ میں خفیہ رائے شماری کا طریقہ ہے۔
اس وقت اسلام آباد سے سینیٹ کی جنرل نشست پر وزیر اعظم عمران خان کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو شکست دینے کے بعد یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ کے مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
تاہم اس وقت یوسف رضا گیلانی کو نہ صرف اپوزیشن کا مکمل اعتماد حاصل ہے بلکہ ان کی جیت پر اپوزشین کی تمام جماعتیں جشن بھی مناتی نظر آ رہی ہیں۔
سینیٹ چیئرمین کا انتخاب کس کے جیتنے کے امکانات روشن
اگر حکومت اور اس کے اتحادیوں کی پارلیمان کے ایوان بالا میں ووٹوں پر نظر دوڑائی جائے تو اس وقت تحریک انصاف کی سربراہی میں حکومتی اتحاد کو کل 48 سینیٹرز کی حمایت حاصل ہے۔
اس وقت 100 کے ایوان میں چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کے لیے 51 ووٹ درکار ہیں۔ بظاہر نمبرز گیم میں اس وقت حکومتی اتحاد اپوزیشن سے پیچھے ہے مگر اپوزیشن اتحاد کے لیے جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔
اپوزیشن کے پاس اس وقت سینیٹ میں 52 ووٹ ہیں جن میں سے 20 سینیٹرز کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے جبکہ 18 پاکستان مسلم لیگ ن کے اراکین ہیں۔ اس کے علاوہ پانچ سینیٹرز کا تعلق جے یو آئی (ف) سے ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کے پاس دو، دو جبکہ جماعت اسلامی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اور ایک آزاد امیدوار کے پاس ایک، ایک ووٹ موجود ہے۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر اسحاق ڈار آج کل لندن میں مقیم ہیں۔ اگر ان کا ووٹ نہ گنا جائے تو اپوزیشن کے پاس کل نشستیں 51 رہ جاتی ہیں۔
ابھی جماعت اسلامی نے اعلان نہیں کیا ہے کہ وہ سینیٹ میں حکومت کا ساتھ دے گی یا اپوزیشن میں رہتے ہوئے اپوزیشن اتحاد کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دے گی۔
اگر جماعت اسلامی ووٹنگ کے عمل سے اجتناب کرے تو اپوزیشن کی تعداد 50 بنتی ہے اور یوں یوسف رضا گیلانی اس وقت تک چیئرمین سینیٹ نہیں بن سکتے جب تک جماعت اسلامی یا حکومتی اتحاد میں سے کوئی انھیں ووٹ نہیں ڈالتا۔
اگر کوئی امیدوار اکثریت حاصل نہ کر سکا تو؟
صدر مملکت عارف علوی 12 مارچ کے اجلاس کے لیے کسی ایک سینیٹر کو صدر نشین مقرر کریں گے وہ اس اجلاس کی صدارت کریں گے۔
حروف تہجی کے حساب سے ہر سینیٹر آ کر اپنا ووٹ کاسٹ کرے گا۔ نو منتخب چیئرمین سینیٹ سے صدر نشین حلف لیں گے جس کے بعد نو منتخب چیئرمین سینیٹ ایوان بالا کے اجلاس کی صدارت کریں اور اسی ترتیب سے پھر ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔
خیال رہے کہ اگر یوسف رضا گیلانی اور صادق سنجرانی میں سے کوئی بھی 51 ووٹ حاصل نہ کر سکا تو پھر یہ چناؤ از سر نو اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ کوئی امیدوار واضح اکثریت (کم از کم 51 فیصد) حاصل نہ کر لے۔
سینیٹرز کو دھماکنے سے متعلق کالز کے الزام پر سوشل میڈیا رد عمل
سوشل میڈیا صارفین مریم نواز کی ٹویٹ کے جواب میں ایک طرف تو اس الزام کو رد کر کے اسے ایک اور سیاسی حربہ قرار دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسے عناصر کو بے نقاب کیا جانا چاہیے ’اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے‘۔
ایک ٹوئٹر صارف ندیا اطہر کا کہنا تھا کہ ’ان ریکارڈنگز کو الیکشن سے پہلے پبلک کرنا چاہیے تاکہ پتہ چلے کہ وہ جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور جو کہتے ہیں کہ ہمیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے؛ ان کا اصل چہرہ اور کردار کیا ہے؟