چھتیس گڑھ میں 22 انڈین فوجیوں کی ہلاکت کیا یہ سٹریٹیجک

چھتیس گڑھ میں 22 انڈین فوجیوں کی ہلاکت کیا یہ سٹریٹیجک

چھتیس گڑھ میں 22 انڈین فوجیوں کی ہلاکت کیا یہ سٹریٹیجک غلطی تھی یا انٹلیجنس ناکامی؟

انڈیا کی مشرقی ریاست چھتیس گڑھ کے علاقے بیجا پور میں سنیچر کے روز ماؤ نواز باغیوں کے خلاف ہونے والے آپریشن میں 22 انڈین فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے ڈائریکٹر جنرل کلدیپ سنگھ نے کہا ہے کہ ‘اس آپریشن میں کسی قسم کی انٹلیجنس کی غلطی نہیں ہوئی۔ بیجا پور کے آپریشن میں 25-30 نکسلی ہلاک ہوئے ہیں۔‘

تاہم اس آپریشن کے حوالے سے مختلف حلقوں میں متعدد سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اتنی زیادہ تعداد میں فوجیوں کی ہلاکت کے باعث یہ پوچھا جا رہا ہے کیا یہ سٹریٹیجک غلطی تھی یا اسے انٹلیجنس سسٹم کی ناکامی سمجھا جانا چاہیے۔ کیا فوجیوں کے مابین باہمی رابطے کا فقدان تھا جس کی وجہ سے جدید ترین اسلحوں سے لیس دو ہزار سے زیادہ جوان چند سو ماؤ نوازوں کا مقابلہ نہیں کر سکے؟

ماؤنواز باغیوں نے خود ہی جنگل میں موجودگی کی خبر پھیلائی‘

سنیچر کے روز انڈین فوجیوں اور ماؤ نواز باغیوں کے درمیان ریاست چھتیس گڑھ کے علاقے ترریم کے قریب جنگل میں جھڑپ ہوئی جس میں 22 انڈین فوجیوں کے ہلاک ہونے کے ساتھ ساتھ 31 جوان زخمی بھی ہوئے ہیں۔

حکام کا دعویٰ ہے کہ اس آپریشن میں کم از کم 25 سے 30 ماؤ نواز باغی بھی مارے گئے ہیں۔

ضلع بستر کے انسپکٹر جنرل پولیس پی سندر راج نے بتایا کہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ’22 جوانوں کی لاشیں ملی ہیں۔ 31 جوان زخمی ہیں جنھیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ ان کی حالت مستحکم ہے۔ ایک کوبرا جوان لاپتہ ہے اور سرچ آپریشن جاری ہے۔’

تاہم اطلاعات کے مطابق ماؤ نواز باغیوں کی پیپلز لبریشن گوریلا آرمی کی بیٹالیئن نمبر 1 کے کمانڈر ہرما نے خود ہی ترریم کے آس پاس کے جنگل میں باغیوں کی موجودگی کی خبر پھیلائی اور سکیورٹی فورسز کے دو ہزار سے زیادہ فوجی اس مقام کے گرد گھیرا دینے کے لیے نکل پڑے اور بظاہر ماؤنواز باغیوں کے جال میں پھنس گئے۔

ماؤنواز باغیوں کے چند بڑے حملوں میں سے ایک

اتوار کے روز نکسل آپریشن کے ڈی جی اشوک جونیجا نے کہا تھا کہ ’آج جائے وقوعہ پر پہنچنے والے سکیورٹی اہلکاروں کی ٹیم کو 20 لاشیں ملیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ماؤ نواز اپنے زخمی ساتھیوں کو تصادم کے بعد تین ٹریکٹر ٹرالیز میں لے گئے ہیں۔ اس واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔‘

ماؤنواز

اس حوالے سے بی بی سی نے مختلف ذرائع سے بات کی۔ انھوں نے بتایا کہ ایک کلومیٹر کے دائرے میں کئی جگہوں پر ایس ٹی ایف کی سرچ ٹیم کو فوجیوں کی لاشیں پڑی ملیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ یہ گذشتہ چند برسوں میں چھتیس گڑھ میں ماؤنوازوں کا سب سے بڑا حملہ ہے۔ چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپش بگھیل نے ماؤ نواز باغیوں کے ساتھ جھڑپ میں فوجیوں کی ہلاکت پر رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔

انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ایک اجلاس کیا ہے جس میں مرکزی چیف سکریٹری اجے بھلّہ، انٹلیجنس بیورو کے ڈائریکٹر اروند کمار اور وزارت داخلہ کے دیگر اعلی عہدیدار شریک تھے۔

نئی دہلی پہنچنے سے قبل گوہاٹی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا ’میں فوجیوں کے اہلخانہ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ان کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔‘

دیپک
ماؤنوازوں کے حملے میں مارا جانے والا ایک جوان دیپک

وزیر اعظم نریندر مودی نے اس واقعے کے بعد ایک ٹویٹ میں لکھا: ’چھتیس گڑھ میں ماؤنوازوں سے لڑتے ہوئے شہید ہونے والے فوجیوں کے اہلخانہ سے میری تعزیت۔ بہادر شہدا کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ زخمیوں کی جلد صحتیابی کی امید کرتا ہوں۔

ماضی کے ماؤنوازوں کے بڑے حملے

چھتیس گڑھ نکسلزم سے متاثر علاقہ رہا ہے اور اس سے قبل بھی ماؤنواز باغیوں کے ایسے بڑے حملے ہوتے رہے ہیں۔

شیام گیری: 9 اپریل 2019

دنتے واڑہ کے انتخابی علاقے میں لوک سبھا انتخابات میں ووٹنگ سے عین قبل نکسلیوں نے انتخابی مہم کے لیے جانے والے بی جے پی کے رکن اسمبلی بھیما مانڈوی کی کار پر حملہ کیا۔ بھیما مانڈوی کے علاوہ ماؤ نوازوں کے اس حملے میں ان کے چار سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہو گئے تھے۔

درگ پال: 24 اپریل 2017

ضلع سکما کے دورپال کے قریب ماؤنوازوں کے ایک حملے میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے 25 اہلکار اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب وہ سڑک کی تعمیر کو سکیورٹی فراہم کرنے کے درمیان کھانا کھا رہے تھے۔

دربھا: 25 مئی 2013

بستر کی وادی دربھا میں ماؤ نوازوں کے اس حملے میں قبائلی رہنما مہیندر کرما، کانگریس پارٹی کے صدر نند کمار پٹیل، سابق مرکزی وزیر ودیاچرن شکلا سمیت 30 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

دھوڑائی: 29 جون 2010

ماؤنوازوں نے نارائن پور ضلع کے دھوڑائی کے مقام پر سی آر پی ایف اہلکاروں پر حملہ کیا۔ اس حملے میں 27 پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔

دنتے واڑا: 17 مئی 2010

ماؤنوازوں نے دنتے واڑہ سے سکما جانے والی ایک مسافر بس کو بارودی سرنگ سے نشانہ بنایا جس میں سوار 12 سپیشل فورس کے پولیس افسران سمیت 36 افراد ہلاک ہو گئے۔

تاڑمیٹلا: 6 اپریل 2010

سی ایس پی ایف کے اہلکار بستر کے تاڑمیٹلا میں سرچ آپریشن پر نکلے تھے، جہاں مشتبہ ماؤنوازوں نے بارودی سرنگیں لگا کر 76 جوانوں کو ہلاک کردیا تھا۔

مدن واڑہ: 12 جولائی 2009

راج نندگاؤں کے مانپور علاقے میں ماؤنوازوں کے حملے کی اطلاع ملنے کے بعد وہاں پہنچنے والے پولیس سپرنٹنڈنٹ ونود کمار چوبے سمیت 29 پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا گیا اور انھیں ہلاک کر دیا گیا۔

ارپلمیٹا: 9 جولائی 2007

سی آر پی ایف اور ضلعی پولیس فورسز کے جوان ماؤنوازوں کی تلاش کے بعد ارابور کے علاقے ارپلمیٹا کے بیس کیمپ واپس جا رہے تھے کہ ماؤنوازوں نے ان پر حملہ کر دیا جس میں 23 جوان ہلاک ہو گئے۔

رانی بودلی: 15 مارچ 2007

بیجاپور کے رانی بودلی میں ایک پولیس کیمپ پر ماؤنوازوں نے نصف شب کو حملہ کیا اور شدید فائرنگ کی۔ اس کے بعد باہر سے کیمپ میں آگ لگا دی گئی۔ اس حملے میں 55 پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *