پی سی بی کی وہ حکمتِ عملی جو سوشل میڈیا پر پاکستانی مداحوں کو کرکٹ ٹیم کے قریب لے آئی
شاداب اور حارث رؤف کے درمیان کیک کھانے پر دوستانہ نوک جھونک ہو یا ثقلین مشتاق کا بابر اعظم کو نیٹ پریکٹس کے دوران آؤٹ کرنا، تمام کپتانوں کی ورلڈ کپ سے قبل بابر اعظم کی سالگرہ میں شرکت ہو یا بسمہ معروف کی بیٹی کے ساتھ انڈین ٹیم کی دل موہ لینے والی تصاویر اور ویڈیوز، پاکستانی کرکٹ شائقین کو گذشتہ کچھ سال سے کھلاڑیوں کے بارے میں وہ سب کچھ معلوم ہو رہا ہے جو وہ پہلے نہیں جانتے تھے۔
پاکستانی مداحوں کا کرکٹ سے رشتہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کیونکہ ایک عرصے تک یہ اپنے میدانوں میں کرکٹ دیکھنے کو ترستے رہے جس کے دوران ایک پوری نسل پاکستانی کرکٹ ٹیم کو صرف ٹی وی پر ہی کھیلتا دیکھ سکی۔
تاہم گذشتہ برسوں میں نہ صرف پاکستان میں کرکٹ کی واپسی ہوئی بلکہ پاکستان سپر لیگ کی شروعات اور سوشل میڈیا کے عام ہونے سے کھلاڑیوں کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کا موقع ملا اور اس سب کے درمیان مداحوں کا کھلاڑیوں سے رشتہ گہرا ہونے لگا۔
اس کی ایک وجہ تو پاکستانی ٹیم کی پرفارمنس میں بہتری اور تسلسل ہے لیکن دوسری اہم وجہ پی سی بی کی میڈیا ٹیم کی جانب سے بنایا جانے والا وہ دلچسپ مواد ہے جو ان کے ٹوئٹر، فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے شیئر کیا جاتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو جاتا ہے۔
نہ صرف کرکٹ کے روایتی مداح اس مواد سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ پی سی بی کے مطابق خواتین کی بڑی تعداد بھی اب کرکٹ کی جانب متوجہ ہو رہی ہے اور سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارنے والے نوجوان خاص طور پر کھلاڑیوں کے دیوانے ہو چکے ہیں۔
ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ایک زمانے میں صرف روایتی میڈیا کے لیے مواد بنانے والے پی سی بی کو ڈیجیٹل میڈیا کا خیال کیسے آیا، یہ سفر کب شروع ہوا اور اس تبدیلی کے پیچھے حکمتِ عملی کیا تھی؟
’مداحوں کو کھیل سے قریب کرنے کی کوشش‘
یہ کہانی سنانے سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ دنیا بھر میں ہی کھیلوں سے متعلق مواد وقت کے ساتھ تبدیل ہوا ہے اور اب ’سپورٹس کمیونیکیشن‘ ایک باقاعدہ انڈسٹری بن چکی ہے۔
کرکٹ میں شاید اس حوالے سے کرکٹ آسٹریلیا کو سبقت حاصل ہے جنھوں نے سوشل میڈیا پر مواد بنانے سے متعلق بہت پہلے ہی اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر لی تھی تاہم پی سی بی میں یہ تبدیلی سنہ 2019 کے بعد سے آنا شروع ہوئی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پی سی بی کے ڈائریکٹر میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سمیع الحسن نے اس حکمتِ عملی کو ’مداحوں کو کھلاڑیوں سے قریب لانے کی کوشش‘ قرار دیا۔
انھوں نے بتایا کہ ’پی سی بی کی حکمتِ عملی میں تبدیلی کی وجہ یہ تھی کہ کھیل مداحوں سے ہوتا ہے اور مداحوں کو کھلاڑیوں سے قریب رکھنا بہت اہم ہے کیونکہ یہ ہر وقت ممکن نہیں ہو سکتا ہے۔‘
’مداح یہ جاننا چاہتے ہیں کہ گراؤنڈ سے باہر کھلاڑی کس طرح رہتے ہیں، کیا کرتے ہیں اور اپنے کو بہتر کرنے کے لیے کیا کرتے ہیں۔‘
پی سی بی کی میڈیا حکمتِ عملی میں تبدیلی ایک ایسے وقت میں ہوئی جب پاکستان میں کرکٹ کی واپسی ہو رہی تھی اور بڑی ٹیموں کو پاکستان میں لانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔
ایسے میں پی سی بی کی میڈیا ٹیم کی جانب سے بنایا گیا مواد باقی دنیا کے لیے ’پاکستان کرکٹ کا چہرہ‘ تھا۔
سمیع الحسن کہتے ہیں کہ ’آپ دنیا کو اپنی کرکٹ کس طرح دکھاتے ہیں یہ بھی اہم تھا کیونکہ اس وقت ٹیمیں پاکستان نہیں آ رہی تھیں تو یہ اپنا پیغام باہر بھیجنے کا بھی اہم ذریعہ تھا تاکہ دنیا کو پتا چلے کہ پاکستان میں کرکٹ کے بارے میں جذبہ کتنا زیادہ ہے۔‘
مداحوں کی پسند کو سمجھنے کی جستجو
ظاہر ہے جس قسم کا مواد آج کل پی سی بی کے میڈیا پلیٹ فارمز پر دیکھنے کو ملتا ہے اس کو تیار کرنے کے لیے اسی طرح کی مہارت والے افراد بھی درکار ہوتے ہیں۔
اس کے لیے نئے سرے سے ایک ٹیم تشکیل دی گئی جس کا کام میڈیا مینجمینٹ کے علاوہ مواد بنانا بھی تھا یعنی پاکستانی ٹیم کے ساتھ جانے والے میڈیا مینیجر اگر ماضی میں صرف میڈیا مینجمنٹ کرتے تھے تو اب ان کا کام گراؤنڈ سے باہر اور کیمرے کی آنکھ سے اوجھل کھلاڑیوں کی زندگیوں کے بارے میں مداحوں کو آگاہ رکھنا بھی تھا۔
تاہم یہ تمام عمل کرنے کے بعد ایسی حکمتِ عملی کی تشکیل بھی ضرروی تھی جو مداحوں کی پسند جانچ سکے کیونکہ تمام مواد میڈیا ٹیم کی جانب سے خود ہی پروڈیوس کیا جاتا ہے۔
سمیع الحسن کہتے ہیں کہ ’جو ٹیم ہم نے بھرتی کی وہ دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق کام کرتی تھی اور اس قسم کے آئیڈیاز لے کر آتی تھی جو سوشل میڈیا صارفین کی خواہشات کے مطابق ہوں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اصل بات مداحوں کی خواہشات کو تسلیم کرنا اور پھر اسے مواد میں تبدیل کرنا تھی، ہمارے پاس جتنا بھی آؤٹ آف دی باکس آئیڈیا آتا ہم اسے تسلیم کرتے اور اس پر کام کرنے کی کوشش کرتے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم ایک ہی چیز کو بار بار دہراتے نہیں کیونکہ ہم نے یہ سیکھا ہے کہ اگر آپ ایک ہی چیز بار بار دکھائیں گے تو صارفین اس سے تنگ آ جائیں گے۔‘
’تو ہم ہر وقت نئے آئیڈیاز سامنے لا رہے ہوتے ہیں، وہ ہمیں ٹیم سے بھی ملتے ہیں، سوشل میڈیا سے بھی اور یہاں تک کہ پاکستان کرکٹ سے بھی آئیڈیاز ملتے ہیں جنھیں ہم مواد میں تبدیل کرتے ہیں۔‘
خواتین اور نئی نسل کو کرکٹ کی طرف راغب کرنا
پی سی بی کی جانب سے شیئر کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2019 اور 2022 کے درمیان پی سی بی کے ٹوئٹر پر 35 لاکھ، فیس بک پر 41 لاکھ، یوٹیوب پر 32 لاکھ، انسٹاگرام پر 17 لاکھ جبکہ ٹک ٹاک پر سات لاکھ سے زیادہ فالوئرز ہیں۔
تاہم اگر سوشل میڈیا پر نظر دوڑائیں تو آپ کو پی سی بی کی جانب سے جاری کردہ مواد پر خواتین اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد تبصرے کرتی دکھائی دے گی۔ یہ اس عام رائے کے برعکس ہے کہ خواتین کرکٹ میں کم دلچسپی لیتی ہیں۔
اس کے علاوہ خواتین کرکٹ ٹیم سے متعلق مواد بھی خاصا پسند کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں پاکستانی کپتان بسمہ معروف کی بیٹی کے ساتھ انڈیا کی ٹیم کی ویڈیوز اور تصاویر خاصی وائرل ہوئی تھیں۔
سمیع الحسن کے مطابق ’یہ ہماری حکمتِ عملی کے دو اہم پہلو تھے کہ ہم نے خواتین اور نئے لوگوں کو کرکٹ کی جانب راغب کرنا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’خواتین ہماری آبادی کا 49 فیصد ہیں اور ہماری ڈیجیٹل سٹریٹیجی کا ایک اہم حصہ ہیں اور اس کے علاوہ ہم ایسی نسلوں کو کرکٹ کی جانب لانے کی کوشش کر رہے ہیں جنھوں نے ایک عرصے تک پاکستانی ٹیم کو ہوم گراؤنڈز میں کھیلتے دیکھا ہی نہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہمیں آج کے دور میں مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں دورِ حاضر کی ضروریات کے مطابق کام کرنا ہو گا کیونکہ آنے والے دنوں میں ڈیجیٹل آمدن کا اہم ذریعہ ہو گا۔
روایتی میڈیا کا ’عدم تحفظ‘
ظاہر ہے جب حکمتِ عملی یا سوچ میں تبدیلی لائی جائے تو اس میں مشکلات بھی سامنے آتی ہیں۔
تاہم سمیع الحسن کے مطابق چیلنجز ادارے کے اندر سے کم اور روایتی میڈیا کی طرف سے زیادہ تھے، جو اس کے باعث ’عدم تحفظ‘ کا شکار ہو رہے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’جب ہم روایتی میڈیا سے نئے میڈیا پر منتقل ہو رہے تھے تو روایتی میڈیا کے افراد عدم تحفظ کا شکار نظر آئے کہ شاید ہم ان کی قدر میں کمی کر رہے تھے، ہمارا یہ مقصد کبھی بھی نہیں تھا۔‘
’جہاں روایتی میڈیا ہمارا سٹیک ہولڈر ہے اسی طرح مداح بھی ہمارے اتنے ہی اہم سٹیک ہولڈرز ہیں اور ہم انھیں کھیل کے قریب لانا چاہتے تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’کچھ مخالفت ضرور دیکھنے کو ملی روایتی میڈیا کی طرف سے لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے بھی اس بات کو سمجھا ہے اور وہ بھی سوشل میڈیا پر خاصے متحرک ہیں۔‘
خیال رہے کہ اکثر صحافیوں کو شکوہ تھا کہ پی سی بی صحافیوں کو کھلاڑیوں تک وہ رسائی فراہم نہیں کرتا جو اس سے پہلے کی جاتی تھی۔
تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے گذشتہ کئی دہائیوں سے دی نیوز کے لیے کام کرنے والے صحافی عبدالمحی شاہ نے بتایا کہ ’یہ تاثر ایک وقت میں قائم تھا لیکن یہ اس لیے غلط تھا کیونکہ پی سی بی ہی دنیا کے لیے پاکستان کی کرکٹ کے بارے میں جاننے کا ذریعہ ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر آپ صحیح معنوں میں صحافی ہیں تو آپ رسائی کے مسائل کے باوجود بھی سٹوری نکال لیتے ہیں اور ایسا کوئی مسئلہ اس وقت درپیش نہیں۔‘
سمیع الحسن کا کہنا ہے کہ ’یہ تنقید اس لیے بھی سمجھ سے بالاتر تھی کیونکہ کسی بھی ادارے کی کمیونیکیشن ٹیم کا کام اپنے ادارے کی اچھی چیزیں دکھانا ہوتا ہے اور یہی ہم کر رہے ہیں لیکن یہ روایتی میڈیا کو اپنا کام کرنے سے روک تو نہیں رہا۔‘